ستیہ
گرہ بیورو
8 اکتوبر 2020
(ترجمہ: ہندی سے اردو، نیو ایج اسلام)
ہندو
اور مسلمان دونوں ایک ہزار سال سے ہندوستان میں رہتے آرہے ہیں ۔ لیکن ابھی تک ایک
دوسرے کو سمجھ نہیں سکے ۔ ہندوکے لئے مسلمان ایک معمہ ہے اور مسلمان کے لئے ہندو
ایک معمہ ۔ نہ ہندو کو اتنی فرصت ہے کی اسلام کے سچائی کی چھان بین کرسکے نہ
مسلمان کو اتنی فرصت ہے کہ ہندو مذہب کی سچائی کو چھان بین کر سکے دونوں ایک دوسرے
کے ساتھ بے سر پیر کی باتوں کو لے کر لڑنے
کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔
ہندو
سمجھتا ہے کہ دنیا بھر کی برائیاں مسلمانوں میں بھری ہوئی ہے: ان میں نہ رحم ہے ،
نہ مذہب ، نہ اخلاقیات ،نہ کوئی پابندی ہے۔ مسلمان سمجھتاہے کہ ہندو، پتھروں کی
پوجا کرنے والا ، گردن میں دھاگا باندھنے والا ،سر رنگنے والا جانور ہے ، دونوں
فرقوں میں بڑے مذہبی رہنما ہیں ، گویا نفرت او رمخالفت ان کے مذہب کی اہم خصوصیات
ہیں۔
ہم
اس وقت ہندو۔مسلم دشمنی پر کچھ نہیں کہنا چاہتے ، صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ
ہندوؤں کی مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں جو تصور ہے ، وہ کس حد تک درست ہیں۔
جہاں
تک ہم جانتے ہیں ، کسی مذہب نے انصاف کو اتنی اہمیت نہیں دی، جتنی اسلام نے دی ہے،
اسلام مذہب کی بنیاد عدل پر رکھی گئی ہے ، وہاں راجا اور رنک ، امیر اور غریب کے
لئے صرف ایک عدل ہے، کسی کے ساتھ رعایت نہیں ، کسی کے ساتھ جانبداری نہیں ، ایسے
سینکڑوں روایتیں پیش کی جاسکتی ہیں جہاں بے کسوں نے بڑے بڑے طاقتور افسروں کے
مقابلے میں عدل کی طاقت پر فتح حاصل کی ہے ، ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں جہاں
بادشاہوں نے اپنے شہزادے ، اپنی بیگم ، یہاں تک کہ خود کو بھی انصا ف کے لئے قربان
کردیا۔
حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے لوگوں کو بھیجا تو کہا
تھا: جب لوگ تم سے پوچھے کہ جنت کی کنجی کیا ہے تو کہنا کہ وہ اللہ کی عبادت اور
اچھے کام ہیں ۔
جن
دنوں اسلام کا جھنڈا کٹک سے لے کر ڈینیوب تک اور ترکستان سے لے کر اسپین تک لہراتا
تھا ، مسلمان بادشاہوں کی تاریخ سخاوت میں کوئی
ثانی تھا، ریاست میں بڑے بڑے عہدوں
پر غیر مسلموں کا تقرر کرنا ایک عام بات
تھی۔
یہاں
تک کے یونیورسیٹیوں میں چانسلر بھی عیسائی اور یہودی ہوتے تھے، اس عہدے کے لئے صرف
صلاحیت اور قابلیت شرط تھی، مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا، ہر اسکول کے دروازے پر یہ
لفظ کھودے ہوتے تھے: زمین کی بنیاد صرف چار چیزیں ہیں: دانشمندوں کی دانشمندی ،
نیک لوگوں کی دعا، بہادروں کی طاقت اور طاقتوروں کا
انصاف ۔
محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دنیا میں کون مذہب کا رہنما ہوا ہے جس نے خدا کے
علاوہ کسی اور کے سامنے سر جھکانا گناہ ٹھہرایا ہو؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
بنائے ہوئے سماج میں بادشاہ کی جگہ ہی نہیں تھی، حکومت کرنے کیلئے صرف ایک خلیفہ
مقرر کردیا جاتا تھا ، اس چنے ہوئے خلیفہ کو کوئی وظیفہ ، کوئی تنخواہ ، کوئی
جاگیر ، کوئی ریاست نہیں دی جاتی تھی ، یہ
عہدہ صرف عزت کا تھا ،اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے خلیفہ کو بھی دوسروں کی طرح
محنت مزدوری کرنی پڑتی تھی ، ایسے عظیم آدمی ، جو ایک برے ریاست کو چلاتے تھے جن
کے سامنے بڑے بڑے بادشاہ ادب سے سر جھکاتے تھے، وہ جوتے مرمت کرکے یا قلمی کتابیں
نقل کر کے یا لڑکوں کو پڑھا کر اپنی روزی کماتے تھے۔
حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی پیشوائی کا دعویٰ نہیں کیا ، خزانے میں ان کا
حصہ بھی وہی تھا ، جو ایک معمولی سپاہی کے برابر
تھا،بعض اوقات انہیں مہمانوں کے آمد کی وجہ سے تکلیف بھی اٹھانی پڑتی
تھی،انہیں گھر کی چیزیں فروخت کرنی پڑتی تھی، پر کیا مجال کے اپنا حصہ بڑھانے کا
خیال کبھی دل میں آئے۔
جب
نماز پڑھتے وقت ایک صفائی کرنے والا اپنے آپ کو شہر کے ممتاز اور شرفاء کے ساتھ
ایک ہی صف میں کھڑا پائے گا، تو کیا اس کو فخر نہیں آئے گا ؟ اسلامی تہذیب کو
دنیا میں جو کامیابی ملی وہ بھائی چارے کی اس جذبے کی وجہ سے ملی ہے۔
اسلامی
تہذیب پر منشی پریم چند کا یہ مضمون پہلی بار 1925 میں 'پرتاپ' میں شائع ہوا تھا۔
Source:
https://satyagrah.scroll.in/article/118580/munshi-premchand-article-islamic-civilization
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism