New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 09:13 PM

Urdu Section ( 25 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Secular Politics and Indian Muslims سیکولر سیاست اور مسلمانان ہند

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

24نومبر،2023

احباب واقف ہیں کہ میں مسلمانان ہند میں واحد فرد ہوں جس کو کانگریس کی اعلیٰ ترین قیادت سابق وزیر اعظم آنجہانی نرسمہا راو، بی جے پیکی قد آور شخصیت و قیادت سابق وزیر اعظم  اٹل بہاری واجپئی اور موجودہ آر ایس ایس کی اعلیٰ ترین قیادت موہن راو بھاگوت کے ساتھ براہ راست اور باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات کا موقع ملا۔

مسلمانان ہند کے مسائل و معاملات کے حوالے سے سابقہ ساڑھے چار دہائیوں سے لکھ اور بول رہا ہوں۔ بیشتر اکابرین میرے براہ راست رابطے میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ میرا اعجاز مشکل، غیر مقبول اور ناممکن صورتحال میں پیر پھنسانے کا رہا ہے۔ جب نرسمہا راو کو ان کی اپنی جماعت کے لوگ لعن طعن کر رہے تھے اور مسلمانان ہند بھی انہیں معتوب کر رہے تھے تب میں اس وقت ان سے ملا اور جڑا۔اس کی   منطق قوم کے سامنے رکھی ۔جس کو قبولیت تو چو طرفہ ملی مگر مقبولیت تشنہ رہی ! اسی طرح ۱۹۹۶ کے غیر معمولی سیاسی حالات کے تحت جب سیکولر سیاست، سیکولرزم کا مفہوم اور اس سے وابستگی ہچکولے کھارہی تھی تب بی جے پی اور اٹل بہاری واجپائی سے تعلق جوڑا اور اس پر پوری ایمانداری و مضبو طی سے قائم رہا۔ سابقہ دس سالوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے قبولیت و مقبولیت کے تمام سابقہ  ریکارڈ توڑ دئیے جس میں آر ایس ایس کا کردار کلیدی ہے۔ اب اس کی اعلیٰ ترین قیادت سے جڑا ہوں۔ان تینوں دور میں فکر ، مصلحت اور فیض ملت جیسے اہم ترین عناصر و عوامل میرے پیش نظر رہے ہیں۔

یہ پس منظر اس لئے ضروری تھا کہ آج کے قاری کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی روایتی مضمون نگار نہیں بلکہ زمین کی زمین سے براہ راست اعلیٰ ترین سطح سے جڑا ہوا قوم و ملت کا ایک ادنیٰ سپاہی لکھ رہا ہے۔ علمی، تحقیقی و تجزیاتی سفر منطق پر مبنی رائے، آراء، فکر و ادراک کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ میں کسی سیاسی جماعت و نظریے کا نہ غیر مشروط حامی نہ مخالف! البتہ عقیدے و عاقبت پر جب آنچ آئے تب میرے یہاں کسی حکمت و مصلحت کو کوئی زمین و گنجائش حاصل نہیں! سیاست دنیاوی نظریہ رکھتی ہے، انسانی عقل، فکر و فہم سے اس کا وجود ہے! تبدیلی کا عمل اس کی روح میں پیوست ہے! یہ نہ ایمان ہے اور نہ اس کے نزدیک ہی کوئی شئے! منافقت اس کی بنیاد ہے! شرک اسکی شہ رگ ہے! چھل اسکا ہتھیار ہے اور فریب اسکا معمول! یہ نکات ذہن میں رہیں۔

تاریخی تناظر میں جب سیکولرزم کو دیکھا جائیگا تو وطن عزیز بھارت روز اوّل سے کثرت میں وحدت کا قائل رہا ہے ۔ سناتن دھرم اور آریائی ودراوڑین سنسکرتی میں کچھ بنیادی تضادات کے باوجود ان کابقائے باہم کی بنیاد پر مل جل کر ساتھ رہنا ہزاروں سال پرانی اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی و ثقافتی روایت ہے۔ ’ورن ویوستھا‘ کے باوجود بشری امتیازات اور نقائص اپنی جگہ مگر ٹکرائو نہیں! اس کے ساتھ بدھ اور جین مت جنکا سناتن دھرم سے بنیادی امور می اختلاف ہے ، ان کی پیدائش اور نشو نما کی زمین بھی یہیں ہے، زرتشت کو ماننے والی پارسی قوم ایران میں مظالم کا شکار ہوکر یہاں آئی اور اس کو قبول کیا گیا اور دل سے کیا گیا ۔اس کے بعد یہودی جب استحصال کا شکار ہوئے تو انھیں بھی پناہ یہیں ملی اور کبھی ان کے ساتھ کسی بھی دور میں کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی، مسیحی مشنری اپنے ابتدائی دور میں بھارت کی سناتن دھرتی پر آئی اور آج ا س کے کروڑوں ماننے والے یہاں کے با عزت شہری ہیں۔

اسلام رسولؐ کی زندگی میں اس خطے پر وارد ہوا ۔ قبلہ اوّل رخی گجرات میں تعمیر مسجد اور اس کے بعد قبلہ اصل جو مکہ شہر میں واقع ہے اس کی طرف رخ پر مبنی مساجد اسلام کے ابتدائی دور میں تعمیر ہوئیں۔ ان مساجد کی تعمیر سناتن دھرم کو ماننے والے ہندووں نے عرب اور مرکزی ایشیائی ریاستوں سے آنے والے مسلم تاجروں کے لئے بنوائیں۔ اس کے بعد اسلام ان حملہ آوروں اور ان کے طرز اقتدار و حکمرانی کے نتیجے میں اپنی زمین بنانے اور بڑھانے لگا ۔ ادھر اولیاء اللہ کا سلسلہ بھی ۱۱۹۳ سے سید سالار غازی ؒ ، خواجہ بختیار کاکیؒ، خواجہ اجمیریؒ اور محبوب الہٰیؒ اسی کڑی کا حصہ بنے ۔ ابن بطوطہ اور البیرونی اور دارا شکوہ جیسی اہم علمی شخصیات نے بھی اپنی خدمات سے اسلام کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ۔ یہ سب اس ملک کی اکثریت کی تحمل مزاجی، بقائے باہم میں یقین کامل، تمام انسانی برادری کو ایک کنبہ ماننے کے عقیدے کے نتیجے میں ممکن ہوا ۔ اس خطے میں ۶۵ کروڑ مسلم، چار کروڑ مسیحی، تین کروڑ سے زائد سکھ، لگ بھگ دو کروڑ دیگر اقلیتیں اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ یہ ملک اور اس کی روح سیکو لر ہے ۔

آزادی کی تحریک میں سب وحدتوں کی برابر شرکت، ۱۸۵۷ اور ۱۹۴۷ دونوں موقعوں پر سب کا ایک دوسرے کا بازو بن کر کام کرنا ،میرے اس موقف کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ پہلا نکتہ ذہن میں یہ رہے کہ سیکولرزم گاندھی، جواہر لعل ، آزاد یا سبھاش کی دین نہیں بلکہ یہ ہمیشہ سے اس مٹی میں ہے ۔ انھوں نے اسکا اعادہ کیا اور اس پر مستقبل کے بھارت کی بنیاد رکھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کا قیام، جد و جہد  آزادی میں اسکی کامیاب قیادت، حصول آزادی، آئین سازی اور ایک جمہوری، سماجوادی اور سیکولر بھارت کے قیام کو حقیقت کا روپ دینا یہ سب اسکے کھاتے میں ہے۔  بقیہ فریقین دوسرے اور تیسرے نمبر کے رفقائے کار رہے ہیں مگر آزادی کا کسی بھی دور میں کوئی مخالف نہیں رہا ۔ نظریاتی اختلاف فکری سطح پر ہونا یا رکھنے کا ہمیشہ علمی، عقلی و تحقیقی جواز رہتا ہے۔ ہندو مہا سبھا، آر ایس ایس، جن سنگھ اور آج بی جے پی نظریاتی طور پر اپنے آئیڈیا آف انڈیا کے حوالے سے سیکولر جماعتوں سے متضاد نظریات رکھتے ہیں جس پر گفتگو علیحدہ سے کرونگا۔ سلام تحسین ہے کانگریس کی روز اوّل سے آج تک کی قیادت کو جس نے ایک ایسا آئین اور آئینی نظام وطن عزیز کی تمام وحدتوں کو دیا جس میں قانون کے آگے سب برابر قرار پائے، اقلیتوں کے لئے بالعموم اور مسلمانان ہند کو بالخصوص آئینی و ادارہ جاتی جال بن کر دیا جس میں متعدد مسلمان صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ، چیف منسٹر، مرکزی وریاستی کابینی وزراء، چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنرز متعدد کمیشن و کارپوریشنوں کے چیرمین، اچھی بڑی تعداد میں اراکین لوک سبھا، راجیہ سبھا، ریاستی اسمبلی، سفراء گویا خوب نمائندگی رہی۔ ملک کے ماحول میں سب کے لئے گنجائش رہی ۔ایسا ہی دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں کا رویہ رہا۔ تمام ریاستی سیاسی سیکو لر جماعتوں نے مرکز اور ریاستی سطح پر مسلمانوں کو خاصی اور خوب نمائندگی دی۔ جنتا دل نے پہلا مرکزی وزیر داخلہ دیا، عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون، حج و درگاہ ایکٹ، قومی وریاستی اقلیتی کمیشن اور ملک گیر سطح پر اردواکادمیاں قابل ذکر اقدامات ہیں۔کشمیر کو خصوصی حیثیت و مراعات تمام سیکولر دور میں جاری رہیں!

تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو فسادات، ان میں یکطرفہ زیادتیاں، مجرمین کو سزائوں کا نہ ملنا، معاوضہ تو کبھی ملا ہی نہیں جو ملا اس کا ذکر قابل شرم ہے، فلاحی اسکیمیں اور پروگرام بہت بنے مگر عمل درآمد ہمیشہ منہ پھاڑے کھڑارہا، کچھ بنیادی تنازعات کو دانستہ چھوڑ دیا گیا بابری مسجد تنازعہ اور اسکی کوکھ سے ابھری دائیں بازو کی سیاست، ثقافت و مزاج، کشمیر کی حیثیت کو لٹکا کر رکھا، شہریت کے قانون میں خلا چھوڑا، علی گڑھ اور جامعہ کے کردار کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلا، علامتی کام میں کمی کبھی نہ رہی مگر عام مسلمان کے حال کی قلعی ان ہی کی بنائی سچر کمیٹی نے کھول دی۔ سیکولر سیاست میں مسلمان ریڑھ کی ہڈی رہا ،مگر اس کی زمینی سچائی میں بنیادی تبدیلی کا ہدف تشنہ ہی رہا۔ اوقاف اور اسکی ملکیت کےساتھ اور آثار قدیمہ کی مساجد کے تقدس کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اس کے نتائج آج مسلمانان ہند بھگت رہے ہیں۔ آخر میں بر وقت اور سخت اقدامات کے حوالے سے کانگریس اور سیکولر سیاست ہمیشہ بیانات، اقدامات اور وعدوں کے دلاسے دیتی رہی۔ نتائج سامنے ہیں بی جے پی اور سنگھ آج جس مقام پر ہیں اس کو یہاں تک لانےمیں متواتر اور وقت پر نہ لئے جانے والے عملی اقدامات و ان پر عملدر آمد نہ کرنا اسکے لئے براہ راست ذمہ دار ہے۔ آج اپنی اصل ساخت و شناخت کے حوالے سے مسلمانان ہند کےساتھ ان کا رویہ مخدوش اور احسان جتلانے والاہے جن بازوئوں اور ہاتھوں پر بھروسہ اور بیعت کی وہ ہر موقع پر بے سہارا چھوڑتے رہے ۔ آسام نیلی کا قتل عام، عیدگاہ سے نکلتےنمازیوں پر گولی، ہاشم پورہ کے نہتے مسلمانوں کو ہنڈن ندی میں ڈبونا، بھاگلپور میں زندہ مسلمانوں کو زمین میں دبا کر بلڈوزر چلانا اور فصل بو دینا، بابری مسجدکی شہادت کے بعد ہزاروں مسلمانوں کی جان سوزی یہ سب بھی قابل غور نکات ہیں ۔میں اسی لئے کہتا ہوں کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست و دشمن نہیں ہوتا اور آج بھی اس قول پر قائم ہوں۔

24 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/secular-politics-indian-muslims/d/131177

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..