New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 07:32 AM

Urdu Section ( 26 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sharia Laws and Polygamy Parleys شرعی قوانین اور تعدد ازواج کے حامی

 

شبینہ اختر

6 مارچ 2013

جولائی 2012 میں دہلی کے مولوی مصطفیٰ رضا نے مبینہ طور پر ایک چھوٹی بچی کی شادی ایک شادی شدہ مرد سے کر کے مجرمانہ عمل کو بڑھاوا دیا ہے ۔ نکاح کا عمل اس لڑکی کی مرضی کے بغیر  اور اس کے والدین کی غیر موجودگی میں انجام دیا  گیا ۔

حال ہی میں تیس ہزاری کورٹ دہلی کے ایڈیشنل سیشن جج کامنی لاؤ نے ایک امتیازی فیصلہ صادر کیا جس میں انہوں نے رضا کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ  شریعت کے مطابق ایک مسلم مرد کو ایک وقت میں چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے ۔ انہوں نے فیصلہ دیتے وقت   کہا کہ ‘‘ میں یہ مشاہدہ کر سکتی ہوں کہ ایسے ممالک میں بھی جہاں شرعی قوانین کے مطابق حکومت کی جاتی ہے ، دوسری شادی کی اجازت کچھ خاص حالات میں ہی دی گئی ہے مثلاً پہلی بیوی کی کمزوری یا اس کا بچہ برداشت کرنے کے قابل نہ ہونا۔ ان حالات میں ایک انسان دوسری شادی کر سکتا ہے اور اسی کو تعدد ازدواج کہا جا تا ہے ۔ قرآن مقدس  ایک مسلم مرد کو ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ  (چار تک) شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے ، لیکن اس عمل کو  فروغ نہیں دیتا ہے ۔’’

لاؤ کے اس بیان کی کہ اسلام تعدد ازدواج کو فروغ نہیں دیتا ہے  بہت سارے لوگوں نے تعریف کی ہے، لیکن ان کے ذریعہ کئے گئے شریعت کی اس تشریح سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ بہت زیادہ خوش نہیں ہیں ۔ بلا شبہ اس حالیہ فیصلے نے ایک مرتبہ پھر   یہ مباحثہ چھیڑ دیا ہے کہ  سول عدالتیں  شریعت کی ترجمانی کر  سکتی ہیں یا نہیں ۔

آل انڈیا مسلم ومنس پرسنل لاء بورڈ کی صدر  شاہستہ عنبر  نے کہا کہ ‘‘مجھے ایک ایسی لڑکی کو انصاف  دیتے ہوئے  جس کے ساتھ ظلم کیا گیا ہو عدالت کے ذریعہ شریعت کی تعبیر و تشریح کرنے میں کوئی حرج نہیں لگتا  ’’ ،   راجستھان میں مسلم عورتوں کے حقوق کے لئے سر گرم کارکن نشاۃ حسین نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ ‘‘ ایک کارکن ہونے کے ناطے میں اس فیصلے کا استقبال کرتی ہوں ’’۔

 ایک اچھے طریقے سے مسلم پرسنل لاء کی تشریح کرنے پر یہ شور اور ہنگامہ صرف اس کیس میں ہی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور حالیہ کیس میں بھی ایسا ہوا تھا  جس میں حیدرآباد میں ایک قاضی نے ایک چھوٹی بچی سمیت ایک عورت کی شادی موٹی مہر کے بدلے میں عربیوں سے کروادی تھی۔ اس کے علاوہ چند سالوں پہلے عمرانہ کا کیس سامنے آیا تھا ، جس میں علاقائی مسلم رہنماؤں نے شریعت کی تشریح کی اور اسے اس کے اس  سسر سے شادی کرنے کے لئے کہا جس نے اس کی عصمت دری کی تھی ۔

لیکن حیرت زدہ کر دینے والے ان مسائل کے علاوہ ، دوسرے مسائل میں شریعت کی تعبیر و  تشریح کرنے والی سول عدالتوں  کے ساتھ سنگین حالات پید ہو گئے تھے ۔ مثال کے طور پر  دہلی کی ایک اسلامی تنظیم  جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری محمد سلیم انجینئر  نے کہا کہ لاؤ کا بیان غیر آئینی ہے ۔  انہوں نے کہا کہ ‘‘ میں سول کورٹ کے ذریعہ شریعت کی تشریح کئے جانے کے خلاف ہوں ۔ اس کے لئے ہمارے پاس دالعلوم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے ’’۔

لیکن کیا شریعت کی تعبیر  و تشریح کرنا واقعی اسلامی علماء  کا  ہی فریضہ ہے ؟ سیف محمود، ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ آف انڈیا اور ایمیکس جیوریز لائرس نئی دلی کے  منیجنگ پارٹنر نے کہا کہ ‘‘یہ کہنا غلط ہے کہ صرف قاضی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  ہی ان قوانین کی تعبیر و تشریح کر سکتا ہے ۔ ہندوستانی عدالتیں ان کا سامنا کرتی ہیں اور اسی لئے  روزانہ اسلامی اصول و قوانین کی  تعبیر و تشریح کرتی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘ ہماری عدالتوں کے اندر مسلمانوں کے بھی گھریلو تنازعات میں مداخلت کرنے کی صلاحیت ہے ، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مسلم قوانین کی بھی تعبیر و تشریح کرنے کی آزادی ہے ’’۔

کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل چندرئی عالم  کا کہنا ہے کہ ‘‘ کسی ایسے کیس میں جس میں مسلم پرسنل لاء کی تعبیر و  تشریح کرنے کی ضرورت پیش آئے کوئی بھی کسی عورت کے  حق میں فیصلہ کر کے تنازعات میں نہیں گھرنا چاہتا’’۔

عالم کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تعبیر و  تشریح  میں اکثر جنسی تعصب کا عنصر شامل ہوتا ہے ۔ ‘‘ یہ تنظیم مرد چلاتے ہیں لہٰذ وہ اس کی تعبیر و  تشریح اپنی سہولت کے مطابق کریں گئے ’’۔

ان سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ‘‘ دارالعلوم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کبھی بھی عورتوں کے حق میں   فیصلہ نہیں دیا ہے ’’، اور یہ سوال کرتی ہیں کہ ‘‘لہٰذا مسلم عورتیں انصاف کے لئے کہا جائیں گی ’’۔ عمرانہ کے کیس کا حوالہ پیش کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ ‘‘ جب اسے اس کے شوہر کو چھوڑنے اور  اس کے زانی سسر کے پاس جانے کے لئے کہا گیا تو ان قاضیوں اور مولویوں کی کیا رائے تھی ۔ ایسے ہی فیصلوں سے ہمیں خوف ہے ، لہٰذا اگر  سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ شریعت کی تعبیر و  تشریح کرتا ہے تو اس میں مجھے کوئی قباحت نہیں نظر آتی ’’۔

عالم کا کہنا ہے مسلم پرسنل لاء کی ترتیب و تدوین کرنے کی ضرورت ہے جو کہ  بہت سے مسلم ممالک میں ہو چکی ہے ۔

یقیناً ترکی اور تیونس جیسے اسلامی ممالک میں تعدد ازدواج غیر قانونی ہے، یہاں تک کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں شادی شدہ مردوں کو پہلی بیوی سے تحریری طور پر اجازت لینا اور اس کے بعد کونسل کے سامنے حاضر ہونا ضروری ہے ۔ 1961 میں مسلم فیملی لاء آرڈیننس نے  پاکستان اور مشرقی پاکستان میں تعدد ازدواج کے تعلق سے نئے قوانین کا نفاذ کیا ہے ۔

لیکن دہلی کی ایک اسلامی تنظیم  جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری محمد سلیم انجینئر کے مطابق ہندوستان کا تقابل  دوسرے اسلامی  ممالک سے کرنا  غلط ہے ۔  ان کا کہنا ہے کہ ‘‘ تمام اسلامی ممالک  میں کما حقہ  اسلام پر عمل نہیں کیا جا تا اسی لئے ہم ان کی اندھی تقلید نہیں کر سکتے۔

تاہم ایک ایسے کونسل کا مطالبہ بڑھ رہا ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ ایک مسلم مرد کو دوسری تیسری یا چوتھی شادی کرنی چاہئے یا نہیں ۔ عنبر نے اس بات پر زور دیا کہ ‘‘ ایسے ایک کونسل کی ضرورت  شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے ’’۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘اگر دارالعلوم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا مظلوم  عورتوں کے تئیں فیصلہ عدل و انصاف کے معیار پر کھرا نہیں اترتا  تو  سول کورٹ کا  رخ کرنے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے  ۔’’

یہ ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ اور اس بات کے کچھ امکانات ہیں کہ  اس موضوع پر مباحثہ کہ کیا سول عدالتوں کو  مسلم پرسنل لاء کی تعبیر و تشریح  کرنی چاہئے یا نہیں  جلد ہی کسی بھی وقت سرد پڑ سکتا ہے ۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)

ماخذ : http://www.telegraphindia.com/1130306/jsp/opinion/story_16638462.jsp#.UTcbZNZyAgp

URL for English article:

https://newageislam.com/islam-women-feminism/sharia-laws-polygamy-parleys/d/10660

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/sharia-laws-polygamy-parleys-/d/34618

 

Loading..

Loading..