New Age Islam
Fri May 16 2025, 08:07 PM

Urdu Section ( 18 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Serious Search for True Leadership اصل قیادت کی سنجیدہ تلاش

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

15 ستمبر،2023

جیسے ہی مسلم قیادت کا ذکر کیجئے فوراً سیاست یا مذہب کا تصور ابھرآتا ہے۔مذہبی وسیاسی قیادت کے کردار کا میرے یہاں یقینا اعتراف اور احترام دونوں ہی ہیں۔مگر آج پہلے اس کی وضاحت ضروری ہے جس کی کہیں زیادہ اہم کلیدی اور فیصلہ کن حیثیت ہے۔

والدین او ران کی بے لوث سرپرستی وہ پہلی قیادت ہے جہاں نسل سازی اور شخصیت سازی کا عمل اپنے وجود کی بنیاد پاتاہے۔ یہ وہ پہلی درسگاہ و تربیت گاہ ہے جس کے امیر امین بن کر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ ان سے ایسی توقع کی جاتی ہے۔ غور کریں آج ہمارے معمولات زندگی کیا ہیں؟ دانستہ دیر سے سونا، پھر دیر سے اٹھنا، فجر ترک کرنا، ناشتہ وقت پر نہ کرنا، بچوں کو اسکول بھیجنا پھر سو جانا،وقت پرکھانے پینے کا نظم کم رکھنا، باہر پر زیادہ انحصار رکھنا، بچوں کا اسکول ہوم ورک تو شاید قدرے تندہی سے کرا دینا مگر ان کی اخلاقی تربیت سے دانستہ غفلت برتنا یہ سب عام ہوگیا ہے۔

والدین اپنی اولاد کو وقت دے ہی نہیں رہے ہیں۔ ہر وقت موبائل اور اس کا نشہ کتنی زندگیوں کو اجیرن بنا رہا ہے، گھر یلو رشتے پامال ہورہے ہیں، قدریں فنا ہورہی ہیں، غیبت معمول بن چکی ہے، ایسے ماحول میں ہم اپنی نسلوں کی پرورش کررہے ہیں، اور خواہش فتح کل کی رکھتے ہیں۔ جو خود پر فتح نہ پاسکے اس سے کمزور اور نادار اورکون ہوسکتاہے؟ میں اس طبقے کو اپنے معاشرے کا خودکشی پر آمادہ طبقہ مانتا اور گردانتا ہوں۔یہ وہ گڈھا ہے جس میں پانی ٹھہرا ہوا ہے، پہلے مرحلے میں وہ گدلا ہوتا ہے، پھر اس پر مچھر منڈلانے لگتے ہیں اور بالآخر وہ ایک وائرس کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ یہ بیماری کی وہ پہلی منزل ہے جہاں سے خرابی پیدا ہورہی ہے۔

اسی ماحول میں آج ایسے متعدد والدین کی قیادت سامنے آرہی ہے جو ایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں، اقتصادی طور پر مفلس الحال ہیں مگر عزم جواں رکھتے ہیں، جو توکل اور قناعت پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنے شب و روز اپنی اولاد کو لعل وگوہر کی طرح تراشنے کے عمل میں زندگی کھپاتے ہیں۔رکشتہ چلانے والے، آٹو رکشہ چلانے والے، معمولی ٹھیلہ لگا کر گھر چلانے والے، مساجد کے اماموں کی اولادیں، مدارس سے فارغ ہونیوالے کچھ غریب طلباء اعلیٰ ترین مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھ رہے ہیں اور سرخرو ہورہے ہیں۔ گھر میں نادار والدین کی قیادت کرشمے کررہی ہے۔معذرت کے ساتھ میری نظر میں یہ ہمارے معاشرے کے صف اول کے قائد ہیں نہ کہ جو تقریر یں بہت کررہے ہیں جن کے اہداف کہنے کے کچھ، کرنے کے کچھ اور حاصل کرنے کے کچھ او رہی ہیں؟

مخیر حضرات، تربیتی ادارے، شخصیت سازی پر کام کرنے والے ماہرین، سرکاری وغیر سرکاری وظائف کی متعدد اسکیموں سے آگاہ کرنے والے او ر ان کو مستحقین کے درتک لے جانے والے ایسے حضرات بھی  قیادت کے اسی زمرے میں شامل ہیں جو مسلم معاشرے کی صفوں وعقلی جہتوں میں درستگی کا قابل تعریف ولائق تقلید کام کررہے ہیں۔

مواقع کی کمی نہیں! کہیں امتیاز یا سفارش کا عمل دخل نہیں! کامیاب بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی ضامن وگواہ ہے کہ ہمارے یہاں تمام مقابلہ جاتی امتحانات چاہے آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی، مرکزی وریاستی سول سروسز وعدلیہ وغیرہ لگ بھگ سب ہی تعلیمی کورسز میں نچلی سے اعلی ترین سطح تک سارا سسٹم اب خود کا ہوچکاہے اور ہر تعصب و امتیاز سے بالا ہے۔ محنت اور عزم محکم کا کوئی متبادل نہیں! جن گھروں میں والدین اپنی اولاد وں کی پرورش ان خطوط پرکررہے ہیں وہ ترقی کے اس دور میں آج کے قائدین ہیں نہ کہ وہ جن کا سارا وقت ناقدین یا ناصحین کی حیثیت سے گزرہا ہے۔

دوسری قیادت اساتذہ کرام کی ہے جن کو ہم نے معاشرے میں معتوب بنادیا۔ ان کے حوالے سے ایسے نازیبا الفاظ کا استعمال آ ج ذمہ دار ان اپنی نشستوں میں کرتے ہیں کہ جن کو قلم بند کرنا بھی اخلاقی گراوٹ ہے۔میں نہیں کہتا کہ وہ کوئی اللہ کے ولیو ں کی جماعت ہے وہ بھی اسی دنیا اور اسی معاشرے کے نشیب وفراز کی پیداوار ہی، مگر جطگی بستیو ں (Slums) میں رہنے والے مفلس الحال او رمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا نمونہ بن کر سامنے آرہے ہیں۔ کیا اس کے لئے استاد کے کردار کی نفی کرکے یا اسے معتوب کرکے کسی دوسرے کو کریڈٹ دیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ کوچ یا ٹیوٹر کی حیثیت میں بھی اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں او را س حلا ل محنت کا محنتانہ طلب کررہے ہیں تب بھی ہر ترقی ونسل سازی کے پیچھے اسی کاکلید اور نوید ہے۔ تعلیمی اداروں او ران کے سربراہان کا ان پر اعتماد، ان کی معاونت، بروقت ستائش او ربرملا اس کااظہار وہ کرشمے کرسکتا ہے اور کرتا ہے جس کا شاید تصوربھی آسان نہیں۔ یہ وہ قیادت ہے جو نرسری سے اعلیٰ ترین سطح تک کسی ملک ومعاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈالتی، اس کو یقینی بناتی اور گامزن کرتی ہے۔

تیسری مذہبی قیادت ہے جو مساجد ومدارس کی شکل میں موجود ہے۔ دونوں سطح پر بیشتر ہم روایتی طریقوں او ر بند گی کے طرز پر چل رہے ہیں اس لئے لاکھوں مدارس، مساجد، خانقاہیں، ماشاء اللہ جبہ قبہ والی ان گنت ہستیاں، شعلہ بیان مقررو واعظین کی کثیر تعداد مگر ہماری بستیاں، محلے، گلیاں، اخلاقی پستی و پسپائی کے جو مناظر پیش کررہی ہیں اور جو ساکھ آج ہماری بنی ہے وہ ایک سوالیہ نشان سے کم نہیں! یہاں بھی تمام مثبت کا اعتراف او را سکی تعظیم کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حال ہی میں شیخ ابوبکر مدظلہ العالی نے کیرالہ میں جو کرشمہ نالج سٹی بنا کر انجام دیا ہے اور غلام وستانوی صاحب دامت برکاتہم نے جو مدارس اور جدید علوم کابہترین امتزاج گجرات میں قابل دید میڈیکل کالج اور تمام جدید علوم کا مرکز بنا کر پیش کیا ہے یہ آج کی مذہبی قیادت کی وہ مثال ہے جو تائید او ر تقلید چاہتی ہے جس کی آج اس شعبہ حیات میں اشد ضرورت ہے۔

یوں تو تمام مذہبی تنظیمیں،ادارے وشخصیات او ران کے تعمیری کردار کو سلام ہے بالخصوص جمعیت کے دونوں دھڑوں او رجماعت اسلامی کو سلام تحسین پیش ہے۔ان کی فساد زدہ متاثرین او رمعصوم نوجوانوں کی بازیابی اور عدلیہ کی سطح پر ملت کی لڑائی لڑنے کے حوالے سے خدمات کا پور ی قوم اعتراف کرتی ہے۔ محسنوں کو کبھی بھلا یا نہیں جاتا۔

ساتھ ہی جدید تعلیم کے میدان میں چوطرفہ جو کوششیں ہوئیں یا ہورہی ہیں وہ سب ہمارے قائدین برحق ہیں۔ شخصیت سازی کے میدان میں انعامدار اکیڈمی آف اسپوکن انگلش او راسکل ڈپولپمنٹ نے ہزاروں طلبا ء کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ انڈیا اسلامک کلچر ل سینٹر نے بھی ماہرین کے ذریعہ ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دے کر یہ کرشمہ کر دکھایاہے۔

سیاسی قیادت کا گزرتے وقت کے ساتھ معیار بہت گرا ہے۔آج علمی سطح پر اگر مسلم اراکین پارلیمانی او ران کی نمائندگی کے حوالے سے تجزیہ کریں تو معدودے چند نام بھی لینا معذرت کے ساتھ آسان نہیں۔ ایک زمانے میں ایسی متعدد شخصیات تھیں جو قانون سازی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرتی تھیں اور اپنی بات کو پوری منطق ودلائل سے رکھتی تھیں۔ آج ماسوا ایک دو کے یہ صلاحیت مشکل سے دکھائی دیتی ہے۔ بولنے والے بہت ہیں مگر مضمون! انڈین یونین مسلم لیگ کیرالہ، مجلس اتحاد المسلمین تلنگانہ اور آسام میں بدرالدین اجمل صاحب ریاستی سطح پر خالص مسلم قیادت کے زمرے میں ہیں علیحدہ خالص مسلم سیاسی جماعت وقیادت کے حوالے سے میرے تحفظات اپنی جگہ مگر حق، حقیقت وحقائق کا اعتراف اپنی جگہ!

ایک کمزور پہلو خالص مسلم سیاست کا یہ ہے کہ اس سے سیکولر سیاست کمزور ہوئی ہے۔ قومی سیاست میں ہندو نظر یہ ہندوتو پر مبنی دائیں بازو کی سیاست کو بڑی زمین ومواقع ملے ہیں۔بہر حال میرا یہ ماننا ہے کہ یہ سیاست ایوان میں الگ تھلگ پڑجاتی ہے۔تقریر سے نہ آگے کچھ اور نہ بعد میں کچھ! حقیقت تلخ ہوتی ہے۔ جد ھر جاتے ہیں آلہ کار یا سہولت کار کا درجہ ہی رکھتے ہیں۔

آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست ایک اچھل کود کا کھیل ہے۔ اس میں روز نئے قوانین بنتے رہتے ہیں جن کے ہم سب پابند ہوتے او ر رہتے ہیں۔ مگر یاد رکھئے قانون کے اطلاق سے پہلے ضمیر کا اطلاق اور نفاذ ہے جس میں دنیا کا کوئی قانون اس وقت تک آپ کی نجی ترجیحات کو متاثر نہیں کرتا جب تک آپ خود اس طرف رجوع نہ کریں۔ نیکی، تقوی، اخلاقی رواداری، رشتوں کا پاس، وطن پرستی، حب الوطنی، وطن عزیز کی تعمیر وترقی و دفاع وطن سب کا تعلق قانون و آئین سے بعد میں آپ کے ضمیر سے پہلے ہے! یہاں بھی توازن قیادت ہے اورجنون وجذباتیت خود کشی!

15 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/serious-search-true-leadership/d/130700

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..