خالد بیگ
04 اپریل 2014
توبہ اور استغفار مومنوں کے لئے سب سے زیادہ مستحسن نیک اعمال میں سے ایک ہیں۔ توبہ کا مطلب ہمارے اعمال یا خطاؤں اور لغزشوں پر ندامت کرنا ہے۔ استغفار کا مطلب اس ندامت کا اظہار الفاظ میں کرنا اور اللہ سے اس کے لیے مغفرت طلب کرنا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: "کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔" [البقر 2:222]۔ حدیث: "اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا کہ جو نیکی کر کے فرحت محسوس کرتے ہیں اور اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو استغفار کرتے ہیں۔ "[ابن ماجہ]
توبہ اور استغفار ضروری نہیں ہے کہ صرف گناہوں یا اللہ کی نافرمانی کے لیے ہی کیا جائے بلکہ ہمیں اپنی کوتاہیوں پر بھی توبہ اور استغفار کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اللہ نے ہمیں اپنی بڑی نعمتوں اور فضل و کرم سے نوازا ہے اور اس کے لیے ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں اور اطاعت گزاری کریں وہ تمام واضح طور پر ناکافی ہیں۔ اللہ عز و جل کی ذات عظیم الشان ہے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی شان کے اعتبار سے اس کے لیے ہماری تمام عبادتیں اور اطاعتیں واضح طور پر ناکافی ہیں۔ جو شخص تقویٰ اور خشیت الٰہی میں جتنا زیادہ ہےاس کے اندر اللہ کی عبادت اور اطاعت میں کوتاہی کا احساس اتنا ہی زیادہ ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اس کی جانب سے استغفار کا عمل بھی بڑھ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے توبہ اور استغفار کی تعلیم بھی دی اور اس پر عمل بھی کیا۔ ہمیں اظہار ندامت کے لیے موروثی یا ذاتی طور پر گناہوں کا ارتکاب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ در اصل اللہ نے تمام انبیاء کو گناہوں سے پاک کر کے اس دنیا میں مبعوث کیا، اس لیے کہ اللہ نے تمام انبیاء کو انسانوں کے لیے ایک نمونہ عمل بنا کر بھیجا ہے اور اللہ نے کوئی بھی نمونہ عمل ناقص نہیں بھیجا۔
تمام انبیاء کے سردار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مظاہرہ اس وقت ہوا تھا جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سفر اسراء کے دوران یروشلم میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کی تھی۔ اور خود انبیاء کے امام کا عمل کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ تھا کہ وہ ہر نماز کے بعد تین بار "استغفراللہ" (میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں) کہا کرتے تھے! یہ استغفار ہے اور یہ اس وقت عمل میں آتا ہے جب بندہ تقویٰ کی اعلیٰ منزل پر فائز ہو! انہوں نے ہمیں پوری دریادلی کے ساتھ استغفار پڑھنا سکھایا جیسا کہ خود انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ صحابہ کرام نے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں سینکڑوں مرتبہ استغفار پڑھا کرتے تھے۔ توبہ اور استغفار ہماری بندگی اور اطاعت الٰہی کا جوہر ہیں۔
استغفار خشیت الٰہی اور اللہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کو مضبوط بنانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ توبہ میں ہم صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی سے ہماری بڑی بڑی غلطیوں، کوتاہیوں، ناکامیوں اور گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ (عیسائیت کے برعکس جنہوں نے کاہنوں کے سامنے اعتراف جرم کا قانون بنا کر ایک بہت بڑی غلطی کی۔ جیسا کہ مارٹن لوتھر (1537) نے کہا "اس طرح اعتراف جرم نے جس قدر تشدد، بد مُعاشی اور بت پرستی کو جنم دیا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔" ہم اللہ سے استغفار طلب کرتے ہیں یہ جان کر کہ وہی ہمارے تمام اعمال اور نیتوں کو جاننے والا ہے اور صرف وہی ہمیں بخش سکتا ہے اور ہمارے اعمال کے برے انجام سے صرف وہی ہمیں نجات دے سکتا ہے۔ لہٰذا استغفار اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ قربت میں کلام ہے۔ اور اللہ کے ساتھ اس کلام کے دوران ہم سب سے زیادہ عاجزی اور انکساری کے عالم میں ہوتے ہیں۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیوں توبہ اور استغفار ہماری بندگی اور اطاعت الٰہی کا جوہر ہیں!
ہمیں ہمارے دلوں کو مسلسل طور پر پاک اور صاف کرنے کے لیے استغفار کی ضرورت ہے۔ ہم گناہوں کا بوجھ لیکر پیدا نہیں ہوئے بلکہ ہم کمزوری کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ ہم مختلف قسم کی لالچ کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ اس زندگی میں ہمارے امتحان اور آزمائش کا حصہ ہیں۔ اور جب ہم اس کا شکار ہوتے ہیں اوراور ایک گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں تو ہمارے دل میں ایک سیاہ دھبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت کردہ ایک مشہور حدیث میں اس عمل کی وضاحت کی گئی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے گناہ پر ندامت ظاہر کرتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو وہ سیاہ دھبہ مٹا دیا جاتا ہے۔ ورنہ وہ دھبہ وہیں رہے گا اور ہر اضافی گناہ کے ساتھ وہ بڑھتا جائے گا۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ گناہوں پر توبہ نہ کرنے کی وجہ سے انسان کا دل گناہوں کی تاریکی سے بھرجائے گا۔ ہم دلوں میں بتدریج بڑھنے والی اس تاریکی کا مشاہدہ ان لوگوں کے عمل میں کر سکتے ہیں جو اپنے مجرمانہ سلوک میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ شروع میں انہیں بہت زیادہ تردد ہوتا ہے۔ انہیں گناہوں کا ارتکاب کرنے میں تردد ہوتا ہے اور اس پر وہ برا محسوس کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اس سے تائب نہیں ہوتے تو وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور بھر انہیں گناہوں کا ارتکاب ایک عام عمل محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور پھر ایک مرحلہ آتا ہے کہ جب نیکی بدی لگتی ہے اور بدی نیکی۔ اور پھر وہ گناہوں کا دفاع اور اس کی وکالت کرتے ہیں اور نیک کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔
آج بدقسمتی سے ہم اپنے ارد گرد میں اس کی بہت ساری مثالیں دیکھتے ہیں۔ اس جدید دور میں "سب کچھ چلتا ہے" اور اب نیکی اور بدی کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ گیا۔ اس کے بعد گمراہ ماہرین نفسیات کی ایک پوری جماعت ہے جو آپ کو یہ یقین دلانے کے لیے تیار ہیں کہ صرف پہلی مرتبہ میں مجرم محسوس کرنے کے لیے جرم کا احساس ہونا چاہئے! کیا اس میں تعجب کی کوئی بات ہے کہ اب انگریزی زبان میں لفظ (sin) ‘‘گناہ’’ عام طور پر ہر مزیدار، پرکشش، مستی، اور خواہش انگیز چیزوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ لیکن امید رکھنے والوں کے لئے امید کی کرن اب بھی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے اندر کتنے روحانی مفاسد جنم لے چکے ہیں ہم ہمیشہ اپنا راستہ بدل سکتے ہیں۔ ہم توبہ کر سکتے ہیں اور اپنے اس رحمٰن و رحیم خالق سے معافی حاصل کر سکتے ہیں جو ہمیشہ ان لوگوں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہے جو اخلاص کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ "ے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے"[39:53] ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت اس طرح ہے: " جب کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لیتا ہے تو وہ ایسا ہو جاتا ہے گو کہ اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہیں ہے۔"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں توبہ کے بہت سارے الفاظ سکھائے ہیں اور اگر ہم انہیں سیکھتے ہیں سمجھتے ہیں اور ان کا استعمال کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ ان میں سے ایک کا ذکر سید الاستغفار کے طور پر موجود ہے۔ ایک حدیث میں اس کی غیر معمولی اہمیت کی وضاحت کی گئی ہے : " اگر کوئی مومن صبح کے وقت میں مکمل ایمان اور اخلاص کے ساتھ یہ استغفار پڑھتا ہے اور شام سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور اگررات کے دوران کوئی یہ دعا پڑھتا ہے اور صبح سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ "یہ طاقتور دعا ہماری روز مرہ کی زندگی کا عہد و پیمان ہے۔ ہم اسے عربی میں حفظ کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور کوئی بھی ایسا دن یا کوئی ایسی رات نہیں ہوگی جب ہم مکمل ہوش حواس کے ساتھ اسے پڑھ نہ لیں: "اے اللہ ! تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندا ہوں۔ میں اپنی پوری کوشش کے ساتھ تیرے ساتھ کئے گئے اپنے عہد و پیمان کی پاسداری کروں گا۔ میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ میں تیری ہر ہر نعمت کو تسلیم کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کو بھی تسلیم کرتا ہوں۔ لہٰذا اے اللہ تو مجھے معاف فرما اس لیے کہ تیرے علاوہ کوئی بھی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔"
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ:
http://pakobserver.net/detailnews.asp?id=238500
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/seeking-forgiveness-allah-spirit-islam/d/66405
URL for English article: https://newageislam.com/urdu-section/seeking-forgiveness-allah-spirit-islam/d/66439