New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 12:13 PM

Urdu Section ( 5 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

75 Years Of Secular Politics سیکولر سیاست کے 75 سال: انڈین یونین مسلم لیگ آج ہندوستان میں مسلم سیاست کے لیے راہ عمل متعین کرتی ہے

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 2 ستمبر 2023

 راہل گاندھی نے جون میں اپنے دورہ امریکہ میں جب انڈین یونین مسلم لیگ پر تبصرہ کیا تو ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا مسلم لیگ فرقہ پرست جماعت ہے، انہوں نے اس دعوے کی نفی کی اور کہا کہ مسلم لیگ بالکل سیکولر جماعت ہے۔ راہل گاندھی مسلم لیگ کے بھاری ووٹ بینکنگ کی مدد سے وائناڈ حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ راہل نے کہا، ’’مسلم لیگ ایک مکمل طور پر سیکولر پارٹی ہے، ان میں کوئی غیر سیکولر نہیں ہے۔ اور ’’میرے خیال میں اس شخص [رپورٹر] نے مسلم لیگ کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔‘‘

 انڈین یونین مسلم لیگ (IUML) کے قیام کے 75 سال ہو چکے ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ پارٹی، جو کیرلا اور تمل ناڈو کی سیاست میں فیصلہ کن اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، قومی سطح پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسلام اور سیکولر سیاست اور تکثیری سیاست جیسے کئی مسائل پر پارٹی کا موقف ملک بھر میں توجہ حاصل کر رہا ہے۔ لیگ کے پاس سیاسی طور پر ابھی بہت زیادہ کام ہے کیونکہ وہ اپنے قیام کی پلاٹینم جوبلی منانے کی تیاریوں  میں ہے۔ آزاد ہندوستان میں ایک اقلیتی جماعت کے طور پر، مسلم لیگ پر اس بات کی ایک بھاری بھرکم ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اپنی جی جان لگا دے، کیونکہ آج کل ملک کی سیاسی فضا ہندوستان کی سیکولرازم کے لیے مہلک ہوتی جا رہی ہے۔ سیکولرازم کا تحفظ اور اس کی بقا کسی ایک چھوٹی سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔

 ساڑھے سات دہائیوں پرانی جماعت نئے دور کے مطابق اپنا لباس اور سیاسی انداز بدل رہی ہے اور ایک طرف عدم برداشت کا پرچار کرنے والے یہ کہتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا نام بھی غیر قانونی ہے۔ سیکولرازم اور سیکولر سماج جیسی تمام باتیں اب معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگ سمیت سیکولر سیاسی نظریہ رکھنے والی ہر جماعت کو آئینی اقدار کی پامالی کو روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دینی چاہیے۔

 اس سال پارٹی اپنے قیام کا 75واں سالانہ جشن منا رہی ہے۔ فی الحال، پارٹی کے پاس کیرلا اور تمل ناڈو سے ممبران پارلیمنٹ ہیں اور کیرلا میں کانگریس کی قیادت والی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ ہے۔ یہ جماعت ایک جمہوری ملک کے اندر مذہبی اور برادری کی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے سیکولر سیاست کی عملی مثال ہے۔ جب شمالی ہندوستان میں مسلم سیاست ایک نئی جہت کی تلاش میں ہے، تو مسلم لیگ کی کاسموپولیٹن اور جامع سیاست اس کی رہنمائی کر سکتی ہے۔

 انڈین یونین مسلم لیگ کی پیدائش

 آل انڈیا مسلم لیگ 15 دسمبر 1947 کو کراچی میں محمد علی جناح کی قیادت میں تحلیل ہو گئی۔ محمد اسماعیل صاحب کے کندھوں پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک نئی جماعت بنانے کی ذمہ داری تھی۔ 10 مارچ 1948 کو محمد اسماعیل صاحب نے چنئی کے راجا جی ہال میں ایک میٹنگ بلائی۔ یہیں سے انڈین یونین مسلم لیگ کا جنم ہوا۔ محمد اسماعیل اس کے سب سے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اور محبوب علی بیگ جنرل سیکرٹری۔

 تقسیم ہند کے آنسو اور خون کے دھبے ابھی تک خشک نہیں ہوئے تھے۔ اس کی تشکیل کے وقت، انڈین یونین مسلم لیگ کو اس وقت کی قومی قیادت نے آل انڈیا مسلم لیگ کا جانشین سمجھا، جو تقسیم ہند کی ذمہ دار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ راجا جی ہال کو استعمال کرنے کی اجازت اس وقت کی کانگریس قیادت نے یہ سوچ کر دی تھی کہ یہ آزاد ہندوستان میں بقیہ لیگ کو تحلیل کرنے کی میٹنگ ہے۔

 محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک نیا ملک بنایا جائے۔ مسلم لیگ قرارداد لاہور 1940 میں، جناح نے اعلان کیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا اور حتمی مقصد پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔ گاندھی جی اور کانگریس نے اس کی سخت مخالفت کی۔ لیکن برطانوی حکومت کو محمد علی جناح جیسے قدآور لیڈر کے سامنے ہار ماننا پڑی۔ محمد علی جناح کو ان کے پیروکار قائد اعظم کے نام سے پکارتے تھے۔ محمد علی جناح چاہتے تھے کہ پاکستان کا خواب وہ اپنی زندگی میں ہی پورا کر لیں۔ اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔

تقسیم کے بعد پاکستان کے پہلے صدر بننے پر، محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کو تحلیل کرنا چاہتے تھے۔ جناح نے کراچی میں ہونے والی آخری میٹنگ میں یہ مطالبہ پیش بھی کیا تھا۔ اس کے ساتھ ضرورت پڑنے پر پارٹی کو برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں ایک ایک کنوینر بھی مقرر کیا گیا۔ ترونیل ویلی کے رہنے والے محمد اسماعیل صاحب کو ہندوستان میں کنوینر مقرر کیا گیا۔ ان کی قیادت میں 10 مارچ 1948 کو راجا جی ہال میں ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا اور وہیں سے مسلم لیگ کا جنم ہوا۔ بعد میں وہ 1973 میں اپنی وفات تک لیگ کے آل انڈیا صدر رہے۔

 مسلم لیگ کے نمائندے 1952 میں پہلی پارلیمنٹ میں منتخب ہو کر پہنچے۔ اس کے سب سے پہلے ممبر بی پوکر تھے جو ملاپورم حلقہ سے منتخب ہوئے تھے۔ دوسرے عام انتخابات میں بی پوکر منچیری سے جیت گئے۔ تیسرے الیکشن میں مسلم لیگ کے کھاتے میں دو ممبران پارلیمنٹ آئے۔ کوزی کوڈ سے سی ایچ محمد کویا اور منچیری سے محمد اسماعیل۔ کیرلا سے باہر کے سب سے پہلے نمائند ایس ایم محمد شریتھ، رامناتھ پورم، تمل ناڈو سے تھے۔ وہ ملک کے چوتھے لوک سبھا الیکشن میں منتخب ہوئے تھے۔

 پانچویں الیکشن میں منچیری اور کالی کٹ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نے تامل ناڈو کے پیریاکولم اور مغربی بنگال کے مرشد آباد سے بھی کامیابی حاصل کی۔ موجودہ لوک سبھا میں مسلم لیگ کی نمائندگی تین ارکان کرتے ہیں۔ کیرالہ کے دو سیٹوں کے علاوہ، لیگ نے تمل ناڈو میں رامناتھ پورم کا حلقہ بھی جیتا ہے۔ مسلم لیگ 1952 سے راجیہ سبھا میں ہے۔

 ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے کوزی کوڈ میں ایک بڑی سیاسی تقریر میں مسلم لیگ کو مردہ گھوڑا کہہ کر اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ 1955 میں سی ایچ محمد کویا، جو لیگ کے ایک قدآور لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے، نے جواہر لعل نہرو کو جواب میں کہا تھا، "مسلم لیگ ایک سویا ہوا شیر ہے اور اس کی دھاڑ اس پورے برصغیر میں گونجنے والی ہے"۔

 جس پارٹی کو جواہر لال نہرو نے کبھی ایک مردہ گھوڑا کہا تھا وہی انڈین یونین مسلم لیگ آج کیرلا میں کانگریس کی قیادت والی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک الائنس کی دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ یہ ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو کیرلا میں مختلف جمہوری اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو ایک جمہوری اور سیکولر کردار کو فروغ دیتی ہے اور اقلیتی مسلمانوں اور پسماندہ دلت/آدیواسی کو بھی بااختیار بنانے کے لیے کھڑی ہے۔

 10 مارچ 1948 کو مسلم لیگ کونسل کا راجا جی ہال چنئی میں ایک اجلاس ہوا جس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ آزاد ہندوستان میں مسلم لیگ کی شکل و صورت کیا ہونی چاہیے۔ کیونکہ اگرچہ ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان مسلمانوں کے لیے بنا، لیکن ہندوستان میں بہت سے مسلمانوں نے بھی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

 75 سال قبل ہونے والے اجلاس میں ہندوستان کے مسلمانوں کو متحرک کرنے اور مسلم لیگ کے لیے ایک نئی تنظیمی ڈھانچہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ ہندوستان میں دیگر برادریوں کے ساتھ ملک ہندوستان کی بھائی چارگی اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے اور ہندوستان میں سیکولر اصولوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے لیا گیا تھا۔

 سچ تو یہ ہے کہ 75 سال بعد بھی انڈین یونین مسلم لیگ صرف کیرلا تک محدود ایک پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ لیگ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کی قیادت میں کانگریس کے ساتھ ایک جزوی جماعت ہے۔ آج مسلمان مختلف ریاستوں جیسے اتر پردیش، بہار، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک میں ایک غالب اقلیتی برادری ہیں۔ لیکن آج مسلم لیگ کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔

 کیرالہ میں یو ڈی ایف، جس میں مسلم لیگ بھی شامل ہے، دوسری بار اپوزیشن میں ہے۔ مسلم لیگ ہمیشہ اقتدار کے سائے میں رہنا پسند کرتی ہے۔ اس کے قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقتدار کے بغیر لیگ مسلسل دس سال تک اپاہج رہے گی۔ تاہم، لیگ کانگریس کے ساتھ کھڑے ہونے سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتی۔ یو ڈی ایف ہمیشہ سے لیگ کا ایک مضبوط پلیٹ فارم رہا ہے۔

 مسلم لیگ نے 1950 کی دہائی میں ایکیا کیرالہ کے قیام کے دوران بھی خود کو تیار کیا اور اپنی تنظیمی سرگرمیاں تیز کیں۔ کیرلا اسٹیٹ مسلم لیگ کمیٹی 18 نومبر 1956 کو ایرناکولم میں منعقدہ ایک عظیم الشان کانفرنس میں وجود میں آئی۔ بافکی تھنگل کو صدر اور سیٹھی صاحب کو سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ اس اجلاس میں لوگوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ نہ صرف کیرلا کے تمام لوگوں کی خاطر بلکہ پورے ملک کی خوشحالی کے لیے کام کریں۔

 تاہم اس وقت کی کانگریس قیادت کے پاس لیگ کی قیادت کا یہ وسیع نظریہ نہیں تھا۔ جب 1956 میں متحدہ کیرالہ کے پہلے اسمبلی انتخابات ہوئے تو اس وقت مسلم لیگ نے کانگریس کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

 کانگریس کی قیادت نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف متحدہ محاذ کی قیادت کی لیگ کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ کمیونسٹ پارٹی 1957 کے انتخابات میں کانگریس کو شکست دے کر اقتدار میں آئی اور ای ایم ایس نمبوتھیریپاڈ وزیر اعلیٰ بنے۔

 مسلم لیگ نے 1959 کی آزادی کی جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔ لہٰذا جب 1960 میں انتخابات ہوئے تو کانگریس کی دانشمندی اسی میں تھی کہ وہ لیگ اور پی ایس پی کو ملا کر ایک محاذ بنائے۔ اس محاذ کو کامیابی ملی اور پی ایس پی رہنما پٹم تھانوپلا وزیر اعلیٰ بن گئے۔ لیکن کانگریس لیگ کو کوئی وزارتی عہدہ دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔

 آخر کار سیٹھی صاحب کو اسپیکر کا عہدہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ سیٹھی صاحب لیگ سے مستعفی ہو جائیں۔ لیگ کی قیادت نے بڑی مصالحت اندیشی سے اس پر اتفاق کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح لیگ نے مروجہ فرقہ واریت سے سیکولر سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے۔

 سیٹھی صاحب کی وفات کے بعد سی ایچ محمد کویا اسمبلی اسپیکر بنے لیکن لیگ کی قیادت میں کانگریس کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

 مسلم لیگ بھی پورے ہندوستان میں کانگریس کے خلاف عوامی جذبات میں شامل ہوگئی۔ 30 مئی 1966 کو، لیگ مینشن، مرائیکر لبا اسٹریٹ، چنئی میں منعقدہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں لوگوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ہندوستان میں غیر کانگریسی متبادل حکومت کے لیے کام کریں۔ اس اجلاس میں کیرلا کے اندر بھی اگلے اسمبلی انتخابات میں غیر کانگریسی حکومت بنانے کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

 یہ اس فیصلے کے تناظر میں ہے کہ سی پی ایم کی قیادت کی ایک جماعت بشمول ای ایم ایس نمبوتھیریپاڈ اور ازہیکوٹن راگھون، کوزی کوڈ لیگ کے لیڈر بی وی عبداللہ کویا صاحب کی رہائش گاہ پر بات چیت کے لیے آئے۔ یہ اہم ملاقات اگست 1966 کی ایک شام کو ہوئی تھی۔ اس رات دونوں فریقین نے بہت سی باتوں پر اتفاق کیا تھا۔

 لیگ میں شامل ہونے اور سات پارٹیوں کا محاذ بنانے کا ای ایم ایس کا منصوبہ اس دن کھل گیا۔ 1967 کے انتخابات میں سی پی ایم کی قیادت میں یہ محاذ اقتدار میں آیا۔ ای ایم ایس دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ سی ایچ محمد کویا اور ایم پی ایم احمد کریکل وزیر بنائے گئے۔ اس طرح لیگ نے پہلی بار اقتدار کا مزہ چکھا۔

 1969 میں، تاریخ نے ایک بار پھر کروٹ بدلی۔ 1967 میں کانگریس لیجسلیٹو پارٹی کے لیڈر، جو صرف نو ارکان تک ہی سمٹ کر رہ گئے تھے، کے کروناکرن نے ایک نیا محاذ بنانے کے لیے سخت محنت کی۔ کروناکرن برسراقتدار جماعت سے سی پی آئی اور مسلم لیگ کو اپنے پلے میں لے آئے۔ یہ سی ایچ محمد کویا نامی رہنما اور مسلم لیگ کی آمد تھی۔ سوائے ایک مختصر سے وقفے کے، لیگ آج تک یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہے۔

 مسلم لیگ نے ہمیں سکھایا ہے کہ اقلیتی برادری کی جماعتوں کے لیے بہترین اتحاد جمہوری-سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد ہے۔

 مسلم لیگ کی سماجی و سیاسی اہمیت و افادیت

 انڈین یونین مسلم لیگ پارٹی کی تاریخی اہمیت کیا ہے؟ انڈین یونین مسلم لیگ نامی جماعت کیرلا کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں بڑی تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ مالابار کے کیرلا میں شامل ہونے کے بعد، کیرلا میں مسلم لیگ ایک ایسی طاقت بن کر ابھری جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔

 1967 میں، مسلم لیگ کیرلا کی سیاست میں ایک مضبوط دعویدار بن کر اس وقت ابھری جب یہ ای ایم ایس کے سات جماعتی محاذ کا رکن بنی۔ اس طرح لیگ کو پہلی بار کیرالہ میں دو وزراء ملے۔ سی ایچ محمد کویا اور اے پی ایم احمد کورکل۔

 حکومت بنانے کے لیے ای ایم ایس کی حمایت کے عوض، ملاپورم ضلع کی تشکیل لیگ کا سب سے بڑا مطالبہ تھا۔ ای ایم ایس نے اس کے اس مطالبے کو تسلیم کیا۔ درحقیقت، ملاپورم ضلع کی تشکیل نے ہی انڈین یونین مسلم لیگ کو کیرالہ کے سماجی و سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی طاقت بنا دیا۔ ملاپورم ضلع کی تشکیل نے ہی لیگ کو کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کے بغیر اپنے بوتے پر تقریباً دس اسمبلی سیٹیں جیتنے کے قابل بنایا۔ 1979 میں، ہندوستان کو کیرلا میں مسلم لیگ کی قیادت میں ایک کابینہ ملی۔

سی پی ایم کے بعد، مسلم لیگ کو کیرلا میں سب سے مضبوط، کیڈر نما طاقت حاصل ہے۔ مسلم لیگ ملاپورم، کوزی کوڈ، کننور اور کاسرگوڈ اضلاع میں یو ڈی ایف کی سیاست کو حقیقی معنوں میں کنٹرول کر رہی ہے۔ اس پارٹی نے کیرلا کو وزیر اور قانون ساز کی شکل میں بہترین لیڈر دیا ہے۔

 1967 کی کابینہ کے دوران، کالیکٹ یونیورسٹی کا قیام بھی لیگ کی زبردست مداخلت سے ہی ممکن ہو رہا تھا۔ اس سے مالابار کے علاقے میں تعلیم کے میدان میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کے سیاسی کارناموں نے کیرلا کے مسلمانوں میں اعتماد کی فضا قائم کی ہے۔ کیرلا کے مسلمان آج نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ روشن خیال مانے جاتے ہیں۔ ان کی تشکیل اور تعمیر و ترقی میں مسلم لیگ کا کردار کافی عظیم الشان رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لیگ کی سماجی و سیاسی کارناموں نے کیرلا کے مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ عزت دار انسانی برادری بنا دیا ہے، باوجود معاشی تحفظات کے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خلیج کو ہجرت دیکھنے کو ملی۔

 آج ملاپورم ضلع اور ملابار ہندوستان کے سب سے زیادہ ترقی پذیر علاقے ہیں۔ تعلیمی میدان میں کیرلا کی مسلم لڑکیوں کی عظیم الشان کامیابیوں کے پیچھے مختلف وزارتوں میں مسلم لیگ کا شامل ہونا ہے۔

 کیرلا میں مسلمانوں پر لیگ کا اثر و رسوخ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں کیرلا کی مسلم آبادی میں جڑیں نہیں پھیلا سکیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آج تک لیگ نے کیرلا میں ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو وہاں کی مختلف مذہبی برادریوں میں عدم اطمینان، عدم اعتماد اور تشویش کا باعث بنے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پی ایم کا بھی یہی کہنا ہے کہ مسلم لیگ فرقہ پرست جماعت نہیں ہے۔ مختلف محاذوں پر اقتدار میں شریک لیگ کے قائدین نے کیرلا کی ہمہ جہت ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1972 میں کوچی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کے پیچھے مسلم لیگ کا انتظامی ہنر تھا، اس کے بعد سنسکرت کالج اور کننور یونیورسٹی 1994 اور 1995 میں قائم ہوئی۔

 پارٹی سیکولرازم اور جمہوریت کی حفاظت کرتے ہوئے اقلیتوں کے مفادات کو مدنظر رکھنے کا ایک عملی نمونہ ہے۔ اس سیکولر سیاست کی وجہ سے مسلمان کیرلا کے سیاسی معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ کیرالہ میں فرقہ واریت کی سیاست کو مسلم لیگ کی سیکولر اور تکثیری سیاست نے ختم کیا ہے۔ مسلم لیگ کی سیاست کا یہ نمونہ عہد حاضر کے ہندوستان میں ایک عملی مشعل راہ ہے۔

English Article: 75 Years Of Secular Politics: Indian Union Muslim League Shows The Path For Contemporary Muslim Politics In India

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/secular-politics-indian-union-muslim-league/d/131457

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..