جان عالم خاکی
27 اپریل 2013
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدی ، نیو ایج اسلام)
فرقے اور فرقہ واریت تقریبا تمام عالمی مذاہب کے لئے ایک معمہ، اور بہت زیادہ نزاع کا باعث رہے ہیں۔ تقریبا تمام مذاہب کچھ فرقے ذیلی فرقوں پر مشتمل ہیں ،جو ایسا لگتا ہے کہ ایک تاریخی رجحان، اور پوری تاریخ میں بہت عام ہے ۔
نہیں کے مقابلے اکثر، فرقوں اور فرقہ واریت نے دنیا کے مذاہب کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہے ، جس نے کثرت کے ساتھ دانشورانہ مباحثے کے ساتھ جسمانی پریشانی کو بھی جنم دیا ہے ۔
لہٰذا, اگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے تو، کیا اس مسئلہ سے، زیادہ تعمیری اقدام کے ساتھ رجوع کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یا پھر ہمیں ان معاملات پر ایک اور صدی تک جنگ جاری رکھنا ہے؟
تاریخی طور پر، فرقوں کو ایک مذہب یا کمیونٹی کے لئے ایک معمہ کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور اس وجہ سے اسے ایک منفی ترقی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ تاہم، ما بعد جدیدیت کے دور میں ، ایک ایسا متبادل نقطہ نظر ہے، جو ایک مخصوص زمانے سے لی گئی، تشریحات کے ایک مجموعہ کے تئیں ایک معیاری نقطہ نظر پر توجہ کرنے کے بجائے متعدد حکایات پر توجہ مرکوز کرتا ہے ۔
ما بعد جدیدیت کے دور میں، بنیادی عقائد، ایمان کے اصولوں، اقدار، رسومات، ثقافتوں اور تاریخ کے متبادل یا متعدد تشریحات کو ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی زرخیزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مختلف تشریحات کے حامل لوگوں سے نفرت نہیں ان کی تعریف کی جاتی ہے، بقائےباہم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس کی خوشی بھی منائی جاتی ہے۔
اگر ہم لفظ 'فرقہ' کو انحراف الحاد کے مطلب کے لئے لیتے ہیں تھے، تو یہ ہمیں ایک بالکل مختلف نقطہ نظر کی طرف لے جائے گا ۔ تاریخ میں ایک طویل عرصے تک یہ رویہ اکثر غالب رہا ہے۔ یہ مختلف گروپوں کے درمیان فرقہ وارانہ لڑائی کی ایک اور وجہ ہے۔
اس رویہ کے نتیجہ میں، ایک فرقے 'حتمی سچائی' کا یا صرف ان کی طرف خدا کے ہونے یا صرف انہیں کے جنتی ہونے اور باقی سب کے لئے جہنمی ہونے کا دعوی کرتا ہے۔
اپنے کسی ایک فرقے کے اراکین کو عام طور پر عقیدے میں 'بھائی' اور 'دوسروں'کے لئے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
پھر اس طرح کے رویوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے ذریعہ کی گئی تشریحات ہیں جو 'منحرف' یا 'ملحد ' (‘صحیح ’ عقیدے سے منحرف) کے ہیں ۔ اس رویہ کو فرقہ واریت یا فرقہ پرستی کہا جا سکتا ہے ۔ اس رویہ کی اہم خصوصیات میں علیحدگی پسند اور جیت ہار کے رویہ شامل ہو سکتے ہیں۔
دوسرا رویہ ،جس میں دوسرے فرقوں کو ایک 'متبادل' عقیدہ یا رائے کا حامل سمجھا جاتا ہے، (جب تک کہ وہ انتہا پسند یا عسکریت نہ پسند ہوں ، جو تباہی پر اڑے ہوئے ہوں) وہ 'دوسرے' کے تئیں ایک مثبت نقطہ نظر کا باعث ہوتا ہے ۔
مسلم معاشروں میں فرقوں کے حوالے سے ایک لفظ فرقہ استعمال ہوتا ہے، جس کا لفظی معنیٰ شاخ ہے ۔ جو کہ ایک بڑے درخت کی ایک شاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، پختہ استعارہ ہے۔
ایک بہت بڑے درخت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے ، اس میں بے شمار شاخیں نکل آتی ہیں ۔ اسی طرح، ایک بڑا مذہب یا روایت ہمیشہ متعدد تشریحات سے لیس ہوتا ہے۔ جس روایت کی صدیوں سے صرف ایک ہی تشریح رہی ہو ، وہ انتہائی ادنیٰ روایت ہو گی ۔ اس تناظر میں یکتائی ضروری طور پر ایک درخت کا ایک اچھا معیار نہیں ہے، حقیقت میں یہ ایک قابل بحث ہو سکتا ہے۔
یہ استعارہ خوبصورتی سے اپنا مقصد پورا کرتا ہے جب اسے عظیم عالمی مذاہب کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے،جس کا میلان مختلف ہونے کی طرف ہے،جو ایسے متعدد تشریحات کے حامل ہیں جن میں سے ہر ایک خود اپنے طریقے پر اعلیٰ ہے ۔ بہت سے مسلمان مفکرین اور صوفیاء نے مسلم معاشروں میں اتحاد اور اختلاف کے اس سوال کا سامنا لا محدود حکمت کے ساتھ کیا ہے۔ رومی نے اس مسئلے کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے۔ مثنوی میں انہوں نے ہمیں اس بات کی قدر دانی میں مدد کے لئے کہ کس طرح انسانی تجربات انفرادی ہو سکتے ہیں، ایک ہاتھی اور اندھے کے استعارہ استعمال کیا ہے،اور اس بناء پر دوسروں کے تجربات اور ان کی تشریحات کا احترام کرنے کی ضرورت کی بھی ۔
خوش قسمتی سے، علماء ایک مثبت جذبہ کے ساتھ ، فرقہ وارانہ تقسیم، (فرقہ واریت کو نہیں) کو سمجھنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ بہت سے علماء کرام معاشروں کے درمیان ہی نہیں بلکہ معاشروں کے باہر اور تہذیبوں کے باہر بھی ، ایسے طریقے سے، تاریخ اور روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے معنی خیز بات چیت شروع کرکے، خلاء کوپر کر رہے ہیں، جو اسی مذہب کے ارکان میں یا اس مذہب کے باہر کے لوگوں کے درمیان بہتر افہام و تفہیم کو فروغ دیتا ہے ۔ ڈاکٹر فرہاد دفتری ، ایک معروف معاصر مسلم اسکالر، بجا طور پر امت کی طرف "تشریحات کی کمیونٹیز" کے طور پر التفات کرتے ہیں ۔ انہوں نے دلیل دی کہ وہ فرقے تاریخی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی سمیت کئی عوامل کی وجہ سے اسی مذہب کی مختلف تشریحات سے دلچسپی لے رہے ہیں۔
ایک یا کسی دوسری وجہ کے لئے، ایک کمیونٹی اپنے پس منظر کی ایک تشریح اختیار کئے ہوئے ہے، لیکن ایک ہی مذہب کے اندر اندر۔ لہذا تنوع کو ایک نعمت کے طور پر دیکھنے کے بجائے سیاسی، اقتصادی، نسلی اور مقامی وجوہات کی بنا پر، تشریحات کے تنوع کو کچھ برا سمجھا جاتا ہے۔ اس رویہ کے نتائج کیا تھے وہ ہم جانتے ہیں۔
ابھی تکثیریت کا تصور، خوشی سے، رفتار حاصل کر رہا ہے، اور جہالت کے خاتمے کے ساتھ، فرقوں یا مذاہب کے درمیان تصادم سے گریز کرنے کے عظیم اقرار برآمد کر رہا ہے ۔
صدیوں سے، فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ جنگوں نے انسانی زندگی کو ایک بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے اور ہم اسی یا دیگر مذہب کی تشریحات کے ساتھ مزید جنگ جاری رکھتے ہیں تو یہ ایک افسوس کی بات ہوگی۔ بلکہ، ہمیں معاشروں کو ان کے مسائل حل کرنے کے لئے اپنے وسائل کو جمع کر تے ہوئے، اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے میں مدد کے لئے، یکجا ہونا چاہئے ۔
یقینا اس کی امید ہے، جیسا کہ آج ہم ان کے فرقہ وارانہ تشریحات کو راہ میں رکاوٹ بنے دئے بغیر کمیونٹیز اور سرحدوں سے باہر کام کرنے والے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں۔
مجموعی طور پر فرقے 14 سے زائد صدیوں سے مسلم معاشروں کا ایک لازمی حصہ رہے ہیں۔ ہم ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے ۔ ہمیں ان کی طرف ایک مثبت رویہ کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے ، جو ہمیں مسلم عقیدے کے ایک سے زیادہ تشریحات کا احترام کر نے والا اور جامع بنا سکے ۔
تاہم، ہمیں فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمیں اکثر، ان لوگوں کے خلاف، علیحدگی پسند ، متکبر اور متشدد بنا دیتی ہے ، جو عقیدے کی مختلف تشریح کے حامل ہوتے ہیں۔
جان عالم خاکی پاکستان کے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں تاریخ اور مسلم معاشروں کی ثقافت پڑھاتے ہیں۔
ماخذ:
http://dawn.com/2013/04/26/sects-and-sectarianism/
URL for English article
; https://newageislam.com/islam-sectarianism/sects-sectarianism-enigma-almost-all/d/11359
URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/sects-sectarianism-enigma-almost-all/d/11380