New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 04:11 PM

Urdu Section ( 3 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Sambhal case: Time for the Supreme Court to wake up سنبھل کا قضیہ: سپریم کورٹ کیلئے بیدار ہونے کا وقت

منوسیبا سٹین

1دسمبر،2024

یہ امید تھی کہ ایودھیا۔ بابری مسجد کا فیصلہ، اپنی تمام تر قانونی خامیوں او رانتہا ئی ناقص استدلال کے باوجود مندر۔مسجد کے تنازعات کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ شاید اسی امید نے سپریم کورٹ سے وہ فیصلہ کرادیا جس میں اس نے رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی، باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ کو کوئی ایسا پختہ ثبوت نہیں ملا کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے وہاں کوئی مندر تھا جسے منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہاں تک لکھا کہ 1949 ء میں مسجد کے اندر مورتیوں کی تنصیب اور 1992 ء میں مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا۔ غالباً عدالت ن بھی سوچا تھا کہ اس کا یہ فیصلہ اس طرح کے تنازعات کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ کیونکہ خود سپریم کورٹ نے ہی واضح طور پر کہا تھا کہ قرون وسطیٰ کے حکمرانوں کی تاریخی غلطیوں کو موجودہ دور کے قانونی التزامات سے درست نہیں کیا جاسکتا۔مزید اہم بات یہ ہے کہ پانچ ججوں کی بنچ نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے خصوصی قانون 1991 کے آئینی جواز کو بھی برقرار رکھا کیونکہ یہ ملک کے تمام مذاہب او رسیکولرزم کی مساوات کو برقرار رکھنے کی آئینی ذمہ داریوں کی تکمیل تھی۔ تمام مذاہب اور سیکولرزم کی مساوات آئین کی بنیادی خصوصیات کا ایک حصہ ہے۔ عدالت نے مشاہدہ کیاکہ 1991 کا ایکٹ اس پیغام کی عکاسی کرتاہے کہ ”تاریخ اور اس کی غلطیوں کو حال اور مستقبل پرجبر کرنے کے آلات کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا“۔

تاہم ایسی امیدیں جلد ہی دم توڑ گئیں۔اگلے دوسالوں کے اندر، متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور وارانسی کی گیانواپی مسجد پر ہندوؤں کے حقوق کا دعویٰ کرتے ہوئے تازہ مقدمہ دائر کیا گیا۔ حال ہی میں، سنبھل (یوپی) میں واقع شاہی جامع مسجد کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا، جس میں ٹرائل کورٹ نے برق رفتا عجلت دکھاتے ہوئے ایک ایڈوکیٹ کمیشن کے ذریعہ مسجد کے سروے کے لئے یکطرفہ حکم جاری کیا۔ اس میں دوسرے متاثرہ فریق کو نہ سنا گیا او رنہ ہی مطلع کیا گیا۔ بدقسمتی سے، کمیشن کے سروے کے دوران 24نومبر کو تشدد ہوا جس میں مختلف افراد کی جانیں چلی گئیں۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 کا اصل مقصد اسی طرح کے پرتشدد واقعات کو ہونے سے روکنا تھا جو سنبھل میں رونما ہوئے۔ یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ عدالتیں اس ایکٹ کے تحت عاید ہونے والی واضح پابندی کے باوجود اس طرح کے تنازعات کوکیوں بھڑکانے کی اجازت دے رہی ہیں۔ یہ ایکٹ عبادت گاہ کے مذہبی کردار کے حوالے سے اسی صورتحال کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتاہے جو آزادی کے وقت تھی۔ اگر عبادت گاہ ایک قدیم تاریخی یادگار ہے جس کا احاطہ قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ،1985(AMASRایکٹ) کے تحت ہوتاہے، تو 1991 کا ایکٹ اس پر لاگو نہیں ہوتا۔ تاہم، AMASR ایکٹ کا سیکشن 16یہ التزام فراہم کرتاہے کہ ایک محفوظ یادگار کو، جو عبادت کی جگہ بھی ہے، اس کے کردار سے متصادم کسی او رمقصد کے لیے استعمال نہیں کی جاسکتی۔ یعنی اگر ایک محفوظ یادگار ایک مسجد ہے، تو اسے مندر کے طور پراستعمال نہیں کیاجاسکتا۔سنبھل کی جامع مسجد، جو تازہ ترین تنازعہ کا مرکز ہے، مبینہ طور پر 1904 کی قدیم یادگاروں کے تحفظ کے ایکٹ کے تحت ایک”محفوظ یادگار“ کے طور پر نوٹیفائڈ ہے۔ آر کیا لوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے اسے ”قومی اہمیت کی حامل محفوظ یادگار“ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ 1991 کے ایکٹ کو کمزور کرنے کے لئے کچھ شاطرانہ قسم کے دلائل استعمال کیے گئے۔مئی 2022 میں سپریم کورٹ میں گیان واپی کیس کی سماعت کے دوران، جسٹس ٹی وائی چندرچوڑ نے زبانی طور پر تبصرہ کیا تھا کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایکٹ 15/اگست 1947 والی صورت کی حامل عبادت گاہ کے مذہبی کردار کے تعین کے لئے سروے پر پابندی نہیں لگاتا۔ اس مشاہدے کے بعد جسٹس چندر چوڑ کی قیادت والی بنچ نے مقامی عدالت میں مقدمہ کو روکنے سے انکار کردیا اور مسجد کمیٹی سے کہا کہ وہ اس پر اپنا اعتراض وہیں داخل کرے۔ افسوس کہ سپریم کورٹ نے اس آگ بھڑکنے سے پہلے ہی بجھا نے کا ایک بہترین موقع ضائع کردیا۔ جسٹس چندرچوڑ کے اس زبانی تبصرہ کا وسیع اثر ہوا۔ یہی استدلال بالآخر ٹرائل کورٹ اور بعد میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے بھی اختیار کیاتاکہ یہ ثابت کیاجاسکے کہ 1991 کے ایکٹ کے ذریعہ مقدمہ دائر کرنے پرکوئی بندش نہیں ہے۔ ہائیکورٹ نے مشاہدہ کیا کہ ”مذہبی کردار“ تنازعہ میں تھا او راس لیے یہ طے کرنا تھا کہ 15/اگست،1947 کویہ عمارت مسجد تھی یا مندر۔ یہی استدلال کرشن جنم بھومی۔ شاہی عیدگاہ کیس کے مقدمہ میں بھی اختیار کیا گیا۔ درست بات یہ ہے کہ یہ تشریح 1991 کے ایکٹ کے خدوخال او را س کی روح پرایک واضح حملہ ہے۔ اگر ایکٹ کے تحت کسی مذہبی مقام کی تبدیلی پر پابندی ہے،تو یہ بات بھی منطقی طور پر درست ہے کہ آزادی کی تاریخ کے مطابق ا سکے مذہبی کردار کا تعین کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کسی مذہبی مقام کی ہیئت کو تبدیل ہی نہیں کرسکتے تو پھر اس تعین کا مقصد کیا ہے کہ اس کا مذہبی کردار کیا ہے؟ اس طرح کا تعین بنیادی طور پر مذہبی مقام کی اصل ہیئت کی تبدیلی کے مترادف ہے، جب کہ ایکٹ کے مطابق ایساکچھ بھی کرنا یقینی طور پرممنوع ہے۔مزید یہ کہ ایسی تعبیر فساد کے دروازے کھول دیتی ہے۔ کوئی بھی مذہبی مقام پرتنازعہ کھڑا کرکے مشکلات کو ہوا دے سکتا ہے او ریہ دلیل دے کر کہ 1947 کے مذہبی کردارکا تعین کرنا ہوگا، فرقہ وارانہ منافرت کی آگ بھڑکاسکتاہے۔ یہ ان عملی مشکلات کے علاوہ ہے جو آج کی عدالتوں کو 75 سال قبل کے مذہبی کردار کا تعین کرنے میں درپیش آئیں گی۔1991 کے ایکٹ کو بے اثر کرنے کے لئے اٹھائی گئی ایک اوردلیل یہ ہے کہ مدعی صرف اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کا حق چاہتے ہیں او را س لیے یہ کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ مذہب ہمارے ملک میں ایک احساس موضوع ہے، عدالتوں کو محتاط رہناچاہئے او رایسے فرضی دلائل کے حقیقی دنیا کے سامنے آنے والے نتائج کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو کہ اگرچہ پرکشش نظر آتے ہیں لیکن جن کا اثر انتہائی بدصورت او رکریہہ ہوسکتاہے۔

یہ کوئی عام دیوانی یا تجارتی قانونی چارہ جوئی نہیں ہے جہاں عدالتیں اپنی تشریحی مہارتوں کے جو ہر دیکھا سکیں اور اپنی بصیرت کے مطابق معنوی تعبیرات کو شامل کرسکیں او رجہاں ماہر وکلاء مختلف نتائج پانے کے لئے اپنے استدلال کی صلاحیتوں کا استعمال کرسکیں۔ جہاں عام لوگوں کی زندگیاں اور قومی آہنگی داؤ پر لگی ہوئی ہو ایک حد سے زیادہ جوش یا غیر محتاط عدالتی حکم نادانستہ طور پر فرقہ وارانہ دھماکہ خیز مادہ میں آگ لگاسکتاہے، جیسا کہ سنبھل کیس میں ہوا تھا۔ اس سلسلے میں،دسمبر 2021 میں دہلی کی ایک سول عدالت کی طرف دیئے گئے ایک حکم کے بارے میں ذکر کرنا ضروری ہے جس میں قطب مینار کمپلیکس میں مبینہ مندروں کی بحالی کی مانگ کی گئی تھی۔

عدالت نے اس مقدمہ کو شروع میں ہی مسترد کردیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے اصل مقصد کو نافذ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے، اس کا اصل مقصد ملک کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنا ہے۔ جج نے اپنے قابل تعریف حکم میں کہا کہ ماضی کی غلطیاں ہمارے حال او ر مستقبل کے امن کو خراب کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ یہ اس قسم کے جھگڑے ہیں جن کو پس پشت ڈال دینا چاہئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 1991 کے ایکٹ کو برقرار رکھنے کے باوجود، اس کے بعد آنے والی نئی عرضیوں پر غور کیا جس میں اس ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونین آف انڈیا نے ابھی تک اس معاملے پراپنا یہ موقف واضح نہیں کیا ہے کہ آیا وہ قانون سازی کی حمایت کررہی ہے یا مخالفت۔ سنبھل سانحہ کو عدلیہ کے لئے جاگ جانے کے الارم کا کام کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کو ایک حتمی فیصلہ سنانا چاہئے کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے ایکٹ کومذہبی کردار کے تعین کی آڑ میں بے اثر نہیں کیاجاسکتا۔عدالت کی طرف سے ایک موثر تشریح آنی چاہئے کہ کسی جگہ کامذہبی کردار ہی ہوتاہے جو ایک عام سمجھدار شخص کو اسے دیکھنے کے بعد پہلی نظر میں نظر آتاہے۔ اس طرح کی واضح تشریح کی کئی تنازعات کو ختم کرنے میں مدد کرے گی۔ اس سے آنے والے سینکڑوں تنازعات کو زیر زمین دفن کرنے میں مدد ملے گی۔ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک غیر معمولی حکم نامہ جاری کرنے پر بھی غور کرسکتی ہے کہ کسی جگہ کے مذہبی کردار کو متنازعہ بنانے والے کسی بھی مقدمے کو سپریم کورٹ کی اجازت حاصل کیے بغیر قبول نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی بہت قیمتی ہے جسے کسی جونیئر ڈویژن کے جج کے فیصلے میں بے راہ روی یا غلطی کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا۔

1دسمبر،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sambhal-case-supreme-court/d/133899

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..