محمد عارف انصاری، نیو ایج اسلام
18 جنوری 2025
اسلام برابری اور مساوات کا دین ہے اور ذات،برادری، رنگ، نسل یا خاندان کی بنیاد پر تفریق کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر افسوس کہ ہندُستانی مسلم معاشرے میں ’’اشراف، اجلاف اور ارذال‘‘ جیسے من گھڑت نظریات کو فروغ دے کر ذات پات کی تقسیم پیدا کی گئی۔ مومن انصاری برادری، جو کپڑا بننے کی صنعت سے وابستہ ہے انگریزوں کے دور میںمعاشی استحصال کا شکار ہوئی۔ انگریزوں نے ہینڈلوم صنعت کو تباہ کرنے کے لیے ظالمانہ اقدامات کیے جس سے اس برادری کی معاشی حالت بدتر ہو گئی۔
1857 میں جب انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو زخم خوردہ مومن برادری نے اس میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن سرسید احمد خان نے اسے ’’غدر‘‘ کہا اوراس برادری پرغداری کا الزام دھرکر ’’بدذات‘‘کہتے ہوئے ہتک آمیز تبصرے کیے۔ انگریزبھی سرسید کی باتوں میں آگئے اورمومن برادری پر بعض پابندیاں عائد کیں اوربزعم خود اشرافیہ طبقے کو زمینداریاں عطا کیں نیزکمیشن پر مالگزاری وصولنے کی ذمہ داری و بعض دیگرمراعات دے کر پسماندہ برادریوں پر مظالم کا راستہ ہموار کر دیا۔
عبدالقیوم انصاریؒ
------------
انگریزوں کی مہربانیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان نام نہاد اور بزعم خوداشرافیہ طبقے نے پس کردہ مسلم برادریوں کو ہندوئوں کے نظریہ منواد کی طرز پر رذیل گردانتے ہوئے ان سے گھر دواری ٹیکس وصولنے لگے جس پرمومن انصاری برادری معترض ہوئی اور ٹیکس دینے سے منع کردیا۔ قاضی زمینداروں نے گورکھپور کی عدالت میں مومن برادری پر مقدمہ دائر کیا جہاںوہ ناکام ہوئے۔اس کے بعدوہ 1937ئ میں اس معاملے کوالٰہ آبادہائی کورٹ میں لے گئے۔نعمت اللہ انصاری (گورکھپور)نے فریق مخالف کے طور پر پیروی کی بالآخر ’’اشراف بنام ارذال‘‘ کے نام سے مشہور اس مقدمے میں مومن برادری کے حق میں فیصلہ ہوا۔
1911 میں دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل ہونے کے باوجود کلکتہ (بنگال) ہی اقتصادی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی مرکز رہا۔ ملک کے مختلف حصوں سے، خصوصاً بہار، اترپردیش اور اڑیسہ سے لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں کلکتہ ہجرت کرتے رہے۔وہاں مختلف طبقوں اور خیالات کے لوگوں جن میں اکثریت پس کردہ طبقات بالخصوص پیشہ پاچہ بافی (Weaving) سے وابستہ مومن انصاری برادری نمایاں تھی کے اجتماع نے سماجی مسائل پر غور و فکر کا ماحول پیدا کیا۔مومن برادری جو اسلامی مساوات اورذات پات کی تفریق کے خاتمے پر یقین رکھتی تھی کے درمیان اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے زبردست سماجی و سیاسی بیداری پیداہوئی جس کے نتیجے میں مومن تحریک کا آغاز ہوا۔
جس زمانے میں مومن تحریک کی داغ بیل پڑ رہی تھی ٹھیک انہی ایام میں یکم جولائی 1905 کو ڈہری آن سون(اب ضلع روہتاس،بہار) کے ایک آسودہ حال خاندان میں منشی عبدالحق انصاری کے ہاں عبدالقیوم انصاری کی ولادت ہوئی۔ان کی والدہ کا نام صفیہ بیگم تھا جو حافظہ قرآن تھیں اور ان کے نانا حافظ عبداللہ غازی پوری اپنے وقت کے نامور عالم دین اور محدث تھے۔عبدالقیوم انصاری نے سہسرام اور ڈہری آن سون ہائی اسکولز میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی اور الٰہ آباد یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن آزادی ہند کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لینے کی وجہ سے ان کی تعلیم وقتاً فوقتاً متاثر ہوتی رہی۔
عبدالقیوم انصاری ابھی ہائی اسکول ہی میں زیر تعلیم تھے کہ کانگریس سے وابستہ ہوکر تحریک آزادی میں شامل ہو گئے۔وہ گاندھی جی کی شخصیت سے بے حدمتاثرتھے، جب علی برادران سہسرام آئے تو ان سے بہت متاثر ہوئے اورمحض 15سال کی عمر ہی میںسہسرام تحریک خلافت کے جنرل سکریٹری بنادیے گئے۔ اسی جدوجہد کے تحت انہوں نے اپنے ساتھوں کے ساتھ سرکاری اسکول چھوڑدیا اور ان طلبہ کے لیے ایک نیشنل اسکول قائم کیا جو انڈین نیشنل کانگریس کی اپیل پر سرکاری اسکولوں کا مقاطعہ کر رہے تھے۔ اس تحریک میںسرگرم حصہ لینے کے باعث انہیں سولہ سالہ کی عمر میں ہی گرفتارکرکے جیل بھیج دیا گیا۔ستمبر1920 میں تحریک عدم تعاون سے متعلق کلکتہ میں ہوئے کانگریس کے خاص اجلاس میں وہ سب سے کم عمر کے کانگریس ڈیلیگیٹ کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ انہوں نے 1928 میں کلکتہ میںسائمن کمیشن کی آمد کے خلاف ہونے والے طلبائ کے احتجاج میں حصہ لیا۔
عبدالقیوم انصاری نے محمد علی جناح اورمسلم لیگکے دو قومی نظریے کو مسترد کر تے ہوئے ان کی واحد مسلم نمائندگی کے دعوے اورتقسیم ہندکی شدید مخالفت کی۔ 1937-38 کے دوران مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ پالیسی کے خلاف کمزور و محروم مسلم طبقات بالخصوص مومن انصاری برادی متحرک کیا۔وہ بہار کی صوبائی جمعیت المومنین کے صدر رہے اورآل انڈیا مومن کانفرنس کے نویں صدر اورسب سے بلند پایہ اور فصیح و بلیغ رہنمائ تھے۔ مومن کانفرنس محروم و پس کردہ مسلمانوں کی پہلی اور کلیدی تحریک ہے۔انہوں نے آل انڈیا مومن کانفرنس کو ایک مضبوط سماجی اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا، جس کے اثرات قومی سطح پر مرتب ہوئے۔
1939 میں سر اسٹیفرڈ کرپس نے جواہر لال نہرو سے ایسے مسلم رہنماؤں کے بارے میں دریافت کیا جو مسلم لیگ کے خلاف کانگریس کا ساتھ دے رہے تھے تو انہوں نے عبدالقیوم انصاری کا خصوصی ذکر کیا۔ انصاری صاحب نے مومن برادری کے سیاسی نظریات پر مشتمل ایک عرضداشت بھی سر کرپس کو پیش کی۔1946 کے انتخابات میں مومن کانفرنس نے ایک آزاد سیاسی پارٹی کے طور پر حصہ لیااور ان کی قیادت میں چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ کانگریس پارٹی کو بھی مسلمانوں کی واحد نشست مومن کانفرنس کی حمایت سے ملی۔ مگر جب کانگریس کی حکومت بنی تو انہیں ابتدائی طور پر کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ کانگریس قیادت بہت دیر تک مومن کانفرنس کی اہمیت کو نظر انداز نہ کر سکی اور انصاری صاحب کو کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔
انہوںنے ہندُستانی مسلمانوں میں ذات پات پر مبنی تفریق کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کیا اوراپنی سیاسی زندگی میں ہندو اور مسلم فرقہ واریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بعد کے دنوں میں انصاری صاحب کی قیادت میںمومن تحریک نے ایک کروٹ لی اور اس کی سیاسی حیثیت ختم کرکے صرف سماجی حیثیت برقرار رکھی گئی۔کانفرنس کے زیادہ تر رہنما کانگریس میں شامل ہوگئے۔انصاری صاحب تقریباً سترہ سال تک وزیر رہے اور مختلف اہم قلمدان سنبھالتے رہے۔بعدٗ صوبائی کانگریس کمیٹی کے صدر، رکن مجلس عاملہ اور 1970تا 1972 رکن راجیہ سبھا رہے لیکن وہاں انہیں محدود توجہ دینے کے باعث انہوں نے 1972 میں استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ مومن تحریک کو مضبوط بنانے میں لگ گئے۔ اسی سال وہ بہار کے عام انتخابات میں ڈہری آن سون سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور ایک بار پھرکابینی وزیر بنے۔
وہ ہندُستان کے پہلے مسلم رہنما کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے اس کی مذمت کی اور مسلمانوں کو حقیقی ہندُستانی شہری کے طور پر ان جارحیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے پاکستان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو ’’آزاد‘‘کرانے کے لیے 1957 میں’’ انڈین مسلم یوتھ کشمیر فرنٹ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل انہوں نے ستمبر 1948 میں حیدرآباد میں’رضاکاروں‘کے ہند مخالف سرگرمیوں اورحید آباد کے ہندُستان میںانضمام کی حمایت میں مسلمانوں کے درمیان رائے عامہ ہموار کرکے مسلمانوں کو آمادہ کیا۔
انصاری صاحب نے ہتھ کرگھا صنعت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دستکاروں کی معاشی اور تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے بھی قابل ذکر خدمات انجام دیں۔ جب حکومتِ ہند کی جانب سے آل انڈیا بیک ورڈ کلاسز کمیشن قائم کیاگیا تو وہ اسکے رکن بھی رہے۔پارچہ باف(Weaver) برادری کی معاشی استحکام کے لیے حکومت وقت سے مل کر پرائمری ویورس کوآپرٹیو سوساٹیاں قائم کروائیں اور اور انہیں منظم کرنے کے لیے راجندر نگر، پٹنہ میں ایک ’’بہار اسٹیٹ ویورس کوآپرٹیو یونین‘‘ قائم کروائی۔پس کردہ مسلم طبقات کی تعلیمی بہتری کے لیے حکومت وقت سے مل کرجگہ جگہ بی ایم سی (بیک وارڈ مسلم ) مکاتب قائم کروائے جو اردو مکاتب کے طور پر مشہور ہوئے جنہیںاب تعلیمی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
ایک مجاہد آزادی،عظیم مومن و ملی رہنما اورسماج کے بے لوث و مخلص خدمت گار ہونے کے علاوہ وہ ایک کامیاب صحافی، مصنف اور شاعر بھی تھے اور حاویؔ تخلص کرتے تھے۔ آزادی سے پہلے کے دنوں میں وہ اردو ہفتہ وار ’’الاصلاح ‘‘اور اردو ماہنامہ ’’مساوات‘‘ کے مدیر رہنے کے علاوہ بعض دیگر ادبی جرائد سے بھی وابستہ رہے۔وہ دین پسند اور پابند شریعت شخصیت کے حامل تھے۔تمام عمر ملک و قوم کی خدمت میں گزار ی اور 18 جنوری 1973ئ کو اپنے حلقہ ¿ انتخاب کے عوام جو ان دنوں سیلاب کے سبب پریشان تھے، کے درمیان راحت رسانی کے کام انجام دیتے ہوئے ’امیاور‘ کے مقام پر جان، آفریں کے سپرد کردی۔
(ولادت یکم جولائی 1905 وفات 18جنوری 1973)
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/selfless-nation-community-abdul-qayyum-ansari/d/134364
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism