ڈاکٹر افتخار احمد
20ستمبر،2024
دستور ساز اسمبلی اور موجودہ آئین کے کچھ مخصوص گوشوں کو قارئین کے ساتھ شیئر کرکے سیکولر سیاست کے آزادی سے قبل اور بعد کے مضمون کے تناظر میں ان عنوان پر بات کرناچاہتا ہوں۔قوم پرست مسلم جماعتوں اور مقتدر مسلم شخصیات کی برملا حمایت کے بل بوتے کی بنیاد پر آزادی سے قبل بابائے قوم کانگریس اور اس کی مجموعی قیادت حکمراں انگریز کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ تنہا محمد علی جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانان برصغیر کے ترجمان نہیں بلکہ ایک اچھا بڑا مسلم طبقہ کانگریس کے ساتھ بھی ہے جس کا سیدھا فیض تقسیم بنگال اور پنجاب کی شکل میں ہوا، جموں وکشمیر،آسام وشمال مشرق جو جناح کے ابتدائی فارمولے میں تھے وہ سب آزاد ہندوستان میں شامل ہوسکے۔
تصور کریں اس پاکستان کا جو کبھی جناح کا خواب تھا جس میں متحدہ پنجاب، بنگال، آسام اور شمال مشرق سب شامل تھے۔ اگر ایسا ہوجاتا تب وطن عزیز کانقشہ کیا ہوتا؟ یہ قوم پرست مسلمانوں کی قومی تحریک اور اس کی قیادت کی حمایت ہی تھی جس کی دین کا ہندوستانی نقشہ ہے۔ یہ آزادی سے قبل کامسلم کردار ہے۔
ہماری قوم پرست قیادت کا آج کے ہندوستان کی تشکیل نو میں کردار آئین ساز اسمبلی سے شروع ہوتاہے جب اقلیتوں کے حقوق و نمائندگی کے سوال پر قائم شدہ کمیٹی کے سربراہ سردار پٹیل مسلمانوں کو مرکزی قانون ساز اداروں میں ریزرویشن کی پیشکش کررہے تھے، تب مسلم قیادت تقسیم وطن کے زخم کے پس منظر میں اکثر یت کے دل جیتنے اور آپسی اعتماد بحال رکھنے کے تناظر میں اس کو مسترد کردیتی ہے اور مستقبل کے رشتوں کی بنیاد باہمی اعتماد اور بھروسے پر رکھتی ہے۔ گوکہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں رکھا۔ سیاست جذبات پر نہیں، لین دین پرمبنی خالص مفاد پراپنے فیصلے کرتی ہے۔آج آپ ہر چیز کے لیے کسی نہ کسی قطار میں کھڑے ہیں اور اس ناعاقبت اندیشی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔
بہر حال یہ ہمارے سیکولر ہندوستان کے سفر کی شروعات ہے جس کی جڑ میں یہ مخصوص کردار ہے۔ اتناہی نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کی مذہبی قیادت قرآن و سنت او رحکمت وبصیرت کی روشنی میں متحدہ قومیت کا تصور اور تکثیریت کے اصول و فلسفے کو درمیان میں رکھ کر قیام پاکستان کے خلاف او رمتحدہ ہندوستان کی سب سے بڑی وکیل تھی یہ اہم نکتہ بھی ذہن میں رہے۔
1949ء میں آئین بنا جو 26جنوری، 1950 ء کو نافذ العمل ہوگیا۔ جس نے تمام ہندوستانی شہریوں کو مساوی حیثیت اور حقوق دیے، اقلیتوں کو اضافی تحفظات ملے،ملی تشخص، ادارہ سازی کا حق، مذہبی آزادی، ترقی کے عمل او رقومی فیصلہ سازی میں نمائندگی و حصہ داری کاغذ پر سب کچھ ملا جوکل بھی خوش آئند تھا آج بھی ہے مگر سفر اب کچھ یوں آگے بڑھتا ہے۔
خوش آئند پہلو یہ رہا کہ مسلمان اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے۔ صدر،نائب صدر،چیف جسٹس، گورنر، قومی کابینہ کے وزیر، وزیر اعلیٰ، یوپی ایس سی، قومی اقلیتی کمیشن، قومی الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور چیف بنے، کابینہ سیکریٹری،فضائیہ کے سربراہ اور آرمی کے ڈپٹی چیف بنے، وائس ایڈ مرل اور کئی لیفٹینٹ جنرل بنے۔ 15نکاتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نام سے منسوب اقلیتی ترقیاتی پروگرام بنا۔ اس سب کا مجھے اعتراف ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ تقسیم کے فوراً بعد مسلم کش فسادات کا پھوٹ پڑنا،لاکھوں ہلاکتیں، ہجرت، گھنی مسلم آبادیوں میں مسلمانوں کا غیر محفوظ ہوجانا۔ یہ تھما تو 1949 ء میں بابری مسجد میں مورتیاں اور بعد کی پوری سیاست اور اس میں سیکولر سیاست کے یکے بعد دیگرے سمجھوتے، فسادات کالامتناہی سلسلہ، اوقاف کی املاک پر بڑے پیمانے پرقبضے، ہریانہ، ہماچل او رپنجاب میں سیکڑوں مساجد پر قبضے، علی گڑھ اور جامعہ کے اقلیتی کردار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ او راب یہ سب عدالت کے فیصلے ورحم وکرم پر اور بہت کچھ جس کا تذکرہ مختلف مضامین میں ہوتا رہا ہے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ سیکولر سیاست نے ہی ہمیں تمام تراقلیتی ادارے دیے، اعلیٰ ترین عہدوں پر پرُوقار نمائندگی دی، سفارت کاری میں بھی نمایاں مقام دیا، پرامن او رمنافرت سے پاک ماحول دیا، شستہ زبان اور محتاط اخلاقی زاویو ں پر مبنی سیاست دی،مذہبی عقائد کی حساسیت کا لحاظ رکھا، کئی غیر معمولی ایسے فیصلے بھی کیے جن کی اسے قیمت بھی دینی پڑی۔ ہمارے بیچ میں رہنے او رہم کو درمیان میں رکھنے میں کبھی کوئی تکلف یا تکلیف محسوس نہیں کی۔اپنے نظریات پر قدرے قائم رہی، اس سب کا میں رسمی او ر غیر رسمی دونوں طور پر معترف ہوں۔ میں نے ایک مضمون میں ایک جملہ آپ حضرات کے گوش گزار کیا تھا کہ سیکولر سیاست سے نظریاتی اختلاف نہیں کچھ بنیادی شکایات اور خفگی ہے جب کہ آر ایس ایس او ربی جے پی سے کئی اشوز پر نظریاتی اختلاف ہے، جہاں مکالمہ او رمفاہمت درکار ہے۔ یہاں پل سازی چاہئے اور سیکولر سیاست میں جو کچھ لڑکھڑا ہٹ آئی ہے وہاں اس کی تصحیح درکار ہے۔
سیکولر سیاست میں مسلمانان ہند نے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیاہے۔ آپ دیکھ لیں کہ جب سے مسلمان کانگریس سے نالاں ہوکر علاقائی سیکولر سیاسی جماعتوں کی طرف منتقل ہوا جو کہیں نہیں تھے وہ وزیر رائے اعلیٰ بنے، کابینہ میں وزراء بنے، نائب صدور،اسپیکر او رڈپٹی اسپیکر بنے، کئی وزیر اعظم بنے اور ایک بنتے بنتے رہ گئے۔ آج کوئی مجھے یہ بتائے کہ میں اگر آج کی بات کروں تو چندر بابو نائیڈو، اسٹالن، ممتا بنرجی، تیجسوی یادو، اکھیلش یادو، ٹی آر ایس کے کے سی آر،جگن ریڈی، کیرالہ میں کمیونسٹ حتیٰ کہ آج کانگریس ان میں سے چند کے مسلم ووٹ حاصل کرکے 54/ سے 99/ تک آئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر سیاست چاہے اس کا تعلق دائیں بازو، بائیں بازو یا درمیانہ بازو سے ہو ہم ہی سب کی جڑ میں ہوتے ہیں۔یہ ہمارا ہی پانی اور فرٹیلائیزر ہوتاہے جو کسی کو کیا سے کیا بنادیتا ہے لیکن اعتراف اور ادراک چو طرفہ طور پر غائب رہتا ہے۔
میری شکایت سیکولر سیاست سے یہ ہے کہ یہ بیانات، اقدامات اور یقین دہانیوں کے گرد گشت کرتی ہے۔ عمل در آمد میں اس کا ریکارڈ مخدوش اور نہایت مایوس کن ہے۔ ایک مخصوص ٹولہ جو چند افراد اور خاندانوں پر مشتمل رہا بار بار سامنے آتا او رلایا جاتا رہا۔دوسری شکایت ان مسلم سیاستدانوں سے ہے جن کو نمائندگی کے مواقع تو اس سیاست نے خوب دیے مگر دوران اقتدار ملی ترجمانی کا حق ندارد، لیکن جب حزب اختلاف میں آئے تو وہ سب کچھ بولا جو اقتدار کے وقت بولنا تھا۔ اس پر بھی قدغن ہے۔
سیکولر سیاست کا وجود، ہیئت اور حیثیت ہماری ہی مرحون منت ہے۔اس لیے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہ کے برابر دیتے ہیں۔ جس کی اپنی وجوہات ہیں۔ تصور کریں اگر کسی دن وہ آپ کی مستقل بے وفائی سے نالا ں ہوئے اور اس نے اپنا رخ بی جے پی کی طرف کرلیا تو وہ کہاں کھڑی ہوگی اور آپ سب کہاں ہوں گے؟ ایک دن بی جے پی کی سمجھ میں یہ آجائے گا۔ آج نہیں تو کل، وہ اپنی آئیڈیالوجی پر نہیں جیت رہی ہے بلکہ پولرائزیشن کی بنیاد پر اپنا ووبنک رکھتی ہے۔ہر انتہا ایک دن اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ درمیانی رخ، روش ورجحان ہی ہوتاہے جو دیر پا اور زمین سے جڑا ہوتاہے۔ باقی سب اچھالے ہوتے ہیں جن کی حیثیت بانڈی میں اٹھتے ہوئے اس جھاگ کی سی ہوتی ہے جو اس میں بڑا چمچہ ڈالتے ہی بیٹھ جاتا ہے۔مسلمانان ہند قومی ہانڈ کا وہ بڑا چمچہ ہیں جو دونوں طرف اپنا کلیدی اور فیصلہ کن کردار رکھتا ہے۔ ایک طرف حمایت اپنا کردار ادا کررہی ہے تو دوسری طرف مخالفت! خالص مسلم سیاست کی اس ملک میں کوئی زمین نہیں۔ ہر تجربہ عملاً او ر منطقی طور پر کسی بڑے نقصان کا ہی پیش خیمہ ہوگا۔ یوں بھی اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پرجو دیکھا بھالا ہے، اس کو سامنے رکھ کر کہہ رہاہوں اگر اس پربھرپور توجہ کے ساتھ نظر رکھیں گے تو بہت کچھ سمجھنا مشکل نہ ہوگا۔
آخر میں اتنا ہی کہوں گا سیکولر سیاست جب جب اپنی اصل کو چھوڑ ے گی اس کا فیض بی جے پی کو ہوگا، آپ کو کبھی نہیں۔ بی جے پی کو مشورہ ہے کہ آپ کی موجودہ سیاست کا مستقبل زیادہ دن بنامسلمانان ہند سے ہاتھ ملائے ہوئے او ر اپنے طرز عمل میں بنیادی تبدیلی لائے ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔ آر ایس ایس چیف ڈاکٹر موہن راؤ بھاگوت کے سابقہ کئی بیانات میں اس جانب کچھ اشارے تو ملتے ہیں مگر ابھی دلی دور است۔
نفرت او رمنافرت کا جو بازار گرم ہے وہ ایک قومی چیلنج بن کر کھڑا ہوچکاہے۔ بات الزامات اور شکایات سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ سب کو اس کا مشرک ادراک کرناہوگا اور اس پرمل کر قدغن لگانی ہوگی۔ کون کس کے خلاف ہے؟ کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہورہاہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس میں اورتو میں وطن عزیز کی اساس، ساخت اور شناخت داؤ پر لگ رہی ہے، جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔
20ستمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/secular-politics-muslims-india/d/133253
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism