مولانا عبدالحمید نعمانی
20جنوری، 2025
یہ جاننے کی بڑی ضرورت ہے کہ ہندتو وادی عناصر، سناتن سنسکرتی کے نام پرہندو مسلم اتحاد، اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تمدن کا پل توڑ کر سماج کو فرقہ پرستی کے سمندر میں بہادینے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہت سے دیگر مراسم وروایات کی طرح ملک کے مختلف حصوں خصوصاً ناگری، دیو ناگری، اردو کے علاقوں میں ہندو مسلم کے درمیان قائم رابطے کو ختم کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں، شاہی اسنان اور ایشور، اللہ میں تفریق کرکے نفرت وبیزاری کا کھلے عام اظہار کیا جارہاہے،ایک طرح سے روحانی،کنبھ،کنبھ میلے کا بھی فرقہ پرستی اورمختلف کمیونیٹز میں دوری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے، اس سے معروف مسلم شخصیات پرحملے میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے، ایسا کرنے والے بھارت کی مشترکہ تہذیبی تاریخ اور ہندومسلم کے خوشگوار تعلقات اور ان کے اچھے نتائج واثرات سے بڑی حد تک ناواقف ونابلد ہیں۔ یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ ایسے عناصر کو، صاف نظر آتاہے کہ اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ وقت بھی ہے کہ برہمن واد ہندوتو کے علمبردار، ہر زمانے میں نفرت اور تفریق وتقسیم میں اپنی زندگی سمجھتے رہے ہیں، بجرنگ بلی اورعلیؓ میں کبھی بھی کوئی بیزاری دوری نہیں رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بجرنگ بلی کے برعکس علیؓ ایک تاریخی کردار ہے،لیکن تاریخ وتہذیب سے دور ونفور کئی سارے ہندوتو وادی عناصر سناتن، سنسکرتی کے نام پر علی،میاں، اردو، کو بجرنگ بلی، رام، کرشن، مدن، ہندی میں آمنے سامنے کرکے تصادم کرانے کی مذموم سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ تاج محل کے علاوہ دیگر مسلم، اسلامی اور اردو فارسی والے ہندوستانی ناموں اور شناختوں کو سناتن، سنسکرتی کا حوالہ دے کر مٹانے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوگی جی نے انڈیاٹی وی پررجت شرماسے بات چیت کرتے ہوئے انتہائی فرقہ وارانہ جارحیت پر مبنی خیالات کا اظہار کیا تھا، ایسے لوگوں کو اس کابالکل بھی شعور و آگہی نہیں ہے کہ علی، بجرنگ بلی، اردو ہندی، رام رحیم، ایشو ر، اللہ، میاں، ٹھاکر، پنڈت، مولانا، عید، دیوالی، صوفی، سنت، ہندو، مسلمان، ہندو مت، اسلام وغیر ہم سب بھارت کا حصہ ہیں۔
اس معاملے میں اپنی شناخت کوباقی رکھتے ہوئے اپنے اپنے طور سے، ایک دوسرے کی آزادی کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی چھوٹ ہے۔ اس کے تحفظ کی ضمانت ملک کے آئین نے بھی دی ہے، ایم پی کے وزیراعلیٰ موہن یادو کی طرف سے، اردو، فارسی، عربی والے ناموں کو بدلنے کی کوشش، بھارت کی مشترکہ تہذیب وروایت کے سراسر خلاف او رکھلی فرقہ پرستی ہے، وہ ہندوتو وادی عناصر او ربرہمن وادیوں کی نظر میں مقبول ومرغوب بننے کے لیے،یادو ہوتے ہوئے بھی ان سے بھی بڑھ کر،اسلام، مسلمانوں،اردو فارسی، عربی والے ناموں سے نفرت وبیزاری کااظہار کرتے نظر آتے ہیں، وہ جے شری رام، جے کرشن کے نعرے بزور لگوانے کا عزم رکھتے ہیں، اس کامطلب ہے کہ ایسے لوگ رام، کرشن اور ان کے کردار وروایات سے زیادہ واقف نہیں ہیں، صرف ناموں کا غلط استعمال کیاجارہاہے، یوگی، یادو وغیرہ جس طور، طرز سے سناتن، سنسکرتی کے نام پر زور زبردستی کرتے نظر آتے ہیں اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کے نظریہ وعمل میں کوئی اپیل، طاقت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقی قوت، دیگر انسانی اقدار، مساوات وغیرہ کی بنیاد وں کو تو پہلے ہی کھو چکے ہیں، اسلام مسلم دشمنی کی مارکیٹنگ سے،کوئی مضبوط آدرش نہ ہونے کی وجہ سے، روایتی تفریق ونفرت او راونچ نیچ پرمبنی چار طبقاتی نظام کے زیر اثر ہندو اکثریتی سماج کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوکر فرقہ پرستی کے پلڑے میں وزن ڈال دیتاہے لیکن نظریاتی واخلاقی طور سے اس کا بھی ثبوت فراہم کردیتاہے کہ برہمن واد پر مبنی ہندوتو کو ئی ایسا طرز حیات نہیں ہے جسے اپنا کرکوئی بھی انسانی سماج، نجات وفلاح سے ہمکنار ہوسکتاہے، کچھ مراسم، تفریح، شور شرابے سے انسانی وقار وعظمت اور خالق وخلق میں بہتر رشتے کا قیام عمل میں نہیں آسکتا ہے،بی جے پی لیڈر پریم شکلا جیسے لوگوں کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ پیغمبر صاحب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پہلے ہی سے کنبھ، مہا کنبھ اور دیگر سناتن روایات و مراسم جاری ہیں جب برہمن وادی سماج نے کوئی مستند تاریخ ہی نہیں لکھی ہے تو پہلے، بعد کی بحث بے معنیٰ ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، 570 /71 / 6 عیسوی ہے، جب کہ ساتویں صدی عیسوی تک کنبھ، مہا کنبھ میلا، ہندوروایات میں شامل نہیں تھا، اس کاذکر، وید، اپنشد، پران، رامائن، مہابھارت اور قدیم دھرم گرنتھوں میں، کہیں نہیں ہے، ہر معاملے میں اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کاغیر ضروری طور سے نام لے آنا ذہنی صحت پر سوال کھڑا کرتاہے۔ عوامی و پران کی کہانیوں کی بنیاد پر مستند وعملی توارث کی تاریخ وتہذیب کو مسترد کرکے اپنے حق کو ثابت کرنے میں کوئی معقولیت نہیں ہے، لیکن بابری مسجد کے سلسلے میں رام مندر کے نام پریہی کیا گیا او رجامع مسجد سنبھل کے متعلق بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم تمام مذاہب کے تہذیبی ومذہبی مظاہرومراسم کی ادائیگی کی آزادی کے حق میں ہیں، اس کا تحفظ ہوناہی چاہئے، لیکن اسلام او رمسلمانوں کے کردار کو مجروح کرنے کے مقصد سے من گھڑت کہانیوں کو تاریخ بنانے کی تائید وتصدیق کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ملک کے تمام مذاہب وروایات کے حامل باشندوں کو اپنے نظریا ت واعمال کی تبلیغ وتشہیر کی آئینی آزادی حاصل ہے، وہ اپنی شناختوں کے ساتھ ملک میں آزادانہ زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ہندو تو وادی ذہنیت کے تحت بھارت کے مذہبی وتہذیبی تنوعات کو زور زبردستی ختم کرنے کی کوشش، یوپی، ایم پی، مہاراشٹر اور دیگر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بہت واضح شکل میں نظر آتی ہے۔ بھارت میں بہت سی زبانیں رائج ہیں اور ان میں بہت سے مقامات اور چیزوں کے نام رکھے گئے ہیں، یہ مختلف قسم کے پھولوں کے گلدستے کی طرح ہے۔ بھارت کسی ایک مخصوص تہذیب کا ملک نہیں ہے یہاں بقول ڈاکٹر امبیڈکر،بہت سی تہذیبیں ہیں لیکن سنگھ اور دیگر ہندوتو وادی تنظیمیں وعناصر ملک میں واحد برہمن وادی تہذیب کی باتیں کرکے بھارت کو ایک مخصوص سمت اور ڈگر پر لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ تاریخ کے انکار کا حصہ ہیں، تاریخی خلا کو غلط بیانیے سے پر کرنے کی مہم کے تحت بہت سے غلط دعوے بھی کیے جاتے ہیں، ان کے ہی زمرے میں سنگھ سربراہ ڈاکٹر بھاگوت کا یہ بیان بھی آتا ہے کہ ملک کو حقیقی آزادی رام مندر کے تعمیر کے دن حاصل ہوئی ہے۔ آر ایس ایس کا ملک کی تحریک آزادی میں کوئی خاص حصہ وکردار نہیں ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے آزادی کا الگ معنیٰ پیش کرکے اسے مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ہر واقف حالات وروایات کومعلوم ہے کہ رام کے نام پر مندر کی تعمیر سے رام کے آدرش کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے کہ رام چندر کے عہد میں مندر، مورتی کا کوئی وجود تھا، جو رام کے وقت میں آدرش کی علامت کیسے بن سکتی ہے؟ عظیم شخصیات، زبان، سنسکرتی کے نام پر سماج کو ہندو مسلم خانے میں تقسیم کرنے کی کوششوں کی مزاحمت ومخالفت ملک و قوم کے مفاد میں ہے، ہندوستان، تمام ہندوستانیوں کا ہے نہ کہ کسی ایک ہندو کمیونٹی کا،ایم پی کے وزیراعلیٰ نے جس طرح مولانا گاؤں لکھنے میں قلم اٹکنے کا نام دیتے ہوئے دیگر مسلم شناخت والے گاؤں کے نام تبدیل کرکے ہندو نام رکھنے پر عمل پیرا ہیں اس سے فرقہ وارانہ زہریلا ذہن پوری طرح اجاگر ہوگیا ہے نیا کچھ بنانے کی توتوفیق نہیں ہوتی ہے لیکن دوسروں کے بنائے پر اپنا نام چڑھادینے سے کسی نئے بھارت کی تعمیر نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ہندی ہندوی، اردوکا ہی نام ہے، دیو ناگری کو ہندی نام دیکر اردو پر قبضہ کرنے کی تاریخ کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے، پہلے بدھ ناموں کو مٹاکر ان کا ہندو کرن کیا گیا، اب مسلم، اسلامی ناموں کو مٹاکر ان کا ہندوکرن کیاجارہاہے، یہ بلاشبہ تنگ نظری، بھارت کے تنوعات اور مشترکہ تہذیب ووراثت کے پل کو توڑ کر فرقہ وارانہ سماجی رابطے کو ختم کرنے کی غلط مہم ہے، اس سے اصل بھارت کا تصور وتصویر دونوں تباہ ہوجائیں گے۔
20 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sanatan-campaign-civilizational-sanskrit/d/134398
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism