سلمان عبدالصمد
14 جولائی ،2012
مدارس فی الحقیقت ان اسلامی
قلعوں کا نام ہے جہاں قرآن واحادیث کی پر بہار
فضا میں کردار سازی کی جاتی ہے، اخلاق و مروت ، انس و محبت ، رواداری و جانثاری ، مواسات و غمخوار ی ، امن و آشتی ، جانبازی وسرفروشی ، ہمدردی و بھائی چارگی ، جذبہ و حوصلگی
،حب الوطنی وآزاد خیالی ، وسعت نظری و بے خوفی ، عالی ہمتی و بے بیباکی اور اولوالعزمی
کی شمعیں قلب و باطن میں فروزاں کی جاتی ہیں، رشتۂ فکر کی گرہیں وہاں کھولی جاتی ہیں،مس
خام کوکندن بنایا جاتا ہے ، بالفاظ دیگر تمام
دینی، اصلاحی ، تربیتی ،تعلیمی ،ملی تحریکات
او رحلقہ ہائے فکر کا سر چشمہ و منبع بھی مدارس ہیں اور مرکز رد باطل بھی۔ امیر شریعت حضرت مولانا منت
اللہ رحمانی مدارس کے تئیں یوں رقم طراز ہیں : ‘‘ مدارس کی عمارت اس لئے ہے کہ قرآن
کی تعلیمات اور حضور کے طریقۂ زندگی کا درس دیا جائے، مدرسہ سے روح کو غذا ملتی ہے
، یہ مدارس ایمان کے قلعے ہیں ، ایمان و اسلام کو اگر پناہ ملتی ہے تو انہی مدارس میں ، اگر خدا نخواستہ یہ مدارس نہ ہوتے تو
ہمارے اندر کلمہ گو نہ رہتے ، مدرسے میں پڑھنے
والے طلباءاسلام کے سپاہی ہیں اور مدارس اسلامی سپاہیوں کی چھاؤنی ہے۔’’
الغرض مدارس ، دینی ، علمی،
تبلیغی او رسماجی خدمات کے تسلسل کا نام ہے۔
مدارس دستورِ ہند کے کس ایکٹ کے تحت ہندوستان میں قائم کئے جاتے ہیں، کا ذکر
محض فضول او رغیر موزوں نہیں ہوگا ازروئے دستورِ
ہند ہر اقلیت کو مذہبی ، لسانی، تہذیبی ، ثقافتی اور تعلیمی تحفظ اور اس کی تبلیغ و
اشاعت کیلئے ادارہ قائم کرنے کا حق دفعہ ‘‘ 25؍26؍29؍30’’
کے تحت دیا گیا ہے ،حتی کہ سپریم کورٹ کی ایک رولنگ 97۔1996میں تعلیم کو بنیادی حقوق
میں شمار کیا گیا ہے، ان ہی دفعات کی بنیاد پر صوفی سنتوں کے ملک ہندوستان میں مدارس
کا قیام عمل میں آتا ہے ۔ مدارس اسلامیہ کی مفصل خدمات کو کجا ،ان کی گزشتہ صد سالہ
تاریخ سپرد قلم و قرطاس کرنے کےلئے ایک دفتر درکار ہے ، مختصر اً یہ کہ انہوں نے اسلامی تشخص کی حفاظت کی، مغربی تہذیب و تمدن کے امنڈتے سیلاب اور ہلاکت خیز طوفان
سے مقابلہ کےلئے ایسے ایسے واعظین ،مفکر ملت ، مصلح امت او رعظیم ہستیوں کو پیدا کئے
جنہوں نے تحفظ اسلام کی ذمہ داری اپنے سرلی، ۔ دینی تعلیم کو عام کرنے ،اسلامی ثقافت
کو نمایاں کرنے ، شرک وبدعات کا زور توڑنے ،امت مسلمہ میں دین کی روح پھونکنے او ردلوں
میں جذبۂ جہاد وسرفروشی پیدا کرنے میں مدارس کا بڑا حصہ ہے۔
ان مدارس کے فارغین بوریہ نشینوں
نے نہ یہ صرف کہ اصلاحِ عقیدہ اور اصلاح معاشرہ کے کام کئے،اہل بدعت و ضلال سے مناظرہ
کئے بلکہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں کارہائے نمایاں انجام دئے،وطن کے دفاع او رملکی
سیاست میں ان کا قائدانہ کردار بھی جلوہ گر نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آزادی ٔ ہند
کا سہرا بالکلیہ نہ سہی، مگر علماء کے سر بھی جاتا ہے۔ مولانا ولی رحمانی نے مدارس
و علماء کے تئیں ملکی سب سے اہم خدمت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: ‘‘ آزادی کا خواب مدرسہ
کے مولویوں نے ہی دکھایا تھا، آج ہم ہندوستان میں جمہوری عہد کے گرز رہے ہیں، یہ آزادی
کی دولت جن جیالے سپوتوں کی محنتوں سے ملی ہے، ان میں بڑی تعداد علماء ،مدرسہ کے اساتذہ
اور ان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔‘‘تعلیم و تعلم کی اہمیت و افادیت کو ضابطۂ حیات
قرآن او راحادیث نبوی نے بالصراحت واضح کردی ہے، اس لئے تحصیل علم دین ہر مسلمان کیلئے
انتہائی ضروری بلکہ حلال و حرام کی تمیز کی حد تک فرض ہے، انہیں مدارس نے جن کا جال
ہندوستان کے چپہ چپہ پر پھیلا ہوا ہے، آزادی کے بعد سے بھی نئی نسل یعنی مسلم سماج
کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت میں بڑا رول ادا کیا ہے، یہ ایسا علمی گہوارہ ہے کہ بلا
تفریق مسلم سماج کے اشراف قوم کے بچے بھی حصول علم کی تشنگی کی تسکین کی ہیں اور کرتے
بھی ہیں اور غریب و نادار اور افلاس کے مارے
و تنگدست بھی ، جب ان کے اندرقرآن کی تعلیمات اور ارشادات و فرامین نبوی کے
تئیں آگہی ہوگئی تو انہوں نے دوسروں کو اس سے بحرہ مند کیا۔
دین و مذہب کے خلاف کسی قسم کی شورش بپا ہوئی، کوئی
طوفان اٹھا ، اسلام کے مقدس آشیانہ کو داغدار ثابت کرنے کی جب بھی سعیٔ لاحصل کی گئی،
اس کی شبیہ مسخ کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے تو سب سے پہلے مسلم سماج کے کسی فرد ، کسی
جماعت، کسی گروہ نے اس کے خاتمہ وازالہ کیلئے پیش رفت کی تو انہی مدارس کے فارغ التحصیل
نے ، دگر گو ں حالت میں بھی مدارس میں پڑھے علماء سینہ سپر ہوگئے، اور اسلام پرہوتی
یلغار کے رخ کو موڑا، ان کی اس طرح کی خدمات
دراصل تبلیغی ، ملی او رسماجی بھی ہیں۔ ڈاکٹر سید حسن نے اس کی تعلیمی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے : ‘‘ علم کی
روشنی پھیلانے میں اور جہالت کی تاریکی کو دور کرنے میں مدد دی ہے، اس ملک کی ناخواندگی
کو کم کیا ہے اور خواندگی میں اضافہ کیا ہے، عربی اور فارسی زبانوں کو اپنے نصاب میں
جگہ دے کر اس ملک میں انہیں مقبولیت و عمومیت بخشی ہے، اردو کے استعمال سے اس زبان
کو ترقی دی ہے اور اسے تقویت پہنچائی ہے، ہمیں
اسلامی تعلیمات اور معلومات او رروایات کے معلم دئے ہیں، ہمارے درمیان عالم
دین ، فقیہ ،مفتی ،قاضی ، محدث ، مفسر ، حافظ ، مفکر ، مبلغ ، مصنف او رمصلح جیسی مخصوص
فیض رساں ہستیوں کو پیدا کیا ہے، ہمارے مذہبی فرائض اور رسومات کی ادائیگی میں ممدومعاون
ہونے والےحضرات ہمیں دئے ہیں، نادار او ربے سہارا بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت
کی ذمہ داری قبول کر کے نہ صرف ان کی کفالت کی ہے بلکہ ان کو تعلیم سے فیضیاب کیا ہے’’۔
(عربی اسلامی مدرسہ کے نصاب ونظام تعلیم اور عصر ی تقاضہ (2) ص 69)۔
گزشتہ چند برسوں سے نبض سناش
اور دور اندیش علماء تعلیمی خدمات کا سایہ وسیع تر کرنے کی فکر میں ڈوبے ہیں، اس تعلق
سے ان کےدلوں میں ایک کڑہن ہے، ایک تڑپ ہے تاہم وسائل کی عدم فراہمی ان کے خواب کے
شرمندۂ تعبیر ہونے میں مانع ہے، جوں جوں راہیں ہموار ہوتی جاتی ہیں، توں توں وہ اپنے منصوبہ کے تئیں پیش رفت کررہے ہیں
، امید بھی ایسی ہی ہے کہ ان کی طالع آزمائی مستقبل میں خوش کن و امید افزا اثرات مرتب کرے۔لاتعداد
مدارس میں عصری علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں، باضابطہ انگریزی داخل نصاب ہے، دارالعلوم
دیوبند جہاں آزادی سے قبل اور بعد آزادی برسہا برس تک انگریزی تعلیم کو معیوب تصور
کیا جاتا تھا، وہاں بھی آج انگلش کا شعبہ ہے، جس میں بعد فراغت دارالعلوم کے فضلا ء
دو برس تک مسلسل انگریزی پڑھتے ہیں ، اس فن میں دسترس حاصل کرتے ہیں، جامعۃ الفلاح
اعظم گڑھ ،جامعہ سنابل دہلی اور اس سطح کے مختلف اداروں میں دینی تعلیم کے ساتھ انگلش
کے ماہر فن اساتذہ کی خدمات حاصل کر کے طلباء کو انگلش اور دیگر علوم جدیدہ کے زیور
سے سے آراستہ کیا جاتا ہے ،ایک زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم پڑتا ہے کہ
ان تمام مدارس ،جو عصری علوم کے تئیں سرگرم
ہیں، پردارلعلوم ندوۃ العلما ء کا احسان عظیم ہے ، اس کے احسانات سے سب گراں بار ہیں،
کیونکہ ندوۃ ہی وہ ممتاز دینی ادارہ ہے جو روز اول سے ہی قدیم وجدید کا سنگم رہا ہے۔
ایک طرف مسلم یونیور سٹی علی گڑھ
کے مداح جدید علوم وفنون کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے تو دارالعلوم دیوبند اس کا یکسر مخالف
تھا، اس متضاد رویہ سے گہما گہمی کی جو فضا قائم تھی اس میں ہی ندوہ کے بانیان نے قدیم
صالح اور جدید نافع کا علم بلند کیا ، انہوں نے ایسا نصاب تیار کیا جو سرتا سر مخالف
جدید تھا، یہی اعتدال پسندی تھی کہ آج ندوہ کا شہرہ بھی ہے او رکارہائے نمایاں بھی،
اس اعتدال پسندی کی خوشبو آج مختلف اہل فکر حضرات کو آئی تو جدید کی نافعیت کے وہ بھی
قائل ہوگئے۔ کردار تابناک ،صاف و شفاف اور روشن بھی ہوتا ہے اور تاریک بھی ! مدارس
و علماء کی یہ چند خدمات جو مذکورہ سطروں میں سپرد قلم و قرطاس کی گئیں فی الواقع مبنی برحقیقت ہیں ان کے ذکر میں نہ مبالغہ آمیزی ہے اور
نہ ہی فلسفہ آرائی اور نہ ہی نکتہ آفرینی بلکہ یہ تو ناقابل تردید حقیقت ہے، بلاشبہ
ہندوستان میں ان کی خدمات میں زمین کی وسعت ،آسمانی کی بلندی اور سمندر کی گہرائی ہے مگر اس کا مخالف یعنی دوسرا پہلو انتہائی
کر بناک اور المناک ہے، مزید اس مخالف پہلو میں مختلف گو شے ہیں ، شش و پنج میں ہوں
کہ کن کن پہلو ؤں کو موضوع بحث بناؤں ،لہ اذا گستاخی معاف اور شروعات !
قیام مدارس کا بنیادی مقصد
نونہالان قوم وملت کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے تاکہ وہ تعلق مع اللہ پیدا کرسکیں،
رسول اللہ کی سنتوں سے اپنے رشتے استوار کرسکیں ،قوم وسماج کی خدمات میں سر فہرست نظر
آئیں ، انہیں تمامتر خدمات بہم پہونچائیں ۔ میں اس کا منکر نہیں کہ ماضی ان کا شاندار
نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی زبردست خدمات انجام
دیں، بالخصوص ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے سماج کے افراد کی کردار سازی کی، تاہم صورت
حال آج یکسر مخالف اور تکلیف دہ ہے کہ کھیپ کے کھیپ علماء ہر سال پیدا ہورہے ہیں
مگر وہ علم و معرفت سے ایک دم عاری ہیں، تدبر
وتفکر سے بالکل خالی ہیں، بے مقصدیت ان کا شیوہ زندگی ہے، ظاہر ہے کہ وہ اسلام او رقوم
و ملت کی کیسی خدمت انجام دیں گے، صحیح بات تو یہ ہے کہ ان سے ایسی امیدیں وابستہ کرنا
بھی محض فضول او رعبث ہے۔آج مدارس اغیار کے نشانوں پر ہیں ، مشکوک نگاہوں کا مرکز ہیں،
اغیار کی کمال عیاری کہ اسے دفاعی پوزیشن پر کھڑا کیاہے، یہ تو اپنی جگہ برحق ، مگر اس سے زیادہ خطر ہ اوراندیشے کی بات
ان کے لئے ان کا اندرونی انتشار و خلفشار ہے،
اس داخلی انتشار کے بے شمار و جوہات و محرکات میں سب سے نمایاں وجہ صرف یہ ہے کہ ارباب
مدارس کے پیش نظر اسلام کی نمائندگی اور اس
کی تبلیغ واشاعت کی بجائے اپنےمسلک و مشرب کے علم و جھنڈے کو بلند کرنا ہی اصل
مطمح نظر ہے، اس کا نتیجہ یوں سامنے آتاہے کہ سماج کی خدمات تو کجا ، اپنے نفس کی درستگی
بھی خطرہ میں پڑجاتی ہے، آج ایسی ہی کیفیت إلا لاماشاء اللہ تمام مدارس میں ہے، اخلاقی
انحطاط و تنزلی کی اس سے سطحی مثالی او رکیا
ہوگی؟۔
فارغین مدارس کے اعصاب پرجاہ
و منصب پرستی کا بھوت سوار ہے، حالیہ دنوں ان کے حصول عہدہ کی کئی مثالیں ایسی آئیں
جو یقیناً سطحیت پردال ہیں، معاملہ اتنا طول پکڑا کہ قضیہ کورٹ کچہری تک پہنچ گیا،
علماء کی جگ ہنسائی ہوئی ، قوم کا سرمایہ ان مقدموں میں پانی کی طرح بہایا گیا، اہل
ثروت نے دراصل یہ سر مایہ ان کے ہاتھوں اس غرض سے دیا کہ وہ قوم کے نونہالوں کی تعلیم
پر صرف کریں یا قوم و ملت اور سماج کےمسائل میں ، مگر صد حیف ! اس کا استعمال غلط بیانی
اور مقدمہ بازی میں ہو، یا کوٹھے بنگلے کی تعمیر اور اس کی نقش آرائی میں ، حصول عہدہ
میں وہ یکسر ادائے فرض منصبی کو فراموش کردیتے ہیں، ان کے منفی کردار کی ایک جھلک یہ
بھی ہے۔
انتہائی تعجب خیز ارباب مدارس
کے بے شمار ذمہ دار ان وکارکنان کی یہ روش ہے کہ زمانہ الیکشن میں غیروں کی دیکھا دیکھی
وہ بھی بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں،جو کہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، الیکشن کی گہما
گہمی ، ہڑ بونگ او ردھما چوکڑی میں مسلم سماج کے سودا گر بن جاتے ہیں، سیاسی افراد
کی آمد ورفت ان کے دولت کدہ پر تیز تر ہوجاتی ہے او رمستقبل میں مراعات کے حوالہ سے
گفتگو ہوتی ہے، کون نہ مرجائے علماء کی سادگی پر اے خدا! چنانچہ اپنے مفاد کے پیش نظر
ان کی غلط رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں اور سادہ لوح عوام بھی ان کی صداؤں پر لبیک کہہ
کر بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ بات خواہ کتنی ہی دلخراش کیو ں نہ ہومگر یہ
مبنی بر حقیقت ہے اور اس کا مشاہدہ انتہائی آسان بھی۔ ان پہلوؤں پر غور و فکر کرنا انتہائی ناگزیر ہے
، ‘‘ فھل من مدکر ’’ میری ان سے التجا دست
بستہ یہی ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے !!!
14 جولائی ، 2012 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: