ظفر آغا
شکر ہے خدا کا کہ ٹوجی معاملہ
میں پی چدمبرم کو عدالت سے راحت مل گئی ۔ذرا تصور کیجئے کہ اگر عدالت پی چدمبرم کے
خلاف فیصلہ دے دیتی تو کیا ہوتا؟ ظاہر ہے کہ پی چدمبرم کو وزارت داخلہ سے مستعفیٰ ہونا
پڑتا ۔اگر چدمبرم وزیر داخلہ نہ رہتے تو ہندوسانی مسلمان کا کیا حشر ہوتا ؟ ان کا وہی
حشر ہوتا جو بٹلہ ہاؤس کے وقت تک ہندوستان کے کونے کونے میں ہورہا تھا ، یعنی سارے
ملک میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے اور جگہ جگہ سے ہندوستانی نوجوان جیل کے سلاخوں
کے پیچھے بھیجے جاتے ۔میڈیا کبھی اعظم گڑھ تو کبھی مالیگاؤں جیسے شہروں کو آتنگ گڑھ
کا لیبل لگاتار ہتا اور ڈر سے سہمے مسلمان کے سر پر دہشت گردی کی تلوار لٹکتی رہتی
۔
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر تک ہندوستان
کا مسلمان دہشت گرد ٹھہرادیا گیا ۔جگہ جگہ بم دھماکے ہونے کی وارداتیں ہوتی تھیں ۔میڈیا
میں فوراً مسلم مجاہدین جیسی دہشت گرد تنظیموں کاشور مچ جاتا تھا اور پوری مسلم قوم
کے سرپردہشت گردی کی تلوار لٹک جاتی تھی ۔پھر مسلمان کو غیر مسلم دہشت گرد کیوں نہ
تصور کرتے۔کبھی القاعدہ کے لوگ جہاد کے نام پر ویسے ہی دہشت گرد حملے دنیا بھر میں
کررہے ہوتے تھے توکبھی پاکستانی دہشت گرد ممبئی میں گھس کر تاج ہوٹل اور وی ٹی اسٹیشن
پر حملہ آور ہوتے نظر آتے تھے۔ ایسے ماحول
میں بس کہیں بھی ایک بم دھماکہ ہوتا اور میڈیا پر مسلم مجاہدین جیسی تنظیم کا شور مچتا
تو یہ فطری تھا کہ ہر دماغ میں یہ شک پیدا ہوتا تھا کہ اس معاملے میں ضرور مسلمان ہی
شامل ہوں گے ۔کیونکہ ہر آدمی امریکہ کے 11/9حملے سے تاج ہوٹل ممبئی حملوں تک کے تناظر
میں فوراً یہی سوچتا تھا کہ مسلمان تو ہوتے ہی دہشت گرد ہیں، ا س لئے جو ابھی بم دھماکہ
ہوا ہے اس میں بھی مسلم دہشت گرد ضرور شامل ہوں گے۔
عالمی سطح پر دہشت گردی کے
شور میں مسلمانوں کے بارے میں ہندوستان میں بھی یہی عام رائے بن گئی تھی ۔ پی چدمبرم
کا کمال یہ ہے کہ چدمبرم نے بطور وزیر داخلہ مسلمانوں کی اس امیج کو توڑ دیا۔ وہ کیسے
؟ بٹلہ ہاؤس واقعہ تک اس ملک کے کسی کونے میں کوئی بم دھماکہ ہوتا تھا تو بس مسلمان
کا نام آتا تھا، لیکن بٹلہ ہاؤس واقعہ کے کچھ ہی عرصے بعد جب چدمبرم وزیر داخلہ ہوگئے
تو ان کی زیر نگرانی وزارت داخلہ کے زیر نگیں ممبئی پولس نے ہندوستان کو دہشت گردی
کا ا یک نیا روپ پیش کردیا اور وہ دہشت گردی کا نیا چہرہ تھا سادھوی ، رتھمبرا اورسوامی
اسیما نند جیسوں کا ۔ گیروے کپڑوں میں ملبوس یہ وہ افراد تھے، جن کا تعلق کبھی سنگھ
پریوار سے رہ چکا تھا ۔ اب ملک میں اسی میڈیا جس نےکبھی اعظم گڑھ کو آتنگ گڑھ کہا
تھا، نئے دہشت گردی کے رنگ کو ‘ہندودہشت گردی’ کا نام دے دیا۔ حالانکہ یہ بات غلط تھی۔
دہشت گردی تو بس دہشت گردی ہوتی ہے ۔ اس کا کسی مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔بہر
کیف ،سادھوی ، رتھمبراجیسوں کے پکڑے جانے کے بعد ملک میں دہشت گردی کا ایک نیا روپ
ابھر کر سامنے آیا ، اب محض سادھوی پر ہی انگلی نہیں اٹھی ،بلکہ میڈیا نے اس معاملے
میں سنگھ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردیا ۔ پھر چھان بین شروع ہوئی اور اب تو
ملک کے سامنے دہشت گردی کی ایک دوسری ہی کہانی سامنے آئی ۔ وہ کہانی یہ تھی کہ وہ
اورنگ آباد بم دھماکہ ،مکہ بم دھماکہ یا پھر سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ ،ان سب معاملوں
کا مسلمانوں سے کوئی لینا دینا تھا ہی نہیں ۔
اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ مسلم
قوم جو اب تک عام رائے میں دہشت گرد اور جہادی تھی، اب اس کے لئے خیال بدلنے لگے ۔اب
جو بم دھماکے ہوئے اس میں مسلم مجاہدین جیسی تنظیموں کا شور مچا ،لیکن پوری قوم کے
سرپر دہشت گردی کی تلوار نہیں لٹکی ۔مسلمانوں کے بارے میں یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟ کہنے
کو تو سادھوی ،رتھمبرا جیسوں کو دہشت گردی کے معاملے میں گرفتار کرنے والے کا نام تھا
ہیمنت کڑکڑے ، وہ ممبئی دہشت گرد حملوں میں مارے بھی گئے ،لیکن ہیمنت کرکرے اورنگ آباد
معاملے کی چھان بین کرنے کافیصلہ کرنے والی شخصیت کا نام پی چدمبرم تھا۔ لب لباب یہ
کہ بٹلہ ہاؤس معاملے کے بعد سونیا گاندھی او رمنموہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے سرکار
نے یہ سیاسی فیصلہ کیا کہ ملک میں مسلمانو ں کے خلاف دہشت گردی کی جو الزام تراشی چل
رہی ہے، اس پر روک لگنی چاہئے اور یہ روک وزیر داخلہ کے علاوہ اور کوئی نہیں لگاسکتا
تھا، چنانچہ اس فیصلے کے بعد وزارت داخلہ کے عہدے پر پی چدمبرم جیسا ایک سیکولر شخص
فائز کیا گیا، جس نے ہیمنٹ کرکرے جیسے افسر کو استعمال کر کے ملک کو دہشت گردی کا ایک
نیا چہرہ پیش کردیا۔ جس کے بعد مسلمان کے سر سے دہشت گردی کی تلوار اتر گئی ۔تب ہی
تو آج اگر بم دھماکہ ہوتا بھی ہے تو ملک کی فضا نہیں خراب ہوتی۔
ظاہرہے کہ یہ بات ان فرقہ
پرست ہند وتنظیموں کو پسند نہیں آئی ہوگی، جو سادھوی ،رتھمبرا او رسوامی اسیما نند
جیسوال کا استعمال کر کے مسلمانو ں کو بدنام کررہی تھی ۔اب ان تنظیموں کے سامنے یہ
سوال تھا کہ اس فضا کو اس وقت تک نہیں بدلا جاسکتا ہے ، جب تک پی چدمبرم کو وزارت داخلہ
کے عہدے سے باہر نہیں کیا جائے۔ اب انہی فرقہ پرست طاقتوں نے چدمبرم کے خلاف سازش رچی
۔ٹوجی معاملہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ جس پر سارے ملک میں حکومت کے خلاف فضا بن چکی
تھی۔ اب فرقہ پرست تنظیموں کے نور نظر سبرامنیم سوامی وزیر داخلہ کے خلاف عدالت پہنچے ۔یہ وہی سبرامنیم سوامی ہیں ، جنہوں
نے ابھی حال ہی میں صرف مسلمانوں ہی نہیں ،بلکہ اسلام کے خلاف بھی ایک نفرت انگیز مضمون
ایک انگریزی اخبار میں شائع کیا۔ اس سلسلے میں سوامی کے خلاف عدالت میں سنوائی چل رہی
ہے۔ الغرض ،عدالت نے سوامی کے خلاف چدمبرم کی اپیل رد کردی اور چدمبرم اس معاملے میں
بری ہوگئے۔
گزشتہ تقریباً سات برسوں میں
کانگریس نے مسلمانوں کو دوبڑی راحت دی ہے ، اولاً ،اب ملک میں کہیں بھی بڑے مسلم مخالف
فساد نہیں ہوتے۔ اگر ہوتے بھی ہیں تو ان پر چوبیس گھنٹے میں روک لگ جاتی ہے اور افسروں
کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، جیسے کہ راجستھان میں ہوا۔ پھر حملے کے بعد مسلمانوں کے
سرپر جو دہشت گردی کی تلوار لٹکی تھی، وہ بھی سادھوی جیسوں کی گرفتاری کے بعد اتر گئی
۔ ان دونوں ہی معاملوں میں بحیثیت وزیر داخلہ پی چدمبرم کا کردار نمایا ں ہورہا ہے
۔فرقہ پرست طاقتیں اسی وجہ سے بے دخل کرنا چاہتے تھے ،لیکن عدالت کے فیصلے کے بعد چدمبرم
بچ گئے اور اس فیصلے نے مسلمانوں کے لئے بڑی راحت کا سامان پیدا کردیا۔
بشکریہ: راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sectarian-forces-disgusted-chidambaram-/d/6574