حسین امیر فرہاد
زاویۃ الکتب
تعارف و تبصرہ
( حقیقت کی تلاش)
اس کتاب کے مصنف ہیں ، میاں فاروق عنایت ۔ یہ کتاب نیوز کے اچھے کاغذ پر چھپی ہے ، لکھنے والے اٹک کر سرکاری اسکول میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں، ہارڈ جلد صفحات 664 قیمت 750 روپے ۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب نے اس پر تعارف لکھا ہے ۔ انکشاف کیا ہے کہ یہ کتاب محیر العقول واقعات کی حامل بھی ہے ۔ مصنف صاحب کہیں طریقت و شریعت کا شارع ، اخلاقیات کے نقیب اور روحانیات کے مسافر دکھائی دیتے ہیں ، کہیں دنیا دار کہاں سائنس دان اور سیاست دان لگتے ہیں ۔ انہوں نے اور ابھی بہت کچھ لکھا ہے مگر قارئین کرام تھوڑے پر گزارا کریں ۔
کیونکہ مجھے یاد آیا کہ ایک نو وارد نے مسجد سے ملحقہ دروازے پر دستک دی تو مولوی صاحب کا نوکر نکلا کہا فرمائیے ۔ نووارد نے پوچھا کہ کیا حافظ خطیب ، مولانا رکن الدین پیشوائے سالکین ، قطیب دوراں مدظلہ لہ العالی یہاں رہتے ہیں ؟ نوکر نے کہا یہ تو چھوٹی سی کوٹھڑی ہے اس میں اتنے آدمی کیسے رہ سکتے ہیں ؟ اس میں تو ایک ملا جی رہتے ہیں ۔
کتاب میں عشق کا ذکر کثرت سے ہے اسی عشق کے عنوان کے تحت صفحہ 425 پر رقم طراز ہیں ۔
لیکن دوسری راہ عقل کی نہیں بلکہ عشق کا راستہ ہے ۔ اپنے کچھ لوگوں کو اللہ پاک ایسا شوق و ذوق ، جنون ، اپنی طلب ( اللہ پاک کی طلب) ایسی بھوک ، ایسی پیاس لگا دیتے ہیں کہ ان کی نسلی باوجود تمام عقلی و شرعی احکام کو ماننے ، تسلیم کرنے اور ان پر عمل کرنے سے نہیں ہوتی ۔ ان کا دل دنیا میں یا دنیا کے کاموں میں یا تو شروع ہی سے نہیں لگتا ، یا زندگی کے کسی خاص موڑ ، خاص زمانے اور خاص عمر کے حصے میں ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے ۔.......... اور وہ جنگلوں ویرانوں ، پہاڑوں، صحراؤں میں نکل جاتے ہیں، گیان و دھیان لگاتے ہیں ........... کیونکہ وہ اپنا سب کچھ اللہ کے عشق و محبت میں بھول جاتے ہیں ۔ پس یہ ہے روح کی دنیا یہ ہے روح کی دنیا کے مسافر حقیقت کے سوار جس طرح ذرا سے دہی سے دودھ کو ‘‘ جاگ’’ لگ جاتی ہے اور وہ بھی دہی بن جاتا ہے اسی طرح ان فقرا ء ان اولیا ء اللہ سے ان کی نگاہ سے ان کے قلب سے ان کی روح سے دوسرے ‘‘ جاگ ’’ حاصل کرتے ہیں ورنہ دودھ کڑھ کڑھ کر جتنا خالص ہوجائے وہ دودھ ہی رہتا ہے ۔
روحانی ٹیوننگ کی انہوں نے ایک مثال بیان فرمائی ہے ۔ ایک کوئی فقیر ولی اللہ تھا ایک اس کا تابعدار بالکہ تھا اور وہ فقر کا طالب تھا اس نے خدمت مرشد میں کئی سال لگائے مگر کچھ حاصل نہ ہوا، مرشد بردبار تھے اور بالکا (مرید) بے صبر تھا ، ایک دن یہ دریا کے کنارے گزررہے تھے مرشد نے کہا تم دریا میں نہالو میں یہا ں آرام کرتاہوں، اس نے کپڑے اتارے دریا میں اتر گیا جب باہر نکلا تو سر تا پاؤں عورت بن چکا تھا ، صورت عمر اور ملک جگہ بھی بدل چکی تھی ، وہاں کچھ عورتیں کپڑے دھورہی تھیں انہوں نے اسے آواز دی کہ جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔ وہ شدید حیرت پریشانی میں باہر نکلا اور کپڑے پہنے ایک دیوہیکل مرد دور سے آیا اسے برا بھلا کہتا ہوا اور کوستا ہوا آرہا ہے ۔ اُسے دو چار ہاتھ مارتا ہے کہتا ہے گھر میں بچے بھوکے ہیں اور تم کھانا بھی پکا کر نہیں آئی ہو۔ گھر جاکر بچے اسے اماں اماں کہہ کر لپٹ جاتے ہیں ۔ ایک شیر خوار بچہ اس سے دودھ مانگتا ہے اس کی چھاتیوں میں بھی جاری ہوجاتا ہے ۔ اس کی باتوں پر کوئی یقین نہیں کرتا کہتے ہیں اس پر جن کا اثر ہے بڑی مار پڑتی آخر وہ خدا کا لکھا سمجھ کر رہتی ہے اسی خاوند سے اسے تین بچے پیدا ہوتے ہیں وہ ایک دن پھر اپنے چھوٹے بچے شیر خوار کو گود میں لے کر دریا جاتی ہے بچے کو کنارے لٹا کر عورتوں سے کہتی ہے اس کا خیال رکھنا میں ذرا نہا لیتی ہوں پانی میں ڈبکی لگاتی ہے تو مکمل مرد بن جاتی ہے، زمان و مکان بدل گئے وہ دریا سے دوڑتا ہوا نکل کر اپنے مرشد کے پاس جاتاہے ۔ اور دھاڑیں مار مار کر روتا ہے ۔ مرشد کہتا ہے تم کچھ دیر نہالو میں تو ابھی لیٹا بھی نہیں ہوں ۔ وہ حیران مرشد کے پاؤں سے سر اٹھا کر دیکھتا ہے ، مرشد ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا ہے ۔اس کے بعد اس نے مرشد کی خدمت میں ساری زندگی گزاردی ۔
میں نے اختصار سے کام لیا ورنہ کہانی لمبی تھی ۔ ہمارے ہاں پرانے صوبہ سرحد اور نئے خیبر پختونخواہ میں دسمبر کی یخ بستہ ٹھنڈی راتوں میں حجرے میں بوڑھے جوان کمبل لپیٹے ہوئے چرس کے سوٹے لگا کر اس قسم کے قصے سنتے ہیں اس قسم کی محیر العقول کہانی بیان کرنے والا ہیرو کہلاتا ہے ۔ لیکن اب یہ دور آہستہ آہستہ بدل گیا ہے لوگ عقل مند ہوگئے ہیں ، ہوسکتا ہے اٹک تک لہر نہیں پہنچی ہو ۔
ایسی خرافات اگر کسی شخص واحد تک رہے تو حرج نہیں ہے مگر جب یہ تحریر میں آجائے تو دوسروں کو بھی گمراہ کر تی ہے ۔ اور پھر لکھنے والے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیں وہاں بچوں کے کچے ذہنوں پر بھی اثر انداز ہوں گے وہ خود تو ڈوباہوا ہوگا مگر انہیں بھی لے ڈوبتا ہے ۔چاول پک گئے ہیں یا ابھی کچے ہیں اس کے لئے پوری دیگ کو نہیں دیکھا جاتا ایک چاول سے اندازہ ہوجاتا ہے ۔ میں نے بھی ایک آدھ صفحے کو آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔ پوری 664 صفحات کی کتاب کی نہ ضرورت ہے نہ پڑھنے کا وقت مگر میں نے یہ دیکھا کہ محترم نے قر آن کریم کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا کوئی آیت نہیں درج کی ، بس جو من میں آیا لکھتے چلے گئے ۔
عشق کا کلمہ تو ناجائز ہے ۔ یہ تو کلمہ کفر ہے ۔ یہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں اپنی بہنوں سے بہت محبت کرتا ہے اور فلاں اپنی ماں سے جبکہ فلاں اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت کرتاہے ۔ مگر یہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ فلاں اپنی بہن کا عاشق ہے اور فلاں آجکل اپنی ماں سے عشق لڑا رہا ہے ، جبکہ فلاں صاحب اپنی بیٹیوں سے بے اندازہ عشق کررہا ہے ۔ جب ماں ، بہنوں او ربیٹیوں سے عشق نا جائز ہے تو اللہ اور رسول سے عشق کیسے جائز ہوسکتا ہے ۔ کمال یہ ہےکہ عشق کا کلمہ عربی ہونے کے باوجود قرآن کریم اور صحاح ستہ میں نہیں ہے۔
عربی میں عشق صنف مخالف سے کیا جاتا ہے ، یعنی إمرۃ مع رجال و رجال مع امرۃ ۔عورت مرد سے او رمرد عورت سے ۔ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ زید اپنی موٹر سائیکل پر او رعمر اپنے گھوڑے پر عاشق ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے وطن میں گدلا پانی ہے اور اندھی مچھلیاں ہیں سنو اور سردھنو۔ عشق کے لئے ضروری ہے کہ دونوں کا رتبہ بھی برابر ہو اور ایک ہی جنس سے ہوں ۔ میں تو سپاہی کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ تھانے دار کی بیٹی پر عاشق ہو کیونکہ دونوں کا رتبہ ایک نہیں ہے ، کیا اللہ اور بندے کا رتبہ برابر ہے؟ ۔ ایک خالق دوسرا مخلوق ۔ ایک مقدس رب دوسرے کے پیٹ میں گندبھرا ہوا ہے اور دعویٰ عشق اللہ سے کرتاہے ۔ محبت ہو سکتی ہے فلان یحب اللہ و فلان یحب الرسول ۔ مگر فلاں اللہ سے یا رسول سے عشق نہیں کرسکتا ۔ میں نے کسی شاعر کے شعر کا سہارا نہیں لیا ۔ کہ
عشق نے غالب کو نکما کردیا
و رنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
یا
کہتے ہیں جسے عشق خلل ہے دماغ کا
عربی میں عشق عشق ہے اسے تقسیم اہل ہند نے کیا ہے یہ عشق حقیقی ہے اور یہ مجازی ہے ۔ مسلمانان ہند تو اتنے گئے گزرے لوگ ہیں کہ انہوں نے تو وحی کے بھی ٹکڑے کردیئے ۔ یہ وحی متلو ہے یہ غیر متلویہ جلی ہے یہ خفی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی کبھی وحی اترنا بند ہوجاتی تھی ۔ ادھر بھی ہی کیفیت ہے ۔ میاں فاروق صاحب صفحہ 379 پر لکھتے ہیں معلوم نہیں کیوں ادھر سے علم کا اترنا کچھ رک سا گیا ہے عجب انقباض کی کیفیت ہے ۔ چاہتا ہوں کہ جلد از جلد تحریروں کو مکمل کرلوں تاکہ تحریر و تقریر مطالعہ کتب سے فارغ ہوکر فقر کی دنیا میں اتر جاؤں ۔ مطالعہ کتب سے تو عرصہ ہوا طبیعت اچاٹ ہوچکی ہے کہ کسی کتاب کو پڑھنے کو دل نہیں چاہتا حتیٰ کہ اخبار ٹی وی اور روز مرہ کی خبروں اور دنیا داروں سے بھی طبعیت بیزار ہے ،اب اس دنیا میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہوں، اب مجھےکسی اور دنیا میں جانا ہے ۔حواس خمسہ کی دنیا سےدور دیگر جہانوں کا متمنی ہوں ۔ دل میں عجیب احساس ہے عجیب پیاس ہے عجیب بھوک ہے عجیب خلاء ہے جو کسی بھی شے سے پر نہیں ہوتا ۔ لیکن میری جلدی کے باوجود علم اندر سے باہر آنے میں بڑی دیر لگانے لگا ہے ۔ بہر حال دیکھیں جتنا خدا کو منظور ہوا حقیقت سے پردہ اٹھاؤں گا ۔
پتہ نہیں میاں فاروق صاحب پر کس کی عنایات ہیں کہ انہیں جنگل کا راستہ سو جھتا ہے ۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے تو دنیا میں رہ کر دین کمایا تھا دنیا کو چھوڑ کر جنگل کی راہ اختیار کرنا راہبانہ زندگی ہے جو سادھوؤں او رحقائق سے آنکھیں چار نہ کرنے والوں نے یہی راہ فرار اختیار کی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو سوداگر تھے دور دور مال لے جایا کرتے تھے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی اسی سوداگری میں ان کی شادی ہوئی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی اپنا اپنا روزگار کیا کرتے تھے تارک الدنیا ان میں کوئی نہیں تھا ۔ پھر میاں صاحب جنگل کا رخ کر کے کس کی سنت ادا کررہے ہیں؟
صفحہ 276 پر لکھتے ہیں ‘‘ گرونانک اللہ کے بہترین پائے کے ولی تھے پکے موحد تھے ان کی تعلیم مسلمان صوفیاء سے متاثر نظر آتی ہے ۔ تصوف میں بلند مقام پر فائز تھے، مکہ مدینے میں حاجیوں کے ساتھ حج کیا تھا ۔ دربار نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی تھی ۔
یہ تمام تحریر بلا کسی ثبوت اور دلیل درج ہیں ۔ صفحہ 363 پر رقم طراز ہیں ۔ پھر کچھ اپنے بارے میں ! فطرت اپنی راز فشانیوں پر مجھ سے لڑنے لگی ہے ۔ باقی اتنا کچھ اور ایسا کچھ ہے جسے قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔
اللہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں ۔ بعض لوگوں کے لئے ۔وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (6:43) شیطان ایک بے کار عمل کو مزین خوب صورت کر دکھاتا ہے اور وہ اس میں مگن رہتے ہیں ۔ ہماری طرف سے میاں فاروق عنایت صاحب کو راہ حق کی تلاش اور اس پر گام زنی کی دعوت ہے سراب چھوڑ کر حقائق کی طرف آجائیں تو بہتر ہوگا ۔
آئیے محترم دنیا کے حقائق کو خوشی خوشی قبول کیجئے ۔ اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال و عظمت کی خاطر ان حقائق سے عہد ہ براہ ہونے کی سعی و کوشش میں مصروف ہوجائیے ۔ اُس شخص کی بات پر کان مت دھرئے وہ آپ کا دوست نہیں دشمن ہے جو کہتا ہے کہ اسلام میں جنگل جانا بھی ضروری ہے ۔ اس پر جھوٹے مدعیوں کے اقتدار اور آپ کی غلامی کا انحصار اس پر ہے ۔ مسلمانو! ان شعبدہ بازوں کی کمند بڑی مدت سےتمہاری گردنوں پر پڑی ہوئی ہے ۔ دنیائے اسلام کی نشاط ثانیہ کا انحصار اس پر ہے کہ بڑی سختی سے غیر مصلحانہ انداز کی اس توحید کو اپنا لیا جائے ۔ جس کی تعلیم 14 سو سال قبل عربوں کو دی گئی تھی ۔ عجمیت کے دھندلکوں سے نکلو اور عرب کے درخشاں صحرا کی روشن فضا ء میں آجاؤ ۔ یہی صراط مستقیم ہے ۔جنگل جانوروں کا مسکن ہے انسانو ں کا نہیں ہے ۔
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جزبہ قرآں زیستن
جنوری، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/search-truth-book-review-/d/87232