New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 11:08 PM

Urdu Section ( 20 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Science and Belief: An Unbiased Examination of Ramanujan and Dr. Abdus Salam’s Achievements سائنس اور عقیدہ: راما نجن اور ڈاکٹر عبدالسلام کی کامیابیوں کا غیرجانبدارانہ جائزہ

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی

تلخیص و ترجمہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی پاکستان کے معروف سائنس دان اور استاد ہیں۔ انہوں نے روزنامہ ڈان میں برصغیر کے دو عظیم سائنس دانوں—سری نواسن رامانجن (1887-1920) اور ڈاکٹر محمد عبدالسلام (1926-1996)—کے سائنسی کام کا تجزیہ ان کے مذہبی عقائد کے پس منظر میں کیا ہے۔

یہ دونوں سائنس دان غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے، مقامی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، اور سائنس کے میدان میں شاندار خدمات انجام دیں۔ رامانجن نے ریاضی میں غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا، جبکہ ڈاکٹر عبدالسلام نے طبیعیات میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ برصغیر میں ان دونوں کی علمی بلندی کا کوئی ثانی نہیں۔

سائنس اور مذہب کا تعلق

یہ دونوں عظیم سائنس دان اپنی کامیابیوں کو اپنے مذہبی عقائد کا مرہونِ منت قرار دیتے ہیں۔ تاہم، بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندوتوا سوچ اور پاکستان میں احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے تناظر میں، ان کے سائنسی کام اور مذہبی عقائد کے تعلق پر غیرجانبدار اور محتاط تجزیے کی ضرورت ہے۔

سری نواسن رامانجن: ایک ریاضیاتی جینئس

دنیا میں کم ہی ایسے ریاضی دان ہیں جن کی زندگی رامانجن سے زیادہ رومانوی رہی ہو۔ ان کی زندگی پر متعدد کتابیں، فلمیں اور ڈرامے تخلیق کیے گئے، جن میں 2015 کی فلم The Man Who Knew Infinity قابلِ ذکر ہے۔

رامانجن کا دعویٰ تھا کہ ریاضی کے کئی تصورات اس کے مذہبی وجدان کا نتیجہ تھے۔ مدراس کے ایک کلرک کے ہاں پیدا ہونے والا یہ نابغہ روزگار بچپن ہی سے مذہبی روایات میں رچا بسا تھا۔ وہ مندروں میں بھجن گاتا، دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتا اور سخت قسم کا سبزی خور تھا۔

بارہ سال کی عمر میں وہ نہ صرف ریاضی کے مشکل سوالات حل کرنے لگا بلکہ یورپی ریاضی دانوں کے پیچیدہ Theorems کی نقل بھی کرنے لگا۔ تاہم، دیگر مضامین میں عدم دلچسپی کی بنا پر اسے کالج سے نکال دیا گیا۔

اس کے اساتذہ الجھن میں تھے کہ آیا وہ جینئس ہے یا فراڈ۔ بالآخر، 16 سال کی عمر میں اپنے استاد کی حوصلہ افزائی پر، رامانجن نے برطانیہ کے نامور ریاضی دان جی۔ ڈبلیو۔ ہارڈی کو اپنے کام کے ساتھ ایک خط لکھا۔ ہارڈی اس کے کام کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور اسے انگلینڈ بلا لیا۔

برطانیہ جانے سے پہلے رامانجن نے اپنی خاندانی دیوی، نامہ گری، سے سمندر پار سفر کی اجازت لی اور نجومیوں سے شُبھ گھڑی معلوم کی۔ تاہم، انگلینڈ کے سخت سرد موسم نے اس کی صحت تباہ کر دی، اور وطن واپس آنے کے باوجود وہ سنبھل نہ سکا۔ آخرکار، 32 سال کی عمر میں وہ چل بسا۔ بسترِ مرگ پر بھی اس نے انتہائی پیچیدہ ریاضیاتی سوالات حل کیے۔

رامانجن کا ماننا تھا کہ اس کی تمام ریاضیاتی دریافتیں دیوی نامہ گری کا چمتکار تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ دیوی اس کے کان میں فارمولے بتاتی ہے اور اس کی زبان پر مساوات (Equations) تحریر کرتی ہے۔ اس کا مؤقف تھا کہ ریاضی کی کوئی مساوات اگر خدا کی آواز نہیں ہے، تو اس کی کوئی وقعت نہیں۔

کیا مذہب سے عظیم سائنس جنم لیتا ہے؟

رامانجن کا یہ عقیدہ اپنی جگہ، لیکن عظیم ریاضی دان جیسے گوڈل (Godel)، ہلبرٹ (Hilbert)، اولر (Euler)، برنولی (Bernoulli)، گاؤس (Gauss) اور کانٹور (Cantor) تو برہمن نہیں تھے، پھر بھی ان کی عظمت مسلمہ ہے۔ آج کی جدید ریاضی رامانجن سے زیادہ ان ریاضی دانوں کی مرہونِ منت ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام: ایک دیہاتی نابغہ

لاہور کے گورنمنٹ کالج کا 19 سالہ عبدالسلام وہی ریاضیاتی مسائل زیادہ سادہ انداز میں حل کر رہا تھا، جنہیں رامانجن نے بیس سال قبل حل کیا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ رامانجن کے حل غیر ضروری طور پر پیچیدہ اور محنت طلب ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسلام پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے جھنگ میں پیدا ہوئے اور مقامی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ دیہاتی ماحول میں پرورش پانے کے باوجود، وہ کم عمری میں ہی اپنے اساتذہ کو ریاضی میں مات دینے لگے۔ ان کے اساتذہ نے حسد کے بجائے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔

بعد ازاں، عبدالسلام کا اگلا تعلیمی سفر کیمبرج یونیورسٹی تک جا پہنچا، جہاں انہوں نے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں وہ دنیا کے ممتاز ماہرینِ طبیعیات میں شمار ہونے لگے۔ انہیں بیسیوں عالمی اعزازات سے نوازا گیا اور 1979 میں طبیعیات میں نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔

عبدالسلام اور مذہب

ڈاکٹر عبدالسلام نے بے شمار لیکچرز اور انٹرویوز میں اس بات پر زور دیا کہ ان کی سائنسی کامیابیوں کی بنیاد ان کے مذہبی عقائد تھے۔ ان کے مطابق، توحید (اللہ کی وحدانیت) کے تصور نے انہیں کائنات کے بنیادی قوانین کے وحدانی تصور (Unification) کی تلاش پر اکسایا۔

1981 میں، ہود بھائی نے ڈاکٹر عبدالسلام سے ایک سوال پوچھا:

"آپ اور سٹیون وائن برگ (Steven Weinberg)، جنہوں نے آپ کے ساتھ نوبیل انعام شیئر کیا، فزکس کے ایک ہی شعبے میں مختلف انداز میں کام کر رہے تھے لیکن ایک ہی نتیجے پر پہنچے۔ آپ کی انسپائریشن آپ کے دینی عقائد تھے، جبکہ وائن برگ دہریہ تھا۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟"

اس پر ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی ایک کتاب کے دیباچے میں لکھا: "میں تصدیق کرتا ہوں کہ ہود بھائی کا مؤقف درست ہے۔" پھر انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح اللہ کی وحدانیت کے تصور نے غیر شعوری طور پر انہیں طبیعیات میں کائناتی وحدت (Unification) کی تلاش میں مدد دی۔

کیا مذہب اور سائنس میں تعلق ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالسلام اور وائن برگ نے اپنی تحقیق میں وہی سائنسی اصول اور طریقے استعمال کیے جو جدید طبیعیات میں رائج تھے۔ سلام نے جو نتائج اخذ کیے، ان کا ان کے مذہبی عقائد سے کوئی سائنسی تعلق نہیں تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ سلام اور رامانجن کے سائنسی کارنامے، چاہے وہ ان کا کریڈٹ کسی بھی عقیدے کو دیں، دراصل عظیم سائنس دانوں—آئن سٹائن، پاؤلی، ڈیراک، وہیلر، اور فین مین—کے کام کی مرہونِ منت تھے۔ ان میں سے ہر ایک کا فلسفیانہ نظریہ دوسرے سے مختلف تھا، لیکن سائنسی میدان میں ان میں اتفاق تھا۔

سلام اور رامانجن کا یہ کہنا کہ ان کی کامیابیاں ان کے مذہبی عقائد کی دین ہیں، ایک ذاتی نظریہ ہو سکتا ہے، لیکن سائنس میں اس کی معروضی تصدیق ممکن نہیں۔ البتہ، سائنسی اصولوں کی بنیاد پر ان کے کام کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

نتیجہ

سائنس اور مذہب میں ہم آہنگی ممکن نہیں۔ کسی سائنس دان کا مذہبی ہونا یا نہ ہونا ایک اضافی معاملہ ہے۔ سائنس دان کے لیے سب سے اہم چیز سائنسی طریقۂ کار (Scientific Method) ہے، نہ کہ اس کے ذاتی عقائد۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/science-belief-ramanujan-dr-abdus-salam-achievements/d/134671

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..