سلمیٰ اعوان
17 اکتوبر،2021
دنیائے عرب میں گذشتہ نصف
صدی کی نسل میں محمود درویش ایک عظیم شاعر کے طور پر جانا او رمانا گیا ہے۔عربی کے
چوٹی کے سات آٹھ شعرا میں سے وہ ایک ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت سارے ایوارڈز کے
ساتھ افرشیائی اہل قلم کا ادبی ایوارڈ لوٹس بھی حاصل کیا۔ اس کی نظموں کے ترجمے
دنیا کی ہر اہم زبان انگریزی،فرنچ، روسی، اطالوی، جرمن، بلغارین کم از کم بیس
زبانوں میں ہوچکے ہیں۔
جنہیں بہت شوق سے پڑھا
جاتاہے۔
وہ فلسطینی ہے۔ فلسطین پر
لکھتے ہوئے محمود درویش کو میں نے تفصیلی پڑھا اور اس کی بابت جانا تھا۔
13 مارچ،1942 ء کو پیدا ہونے والا محمود گلیلی کے بالائی علاقے
فلسطینی گاؤں البروہ میں پیدا ہوا۔ چھ سات سال کا تھا جب اسے گھر بار چھوڑ کر
بھاگنا پڑا تھا کہ گاؤں پر قبضے کے لئے صیہونیوں نے حملہ کردیاتھا۔
محمود درویش
-----
یہ اس کی زندگی کا وہ تلخ
ترین حادثہ تھا جس نے اسے ساری زندگی مضطرب رکھا او روہ ساری زندگی یہاں وہاں گھر
کے لئے بھٹکتا رہا۔ پہلی پناہ گزینی لبنان میں ہوئی۔پھر چوری چھپے وطن واپسی کی تو
گاؤں ملیا میٹ ہوکر اسرائیل کے نئے منصوبے آماجگاہ بن رہا تھا۔
بدقسمتی کہ وہ اسرائیلی
علاقوں میں رہ جانے والے فلسطینی عربوں کی مردم شماری میں شامل ہونے سے رہ گیا
تھا۔
اپنی جنم بھومی میں آکر
وہ ہجرت او رپناہ گزینی کے ایک اور کرب سے گزراجو اس کے حساس ذہن پر ہمہ وقت کچو
کے لگاتا تھا۔
شاعری اس کے ضمیر میں رچی
تھی۔ پہلی نظم جو اس نے تیرہ سال کی عمر میں پڑھی وہ ایک صدائے احتجاج تھی۔ ایک
عرب لڑکے کے اسرائیلی لڑکے سے سوال تھے۔ تمہارے پاس گھر ہے میرے پاس گھر کیوں
نہیں۔ تم جیسے چاہو او رجس طرح چاہو سورج کے نیچے کھیل سکتے ہو میں کیوں نہیں۔
خوشیاں تمہارے لیے ہیں
میرے لیے کیوں نہیں۔ اور اگلے ہی دن اس لڑکے کو مجدالکروم کے فوجی دفتر میں بلا کر
اس قدر ڈرایا دھمکایا گیا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا اور خود سے سوال کرتا رہا
کہ آخر اس کا جرم کیا تھا؟ اپنے اس سوال کا جواب پوری فصاحت کے ساتھ اسے بہت بعد
میں ملا۔اسے اسرائیل میں رہنے والے بیش تر یہودی دانشوروں کا رویہ ناقابل فہم لگتا
تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں سمجھ نہیں سکتا وہ کیسے ادیب ہیں جو دنیا میں کہیں بھی
یہودیوں پر گزرنے والے کسی حادثے یا تکلیف پر مضطرب ہو اٹھتے ہیں وہ اسرائیل میں
رہنے والے عرب فلسطینیوں کے لئے وہ بے چینیاں کیوں محسوس نہیں کرتے؟ اس کے یہی وہ
الجدید رسالہ نکالا او راپنے ہر ادارے میں اس مسئلے کو چھیڑا او راپنے اسرائیلی ہم
وطنوں سے سوال کیا۔
قوموں کے درمیان بنیادی تضادات
کیوں پیدا ہوں اگر ان کے باہمی تعلقات مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر قائم ہوں۔
محمود درویش کا کہناہے کہ
میں باوجود ان دکھوں اور تکلیفوں کے جو ظلم سے پیدا ہوتی ہیں۔ او رجو ہمیں متاثر
کرتی ہیں خود کو منفی نہیں ہونے دیتا۔ انسانیت کااہم عنصر اپنے اندر زندہ رکھنا
چاہتا ہوں او ررکھتا بھی ہوں۔ میں جن حالات میں رہتا ہوں اس پر جھنجھلاتا نہیں
ہوں۔
ہر شام اپنے کمرے میں
بیٹھا یہ سوچ کر خوش ہوتاہوں کہ میرا رشتہ صرف آفتاب سے ہے کیونکہ رات کو میں
اسرائیلی قانون کے تحت باہر نہیں نکل سکتا۔ خود سے کہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے کیسی
عزت بخشی ہے کہ میرا ناطہ روشنی سے جوڑدیا ہے۔ ہر روز چار بجے مجھے تھانے جاکر
اپنے وجود کا ثبوت دینا ہوتاہے۔ میں دل میں کہتا ہوں ہم نے دن رات کو چوبیس گھنٹوں
میں تقسیم کر رکھا ہے۔ان کے لئے رات میرے لیے دن۔ ہم جانتے ہیں کہ رات سے دن زیادہ
خوبصورت ہوتاہے۔زیادہ پر اُمید ہوتاہے۔تو میں فائدے میں ہوں اور اسرائیلی پولیس
نقصان میں۔
میں ہمیشہ چاہتاہوں کہ
قومی تعصب سے بالا تر رہوں۔ او ریہی وجہ ہے کہ جب میں نے A
Soldier dreams whita lilies لکھی اور مجھ پر دوتین شامی ادیبوں نے تنقید کی کہ وہ میری محض
خیالی کردار نگاری ہے۔ میں نے ان کی بات کو ردّ کرتے ہوئے لکھا تھاکہ انسانوں کو
ایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جاسکتا۔
اس خطے میں رہنے والے
یہودیوں کے ساتھ بطور انسان تو کوئی لڑائی نہیں۔ لڑائی تو صرف عرب قومیت اور
صیہونیت کے ساتھ ہے۔آخر ہم کیوں یہ چاہتے ہیں کہ جذباتی اور جانب درانہ احساسات کی
شاعری ہی توڑ ہے۔ نہیں یہ عقل سلیم کو قائل نہیں کرتی۔ ضرورت ہے کہ اپنی آواز
دوسروں تک پہنچانے کے لئے اعلیٰ فنی معیار اپنایا جائے۔ جیسی میری نظموں نے دنیا
میں میرے موقف کی بھرپور تائید کی ہے۔
رجسٹر میں لکھومیں ہوں
عرب
کارڈ کا نمبر ہے اکاون
ہزار
میرے بچے آٹھ ہیں اورنواں
آنے کو ہے گرما کے بعد
تم نے ہی چھینے ہیں مجھ سے باغ تھے جتنے مرے اجداد کے
اور چھینا ہے زمین کا وہ
قطعہ
ہاں تو پہلے صفحے پر لکھو
مجھ کو انسانوں سے کوئی
بغض یا نفرت نہیں لیکن اتنا ہے کہ میرا رزق اگر چھن جائے گا غاصبوں کا گوشت بھی
کچا چباجاؤں گا میں بس ڈرو تم بھوک سے میری ڈرو
اور میرے غیض وغضب سے ڈرو
سلام + شلون بھی ایک ایسی
ہی نظم ہے
You have stand in the
door come in, way Drink Arabic coffee with us and you will sense that you are
man like us
اس کی شاعری کے چودہ
مجموعے چھپ چکے ہیں۔
پہلا مجموعہ زیتون کی
پتیاں اور آخری گیارہ سیارے ہیں۔ نومجموعوں پر مشتمل کلیات بھی بہت بار چھپی او
رلوگوں سے خراج حاصل کرچکی ہے۔ اس کے انٹرویوز اس کے اہم مضامین بھی کتابی صورت
میں شائع ہو چکے ہیں۔
میں گلوکارمیکیش تھیوڈ
وراکس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ وہ مجھ جیسا ہی ہے۔ ایک دن میں نے پڑھا کہ اسے گرفتار
کرلیا گیا ہے۔ میں نے اس کی گرفتاری سے متاثر ہوکر Love
me Rita
لکھی۔
نظم کے تعارف میں میں نے
لکھا تھا کہ میکیش کی گرفتاری دراصل انتہا پسندی کی طرف اسرائیل کا بڑھتا ہوا
رجحان ہے جو صحت مند نہیں۔ اگلے چند دنوں میں میں بھی گرفتار ہوگیا تھا۔ اس کی روز
مرہ کی ڈائری میں جو اس کے درج کردہ واقعات ہیں۔ وہ بھی کسی چھوٹے موٹے افسانے سے
کم نہیں۔ یہ اس کے وہ دکھ ہیں جو ہیجان برپا کرتے ہیں۔
اس کاشہرہ آفاق نظم ”عاشق
من الفلسطین“ ہے۔
نظم کی جو محبوبہ ہے وہ
دراصل سرزمین فلسطین ہے۔ شاعر نے کیسے اپنادل چیرکر اپنا درد اس میں سمودیا ہے۔
زیتون کی کوئی شاخ مجھ سے
لے لو
میرے المیے کی کوئی سفر
میرے خیال کا کوئی سلسلہ
میرے بچپن کا کوئی کھلونا
مصائب کی اس چہار دیواری
سے کوئی اینٹ کہ ہمارے بچے اور ان کے بچے رستے کا پتہ رکھیں
او رلوٹ آئیں
اسرائیلیوں کے لئے محمود
کا نام فلسطینی قوم پرستی کا دوسرا نام ہے۔
حالانکہ اس کی شاعری تعصب
سے بہت بلند ہے۔
اسرائیل کے وزیر تعلیم نے
محمود درویش کی پانچ نظمیں اسرائیلی اسکولوں میں اختیاری مطالعے کے طور پر چاہا کہ
شامل کی جائیں۔ یوسی سارد کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے سے لاتعلقی اچھے پڑوسیوں کے
زمرے میں نہیں آتی۔ مگر حکومتی ارکان نے سخت مخالفت کی۔
یہ خوبصورت او ررُلادینے
والی شاعری کا خالق 67 سال کی عمر میں ہارٹ سرجری کے نتیجے میں ہوسٹن کے ہرمن
اسپتال میں فوت ہوا۔ اگلی آخری خواہش فلسطین میں دفن ہونے کی تھی۔ فلسطینی صدر نے
ان کی رسومات ایک قومی شاعر کے طور پر کیں۔
17 اکتوبر،2021، بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism