New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 01:54 PM

Urdu Section ( 9 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Shah e Hamdan’s Hospice and its Desecration شاہ ہمدان کی خانقاہ اور اس کی بے حرمتی

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 8 اگست 2024

 شاہ حمدان شیعہ تھے یا سنی، اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں، اصل سوال، جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے، وہ خانقاہوں تک رسائی کا ہے۔ خانقاہیں کس کی ہیں، شیعہ کی یا سنی کی؟ مساجد پہلے ہی تقسیم ہو چکی ہیں۔ شیعہ اور سنی عبادت گاہیں الگ الگ ہو چکی ہیں، اور دونوں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

 ------ 

Amir-e-Kabir, Ali Sa'ani, Shāh Hamdān, Mir Syed Ali Hamdani-RA

------

 محرم 2024 کا مہینہ شیعہ سنی تنازعات سے بھرا ہوا رہا۔ 19 جولائی (12 محرم) کو شیعہ نوجوانوں کے ایک گروپ نے، نوحہ خوانی کی اور شاہ ہمدان کی خانقاہ میں مرثیہ پڑھا۔ یہ واقعہ جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، جس کی اکثر سنی عوام اور علمائے کرام نے تنقید کی، اور اسے توہین آمیز قرار دیا۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم یو) نے بھی ایک بیان جاری کیا، کہ اس ’’بے حرمتی‘‘ کے ذمہ دار افراد کو کٹہرے میں لایا جائے، اور ان کا محاسبہ کیا جائے۔

 جموں و کشمیر وقف بورڈ نے بھی مداخلت کی، اور کہا کہ ایسی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ اس حرکت پر لوگ بھی ایسے پریشان تھے، گو کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ واقعہ سری نگر کے شہید گنج علاقے میں، پہلے اشتعال انگیز نعروں کے بعد پیش آیا، جہاں شیعوں کو کافر قرار دیا گیا۔ کافر، کافر شیعہ کافر، ایسے ہی نعرے پاکستان کے بہت سے شہروں میں گونجتے رہتے ہیں، اور لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں، اسے فروغ دیتی ہیں۔

 یہ دہشت گرد تنظیمیں، عموماً شیعوں کے خلاف پرتشدد حملے کرتی ہیں، اور اس کے بدلے میں شیعہ بھی، ان تنظیموں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سارے تشدد کا اصل شکار، عام شیعہ اور سنی ہوتے ہیں۔ دائمی طور پر شیعہ سنی جھگڑے کی فضا پیدا کرنے کے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس میں تشدد کا کھل کر استعمال کیا جائے گا۔ اس کے بعد احاطے میں نوحہ پڑھنے والے نوجوانوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا۔ اس سے قبل پولیس نے سخت یو اے پی اے کے تحت، جلوسوں کے دوران فلسطینی پرچم اٹھانے والے، چند شیعہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، جس کی تنقید کی گئی، کیونکہ کربلا کا پیغام مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔

اس واقعے نے مختلف مسائل بھی جنم دیے، جن کو انتشار کے اس ماحول میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعے اور اس کے رد عمل کے حوالے سے چند باتیں کی جا سکتی ہیں۔

1. کیا یہ واقعہ "کافر کافر شیعہ کافر" جیسے اشتعال انگیز نعروں کا ردعمل تھا؟

2. کیا ہم شیعہ کا احیاء نو دیکھ رہے ہیں، کیونکہ بہت سے بڑے سنی علما، اب کھل کر اہل بیت کی حمایت کر رہے ہیں، اور معاویہ اور بنو امیہ کی مذمت کر رہے ہیں، جو سوشل میڈیا کی آمد کی وجہ سے اور بھی افشاں ہو گیا ہے؟

3. کیا تمام عرب ممالک کے مقابلے میں، غزہ کے اندر فلسطینی سنیوں کے حق میں، شیعوں کی کھلی حمایت کی وجہ سے، شیعوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے؟

4. کیا یہ عظیم سنی عالم دین اور بزرگ، میر سید علی ہمدانی کی شخصیت کو استعمال کرنے کی کوشش ہے؟

5. کیا یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے، تاکہ ریاست کو، مزارات کے اندر پولیس تعینات کرنے کا جواز مل جائے؟

یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، جن میں کچھ حقیقت کی بو بھی پائی جاتی ہے۔ بعض سنی علمائے کرام نے، اسے مبینہ طور پر 'بے حرمتی' کی جوابی کارروائی قرار دیا تھا، جسے شیعہ عالم آغا سید ہادی موسوی نے مسترد کر دیا ہے، اور یہ کہا ہے کہ اگر نوحہ پڑھنا خانقاہ کی بے حرمتی ہے، تو مختلف فلموں، مثلا بجرنگی بھائی جان کی شوٹنگ مزارات کے احاطے کے اندر کیا جانا، زیادہ بڑی بے حرمتی ہو گی۔ مزید برآں، سخت قوانین کے تحت شیعہ نوجوانوں کی گرفتاری کا مطالبہ نامناسب ہے، کیونکہ انہوں نے ایک رسم ادا کی تھی اور یہ درست ہے۔ دوسرے شیعوں کی طرح، وہ بھی یہی مانتے ہیں، کہ میر سید علی ہمدانی شیعہ ہیں، کیونکہ بہت سے شیعوں کا یہی دعویٰ ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں شیعہ اور سنی دونوں میں ہمدانی برادری پائی جاتی ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمدان وسطی ایشیا کے ایک خطے کا نام ہے، جس سے میر سید علی اور ان کے پیروکاروں کو جوڑ دیا گیا ہے، جن میں سے بہت سے کشمیر میں آباد ہو گئے، اور وہ سب کے سب نسب میں سید نہیں تھے، بلکہ اتنی صدیوں میں تمام ہمدانی سید ہونے کا ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ سنی اور شیعہ دونوں میں ایک جیسا ہی ہے۔ شیعہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہی میر سید علی ہمدانی کی وراثت کے حقیقی وارث ہیں، جو شاہ ہمدان کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شاہ ہمدان شیعہ تھے، جو کہ ایک ایسا دعویٰ ہے، جس کی سنیوں نے ہمیشہ ہی تردید کی ہے۔

شاہ ہمدان شیعہ تھے یا سنی، اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں، اصل سوال، جس کا جواب دینے کی ضرورت ہے، وہ خانقاہوں تک رسائی کا ہے۔ خانقاہیں کس کی ہیں، شیعہ کی یا سنی کی؟ مساجد پہلے ہی تقسیم ہو چکی ہیں۔ شیعہ اور سنی عبادت گاہیں الگ الگ ہو چکی ہیں، اور دونوں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

تاہم، مزارات اور خانقاہیں جامع اور تکثیریت پسند جگہیں تھیں، جہاں دونوں ایک ساتھ نماز پڑھ سکتے تھے، اور مل جل کر رہ سکتے تھے۔ اب وہ بھی سمٹتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور یہ رجحان واقعی تشویشناک ہے۔ خانقاہوں اور مزارات نے پل کا کام کیا ہے، جن میں شیعہ سنی تفریق کو ختم کرنے کی صلاحیت تھی۔ اگر ان مقامات پر بھی علیحدگی پسندی حاوی ہو جائے، تو اس تقسیم کو مزید تقویت ملے گی۔ اگر الزامات اور جوابات کا حل، امت کے قائدین نے خود نہیں نکالے، تو اس کے نتیجے میں کچھ ممبران کو ایک طویل عدالتی عمل گزرنا ہوگا۔ لہٰذا، کسی مذہبی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں سیکولر ادارے کی ثالثی میں، غیر مذہبی حل تلاش کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بہر کیف، یوں معلوم ہوتا ہے، کہ علمائے کرام اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر عوام کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے، علمائے کرام مجبور ہوئے کہ وہ متحدہ مجلس عمل (MMU) کا اجلاس طلب کریں۔ ایم ایم یو نے ہمیشہ کی طرح، امن اور باہمی افہام و تفہیم کی اپیل کی، اور مبلغین کو دوسرے فرقوں کے پیروکاروں اور علماء کے لیے توہین آمیز زبان استعمال نہ کرنے کی تلقین کی، جبکہ خانقاہ کے اندر نوحہ خوانی کے واقعے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی۔ ایم ایم یو تمام طبقے اور فرقوں کے علما کی نمائندگی کرتا ہے، اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے، کہ خواہ شیعہ ہوں خواہ سنی، سب مسلمان ہیں۔ یہ یقیناً ایک معروف حقیقت ہے اور فرقہ واریت کی مذمت قابل ستائش ہے۔

لیکن بات پھر یہی ہے، کہ مروجہ حقیقت کے سوال، اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے جیسے عملی اقدامات پر عمل درآمد سے، ایک الگ ہی پیغام لوگوں کے درمیان جاتا، کیونکہ یہ بیان بازیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایم ایم یو فرقہ واریت سے پیدا ہونے والے بحران کو دور کرنے کے لیے اکٹھا ہوا ہے، جو کہ ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور عوام کی طرف سے ردعمل کے خوف سے، وہ محض بیان پر بیان جاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ فرقہ واریت کا اصل چیلنج اب بھی زندہ ہے۔

علمائے کرام اسلام کی خاطر فرقہ واریت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لہذا، اس طرح کے اتحاد سے صرف یہ ہوگا کہ، فرقہ واریت کے شعلے وقتی طور پر بجھتے ہوئے نظر آئیں گے، جب کہ انگارے ویسے ہی دہکتے رہیں گے، جس سے فرقہ واریت کی یہ آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔ فرقہ واریت کی جڑوں پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی، کیونکہ اس سے بہت سارے ملاؤں کی آمدنی کا ذریعہ بند ہو جائے گا، کیونکہ ان کا وجود فرقہ واریت کی مرہون منت ہے۔

English Article: Shah e Hamdan’s Hospice and its Desecration

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/shah-hamdan-hospice-desecration/d/132900

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..