سمیع اللہ ملک
14 ستمبر، 2014
اور اسلامی انقلاب کی پیش قدمی رک گئی ۔ فرانس کی سرزمین پر اکتوبر 732ء میں ‘‘ بلاط الشہیدا ’’ کہلانے والی تاریخ ساز جنگ لڑی گئی ۔ طور (Touras) اور پواشیرز ( Potteries) کے درمیان واقع رومی شاہراہ پر مقابل فوجوں کے درمیان رن پڑا۔ یہ جگہ جبلِ طارق سے جہاں طارق بن زیاد 30 اپریل 711ء کو اترا تھا، ایک ہزار میل شمال میں تھی ۔ ممتاز مؤرخین گبن اور لینن پول کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان یہ جنگ جیت جاتے تو پیرس اور لندن میں گرجا گھر وں کی جگہ مسجدیں نظر آتیں اور وہاں کی عظیم دانش گاہوں میں بائبل کی جگہ قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھائی جاتی ۔ سیّد امیر لکھتے ہیں ‘‘ طورس کے میدانوں پر عربوں نے اس وقت عالمی سلطنت گنوادی جب یہ ان کی مٹھی میں تھی ۔ حکم عدولی اور باہمی خلفشار جو مسلم معاشرہ کا ابدی ناسور اور لعنت رہے ہیں، اس تباہی کا باعث بنے۔
دولت کی ہوس اور باہمی انتشار نے کام دکھایا ۔ ان کوتاہیوں نے کہاں کہاں ملتِ اسلامیہ کا راستہ نہیں روکا ، کیا کیا زخم نہیں کھائے ہم نے جہاں بھی شکست کھائی مڑ کر دیکھا تو کمیں گاہ میں کچھ اپنے نظر آئے ۔ حرص وہ بلا ہے جو انہیں سوچنے کی مہلت تک نہیں دیتی کہ بے حد و حساب دولت کس کام آئے گی، خاص طور پر وہ جس کےانبار غیر ملکی بینکوں میں لگائے گئے، چوری چھپے کے کھاتوں میں دھرے ہیں ۔ باہم خلفشار بھی کہاں کم ہوا، کس نے کس کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا ، اپنے پرائے جس کا داؤ لگا وہی موقع پاتے ہی اپنے کرم فرماؤں پر چڑھ دوڑا اقتدار تو دولت سے بھی بری بلا ہے۔
جوں جوں طاقت خواہ وہ خلافت کی شکل میں تھی یا بادشاہوں کے روپ میں براجمان تھی، کمزور پڑنے لگی، ناچاقی اور انتشار نے سر اٹھایا، ہر طرف یورش بپا ہونے لگی، چھوٹے چھوٹے راجواڑے وجود میں آتے گئے ،وسائل بکھرتے گئے اور مرکزی حکومت کادائرہ اختیار سکڑتا گیا ۔ آخری عباسی خلیفہ المستعصم ہوں یا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر، دونوں ہوا کا جھونکا آتے ہی تنکوں کی طرح اڑ گئے ۔ ایک بے بسی کے عالم میں تاتاریوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندا گیا، دوسرا پابجولاں وطن سے سینکڑوں میل دور رنگون میں حوالہ زنداں ہوا ۔ بہادر شاہ ظفر شاعر تھا، شکست اور محرومی کا اظہار کر گیا، اسے دفن کے لئے ‘‘کوئے یار’’ میں دو گزر زمین نہ ملنے کا نوحہ کہنے کی مہلت تو مل گئی۔ خلیفہ المستعصم تو بے چارگی میں بھی دو قدم آگے نکلا۔ کہتے ہیں کہ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ جب وہ اپنے آپ کو تاتاریوں کے حوالے کر چکا تو اسے ہلاکو خان کے حضور پیش کیا گیا ۔ ہلاکو نے سونے کی کچھ ڈالیاں اس طرف بڑھاتے ہوئے کہا ‘‘اسے کھاؤ’’ ........ مجبور قیدی نے پریشان ہوتے ہوئے عرض کیا ‘‘سونا کھایا نہیں جاتا’’ جواب تو ملا ‘‘ پھر ڈھیر وں جمع کیوں کر رکھا تھا، اگر ہمیں بھجوادیا ہوتا تو آج عیش و آرام سے جی رہے ہوتے ، ایسا نہیں کرنا تھا تو اپنے دفاع کیلئے خرچ کیا ہوتا ’’۔ مال و دولت کی ہوس نے کیا کیا گل نہیں کھلائے ، حرص کی نہ کوئی سیما ہے نہ حد ....... یہ وہ شعلہ ہے جو لپکتا ہی جاتاہے ۔ انسان مجمودعہ اضداد ہے۔
مرغوب چیزوں پر فریفتہ ہوناجہا ں ایک فطری امر ہے وہیں جو دوسخا کا بیج بھی اس کے من کو قدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے ۔ کون کس ڈگر پر چلے، فیصلہ اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے ۔ ارشاد ربّانی ہے :‘‘ لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتوں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے او رمویشی اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔’’ ( آل عمران ۔14) اصل دولت تو اللہ کی رضا اور ‘‘رضوان ’’ ہے، جس خوش نصیب کو یہ خزانہ مل گیا اس کے دونوں جہاں سنور گئے، جو اس سے محروم رہا، وہ بازی ہار گیا۔ پردہ اٹھنے کی دیر ہے جب اسی سونے چاندی سے جس کے انبار لگاتے نہیں تھکتے ، ان کی پیشانیاں داغی جائیں گی، پھر یاد آئے گا کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردینا ہی بہتر تھا ۔ ہوسکتا ہے کوئی ہلاکو خان اسی دارِ فانی میں اس ‘‘ سونے کو تناول فرماتے ’’ کی فرمائش کرے۔ مال ِ حرام جہاں سے کما یا وہاں وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا ۔ اس کی اڑان لازم ہے،موسمی پرندوں کی طرح یہ خوشگوار ماحول کی تلاش میں محفوظ مقامات پر چلا جاتاہے ۔ اس کے ‘‘مالکوں ’’ پر چھائیاں پڑنے لگیں تو وہ بھی بدیش سدھار جاتے ہیں ۔ وطن عزیز غریب تر ہوتا جاتا ہے ، ایک طرح لٹیروں کا دیس بن جاتا ہے جن میں کئی ایک شب بھر ارب پتی بننا چاہتے ہیں، جس کابھی بس چلے وہ اندھیرے اجالے میں چوکتا نہیں ۔اقتدار میں آنے والوں میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو اس کا رِ خیر میں ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں ہوتے ہیں۔
نجی محفلوں میں کھلے بندوں تذکرہ ہوتا ہے کہ فلاں بازی لے گیا او رفلاں پیچھے رہ گیا ۔ وزارتوں اور قلمدانوں کی قیمت لگتی ہے ،نیاز مندوں کو دودھ دینے والی گائیں عطا ہوتی ہیں اور وہ جنہیں ‘‘ شاہ جہاں وقت ’’ کو شیشے میں تارنے کا فن نہیں آتا، وہ عنایت خسروانہ سے محروم رہتے ہیں ۔ حالات کی مجبوری کے پیش نظر اگر انہیں کچھ دینا بھی پڑے تو کوئی بے فیض سا عہدہ جس کے ہونے نہ ہونے سے کوئی چند اں فرق نہیں پڑتا ، ان کا مقدر بنتا ہے ۔ اللہ رحمت کرے ان عظیم ہستیوں پر جو آزادی کی نعمت سے قوم کو ہمکنار کرگئے ۔ حرص و ہوس کی زنجیریں اگر وہ نہ توڑ چکے ہوتے تو منزل تک پہنچنے سے بہت پہلے بک گئے ہوتے ۔ خریداروں کی نہ آج کمی ہے نہ اس وقت تھی، مال بکاؤ ہو تو گاہک بہت ڈرانے والے اس دور میں بھی بہت تھے ۔ امریکی سطلنت تو ابھی زچگی کے عالم میں ہے پھر بھی ایک دنیا ڈری سہمی سجدے میں پڑی ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کو تو برطانوی سامراج کا سامنا تھا جس کی سلطنت میں واقعی کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ وہ لاکھ مہذب حکمران سہی مگر قید خانے ان کے بھی تھے ۔ آزادی کے متوالے سیاستدانوں سے حاکم لوگ پیار و محبت کی پینگیں نہیں بڑھاتے تھے۔ پاکستان کا مطالبہ کرنے والے تو بہتوں کے پہلو میں کانٹے کی طرح چبھتے تھے ۔ اگر ہمارے محسن ڈر گئے ہوتے یا خدانخواستہ بک گئے ہوتے تو پاکستان نہ بن پاتا ۔ پاک سرزمین کی حفاظت وہی جذبہ مانگتی ہے ۔ یہ دھرتی شاد اور آباد اسی صورت میں رہ سکتی ہے جب ہر سطح پر اس کی قیادت حرص و ہوس اور خوف کی زنجیریں یوں توڑ دے کہ ان کے ٹوٹنے کی چھنک دنیا کے کونے کونے میں سنائی دے۔ اللہ کرے ہم ایسا کر پائیں!
رہے نام میرے رب کا جو دلوں کے حال جانتا ہے!
14 ستمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ نئی دنیا، لاہور
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/lessons-fate-failed-kings-/d/99092