ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
2 اپریل 2025
عالمی سطح پر نوع انسانی آج جن مباحث و مسائل سے دوچار ہے ان میں ایک اہم ترین شئ خود انسانی فکر و نظر کا عدم توازن بھی ہے۔ جب کہ ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سوچ و فکر کا عمل دخل زندگی کے جملہ شعبوں میں مرتب ہوتا ہے۔
خواہ سیاست ومعاشرت کا کوئی گوشہ ہو یا پھر علم و تحقیق کا کوئی موضوع ۔ اگر ہماری فکر ہموار ہے ، اس کے اندر توازن و اعتدال کا پہلو غالب ہے تو یقینی طور پر اس سے سماج و معاشرے کے تمام مسائل و مباحث بآسانی حل ہو جائیں گے ۔ تنازع اور جدال کی کیفیت سے بچا جاسکتا ہے ۔ برعکس اس کے اگر سوچ و فکر میں کسی بھی نوعیت کی کجی ، عدم توازن یا تعصب و تنگ نظری ہے تو علمی و فکری میدان کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی مسائل و مباحث مزید الجھ کر رہ جائیں گے ۔ گویا ہمارے اس جانب دار رویہ سے نہ تو سماج کو کوئی فائدہ مل پائے گا اور نہ ہماری تحقیق و ریسرچ سے سماج میں ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوگی ۔ لہذا ایک صحت مند ،صالح اور راست شعور و ادراک سے لیث معاشرہ اسی وقت تشکیل پاسکتا ہے جب سوچ میں توازن ، ہم آہنگی اور توسع ہوگا ۔ ہماری تحقیقات و تصنیفات ، سیاسی و سماجی اقدامات و عوامل میں کہیں بھی اور کسی بھی وجہ سے جھول نہ آ پائے ۔
لیکن اس وقت صورت حال ایسی نہیں ہے جو مثالی اور نمونہ عمل بن سکے کیوں کہ ہمارے مزعومات و تحفظات کہیں نہ کہیں محدود ہوجاتے ہیں ۔ ہم اس وقت رواداری کے تمام پہلوؤں کو یکسر بھول جاتے ہیں جب کوئی مسئلہ قومی افتخار ، مسلکی تعصب اور ملی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ اس وقت حقائق سے زیادہ عزیز ہمیں وہ کردار نظر آتے ہیں جن سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح کا رویہ سماج کی تقریبا تمام اکائیوں میں پایا جاتا ہے۔ اس سے ہمیں اپنا دامن پوری طرح صاف رکھنے کی ضرورت ہے ۔
یہاں اصلا بتانا یہ مقصود ہے کہ آج پوری دنیا میں مغربی طریقہ تحقیق ( research methodology) کو معیاری اور قابل تقلید گردانا جاتا ہے ۔ ان کے طریقوں اور اسلوب و آداب کو ہمارے اداروں میں باحثین و محققین فخریہ بیان کرتے ہیں ۔ ان گنت امتیازات و خصوصیات بتاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتاہے کہ مغربی مفکرین و محققین کی جو علمی و فکری کاوشیں وجود میں آتی ہیں ان میں تعصب و تنگ نظری اور جانب داری نہیں ہوتی ہے ۔ ہوسکتاہے کہ یہ بات درست ہو لیکن جب ہم ان کے علمی کارناموں کو اسلامیات کے میدان میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا جملہ سرمایہ تحقیق، عناد ، تنگ نظری اور دجل و فریب پر مبنی ہوتا ہے ۔ اسلامیات کے حوالے سے زیادہ تر مستشرقین جو کام کرتے ہیں وہ پہلے سے اس منفی فکر و عمل کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں جو تعصب وہ اسلام کے خلاف اپنے ذہنوں میں پالے ہوئے ہیں ۔ اس شعبہ میں نہ انہیں کوئی تحقیق کا اصول یاد رہتا ہے اور نہ کوئی ضابطہ ، ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ۔ تف یہ ہے کہ اسلام کے خلاف ہونے والی اپنی ان موضوعی کاوشوں کو معیاری اور اہم بتاتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے خلاف یہ رویہ اس کمیونٹی کا ہے جس کے سرپرست آج پوری دنیا میں مکالمہ، حوار ، باہمی یگانگت اور وحدت و اتحاد کی بات کرتے ہیں ۔ انسانی حقوق کے علمبردار بنتے نظر آتے ہیں ۔ تکثیری سماج کے تقاضوں کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے بڑے ادارے چلا رہے ہیں ۔ اس کے باجود جب بھی وہ کوئی تحقیق و تفتیش اسلامی موضوعات پر بروئے کار لاتے ہیں تو اس کے اندر نہ تحقیق کے اسلوب و آداب کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ان کی یہ سعی سماج میں یکجہتی پیدا کرتی ہے ۔ بلکہ ان کی یہ تحقیق اس فکر پر مبنی ہوتی ہے جو انہوں نے اسلام کے خلاف پہلے سے بنا رکھی ہے ۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ اصول تحقیق کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ جب ہم کسی موضوع پر ریسرچ کریں تو حقائق و معارف کو سمجھنے سے پہلے اس موضوع پر کوئی رائے قائم نہ کریں ،اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ تحقیق و تدوین کے صرف ضابطوں ہی کو پامال نہیں کررہاہے بلکہ اس کی اس کاوش سے سماج میں مثبت پیغام نہیں جائے گا ۔ اس کا مطلب پوری طرح واضح ہے کہ مغرب کا دوہرا کردار ہے یعنی وہ دنیا کو کچھ اور بتاتا ہے، پس پردہ کچھ اور ہے ۔ ان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں آج وہاں منظم طور پر ترتیب دی جارہی ہیں اس سے ان کے عزائم و مقاصد کھل کر سامنے آتے ہیں۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کوئی سماج اگر تعصب و تنگ نظری کی بنیاد پر علمی کام کرے گا تو اس معاشرے کی وقعت بھی معدوم ہوگی اور اس کا وہ عمل بھی ارباب علم و ادب کے یہاں مقبول نہیں ہوگا ۔ اس کے باوجود اگر کوئی ناز کرتاہے تو وہ خود میاں منھ مٹھو بننے کے مترادف ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب ولیم میور نے سیرت نبوی پر تحقیق کی اور لائف آف محمد نامی کتاب تصنیف کی تو اس میں ان تمام ضابطوں اور قوانین کی خلاف ورزی کی گئی جو ایک محقق کے لیے ہر گز نہی کرنا چاہیے ۔ یہ کتاب پوری کی پوری بد دیانتی ، تعصب اور عناد پر مبنی ہے بہر حال اس کا دندان شکن جواب معمار قوم سر سید نے خطبات احمدیہ کی شکل میں دیا تھا ۔ اسی طرح مستشرقین کے علمی بخل کو سمجھنا ہے تو ہمیں مشہور اسکالر پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کی حالیہ تصنیف اسلام: اہل مغرب کی نظر میں ، کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔ انہوں نے اپنی اس کتاب اکیسویں صدی میں مستشرقین نے جو اسلامیات کے نام پر کام کیا ہے اس میں کہاں زیادتی اور کمی کی وہ سب بتایا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے جملہ باطل اور گمراہ کن نظریات سے بھی واقف کرایا ہے ۔ یہ ہمارے تئیں سعادت کی بات ہے کہ اس کتاب نے مستشرقین کے عزائم کو سمجھنا ہمارے لیے بہت آسان کردیا ۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں مغرب نے جو اپنی شناخت بنائی ہے یا بنارہا ہے جب ہم ان کے مطالعہ اسلام کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تحقیقات ان تمام ضابطوں کی خلاف ہیں جن ضابطوں کو اختیار کرکے ایک محقق صحیح معنوں میں محقق بنتا ہے اور وہ علمی و فکری ادب ارباب علم و فضل کے یہاں قبولیت پاتا ہے ۔
پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے جن حقائق اور جن چیزوں کو مستشرقین کے حوالے سے پیش کیا ہے انہیں پڑھ کر یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مستشرقین اسلام اور مسلمانوں کی گھیرا بندی علمی و ادبی سرمایہ کے نام پر عمدا کررہے ہیں ۔ انہیں حقائق کا پورا علم ہے اسلام کی حقانیت کو وہ جانتے ہیں لیکن انہیں اپنے آقاؤں کے سامنے سرخ روئی حاصل کرنی ہے اس لیے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔ معاصر دنیا میں آج عالمی سطح پر جو علمی و فکری ادب یا مذہبی لٹریچر مرتب کیا جارہاہے اس کا بنیادی مقصد تو سماجی اصلاح اور فکری و نظریاتی توازن کا فروغ ہے، البتہ مستشرقین اسلامیات کے نام ہر جو لٹریچر تیار کررہے ہیں ان کا بنیادی ہدف عوام کو حقائق سے دور رکھنا ہے ۔ اسلامی روایات وتعلیمات کی بابت عوام میں منفی رجحان پیدا کرنا ہے جو کہ لازمی طور پر غیر سنجیدہ سعی ہے ۔ مستشرقین کی ان مکروہ کاوشوں کا پردہ فاش کرنے اور ان کے عزائم و منصوبات کو بے نقاب کرنے کے لیے پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے سنجیدہ جد و جہد کی ہے اور اسلام : اہل مغرب کی نظر میں ، کتاب لکھ کر ایک عظیم کام انجام دیا ہے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جب تک ہمیں اس بات کا علم نہ ہو کہ مخالفین اسلام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ، ان کا نظریہ کیا ہے اور وہ اپنے تحریری کاوشوں میں اسلام کو کن بنیادوں پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں اس وقت تک ہم نہ ایک اچھے داعی بن سکتے ہیں اور نہ ہم مذہب کے ترجمان اور نہ مثالی محقق و مصنف ، اس لیے حالات پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ ہماری کاوشیں معاشرتی سطح پر برگ و بار لاسکیں ۔
آخر میں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کی کتاب اسلام: اہل مغرب کی نظر میں، پڑھ کر یہ تحریک بھی ملتی ہے کہ معاندین اور مخالفین اسلام کے اعتراضات یا ان کے شکوک وشبہات پر ہمیں برانگیختہ نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ آج مسلم کمیونٹی کا یہ مزاج بن چکا ہے اپنے تمام مسائل کا حل مظاہروں اور احتیاجات میں تلاش کرتے ہیں ۔ جب کہ ہمیں ان تمام باتوں کا رد علمی اور سنجیدہ طور پر دینے کی ضرورت ہے یہی رویہ پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے اختیار کیا ہے اسی میں معاشرتی اور سماجی امن و یکجہتی کا راز مضمر ہے ۔
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/scientific-research-should-prejudice/d/135032
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism