New Age Islam
Wed Mar 26 2025, 12:19 AM

Urdu Section ( 8 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Salafism Today: Diverse Movements Under One Ideological Umbrella آج کی سلفیت: ایک ہی نظریاتی چھت کے نیچے مختلف تحریکیں

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

14 مئی 2024

سلفیت کی اصطلاح کا اس دورِ جدید میں استعمال مبہم اور کنفیوژن میں ڈالنے والا ہے۔ یہ ابہام اور کنفیوژن اس وقت ظاہر ہوتا ہے، جب بہت سے سلفیوں کو خود یہ واضح نہیں ہوتا، کہ سلفیت کا کیا مطلب ہے، اور وہ یہ گمان کرتے ہیں، کہ سلفیت کا مطلب، صرف قرآن اور سنت کی پیروی کرنا ہے- اور یہ ایک مشکل میں ڈالنے والی تعریف ہے، کیوں کہ اس مطلب یہ ہوگا کہ جو مسلمان سلفی نہیں، وہ قرآن و سنت کے پیروکار نہیں ۔

اہم نکات:

1. سلفیت کوئی باضابطہ ایسی تحریک یا تنظیم نہیں ہے ، جس کا کسی ایک شخصیت کی قیادت میں ، کوئی عظیم تنظیمی ڈھانچہ ہو۔ اور نہ ہی، موجودہ سنی مکاتب فقہ کی طرح سلفیت کوئی ایک مکتبہ فکر ہے۔

2. ایک سلفی اور غیر سلفی مسلمان کے درمیان بنیادی فرق، قرآن، سنت اور سلف کی پیروی کا نہیں ہے - جو کہ سلفیت کی بنیادی اور اہم ترین نظریاتی علامت ہے- بلکہ فرق، قرآن و سنت کی پیروی کی نوعیت، اور روزمرہ کی زندگی میں اس کے اطلاق کے طریقے کا ہے۔

3. سلفیت مختلف ذیلی ثقافتوں اور رجحانات پر مشتمل ہے - جس میں اعتدال پسند سے لے کر انتہا پسند، اور غیر سیاسی سے لیکر سیاسی کارکن اور جہادی (تشدد پر مبنی) عناصر تک پائے جاتے ہیں۔[5] اگرچہ زیادہ تر سلفی عقائدکے معاملات میں متفق نظر آتے ہیں، لیکن فقہ اور سیاست کے مسائل پر ان میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔

-----

سلفیت کی اصطلاح اس انداز میں استعمال کی جاتی ہے، جو اس جدید دور میں غیر واضح اور مبہم ہے۔ یہ ابہام اور کنفیوژن اس وقت ظاہر ہوتا ہے، جب بہت سے سلفیوں کو خود یہ واضح نہیں ہوتا، کہ سلفیت کا کیا مطلب ہے، اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ سلفیت کا مطلب، صرف قرآن اور سنت کی پیروی کرنا ہے- اور یہ ایک مشکل میں ڈالنے والی تعریف ہے، کیوں کہ اس مطلب یہ ہوگا کہ جو مسلمان سلفی نہیں، وہ قرآن و سنت کے پیروکار نہیں ۔ مزید برآں، اس اصطلاح کے مبہم ہونے کی وجہ سے، اس کے وسیع تر معنی میں، تمام مسلمان سلفیت کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اس کے تحت آفاقی اسلامی آئیڈیل، پیغمبر اور ابتدائی متقی مسلم جماعت (السلف الصالح) کی تقلید کرنا ہے۔ لہٰذا، اس معنی میں ہر مسلمان سلفی ہے، کیونکہ وہ اسلام پر عمل کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی پیروی کرنے کا پابند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے، کہ خود "سلفیت" کی اصطلاح ہی سند اور صداقت کی دلیل ہے۔ نتیجتاً، غیر سلفی مسلمان، آج اس اصطلاح پر سلفیوں کی خصوصی اجارہ داری کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اور ان کی دلیل ہے، کہ دوسرے مسلمان بھی خود کو سلفی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ غیر سلفی بھی السلف الصالح کے ہی پیروکار ہیں۔

اس وجہ سے، کہ سلفی خود "سلفیت" کی اصطلاح کی کوئی ایسی تعریف پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں، جو عالمی طور پر قابل قبول ہو، جبکہ علماء اور تبصرہ نگاروں نے بھی اس اصطلاح کا مطلب بیان کرنے کی خوب کوششیں کی ہیں۔ لہٰذا، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون یا کس گروہ کو سلفی سمجھا جائے، اور اس پر بحث و تکرار کا سلسلہ اب بھی جاری ہے؟ حالیہ برسوں میں، اور خاص طور پر 11 ستمبر 2001 کے خوفناک واقعات کے بعد، سلفیت کے مطالعہ میں کافی تیزی آئی ہے ۔ اس کانتیجہ یہ ہوا، کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے، جن میں اگرچہ سبھی علماء اور اہل علم نہیں ہیں، جدید سلفیت پر تحقیق کرنا اور لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود، کہ سلفیت سے متعلق بعض کتابیں صرف مفروضوں پر مبنی ہیں، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی مصنفین اور مغربی میڈیا، سلفیت کی درست وضاحت اور تجزیہ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سلفیت اسلام سے الگ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ مذہب سے انحراف کا نام ہے، باوجود اس کے، کہ کچھ نتائج اس کے برعکس نکالے گئے ہیں۔ سنی یا شیعہ مسلم روایت کے وسیع تر تناظر میں، سلفیت اسلام کی متعدد شکلوں میں سے ایک ہے، بشمول تصوف اور اس روایت کے اندر موجود مختلف گروہوں کے۔

مذھب اور سلفیت

سلفیت کوئی باضابطہ ایسی تحریک یا تنظیم نہیں ہے ، جس کا کسی ایک شخصیت کی قیادت میں ، کوئی عظیم تنظیمی ڈھانچہ ہو۔ اور نہ ہی، موجودہ سنی فقہی مذاہب کی طرح، سلفیت کوئی ایک مکتبہ فکر ہے۔

مزید برآں، موجودہ سنی فقہی مذاہب کی طرح سلفیت کوئی مکتبہ فلسفہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، سلفیت کوئی باضابطہ ایسی تحریک یا تنظیم نہیں ہے ، جس کا کسی ایک شخصیت کی قیادت میں ، کوئی عظیم تنظیمی ڈھانچہ ہولہٰذا، سلفیت سنی فقہی مذاہب کی طرح، جو کہ اس وقت، حنبلی، حنفی، شافعی اور مالکی کی شکل میں موجود ہیں، باضابطہ کوئی فقہی مذہب بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس، سلفی، ان چاروں سنی فقہی مذاہب سے قطع تعلق رکھتے ہیں ، جیسا کہ ان کے دعویٰ سے ظاہر ہے۔ وہ سنی فقہی مذاہب، جو سلفیت کی بیج بو سکتے ہیں، ان میں خود مالکی، شافعی، حنبلی اور حنفی مذاہب شامل ہیں۔

سلفیوں کی ایک بڑی تعداد چاروں سنی فقہی مذاہب کی تعلیمات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ ان کے فیصلوں کی تائید قرآن و سنت کے واضح اور مستند دلائل سے ہوتی ہو۔ جب یہ بات آتی ہے، کہ آیا وہ چار تسلیم شدہ سنی فقہی مذاہب پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، تو اس بات پر ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ مثال کے طور پر، ابن تیمیہ حنبلی مکتبہ فکر سے وابستہ تھے۔ اور ان کے کچھ شاگرد جن میں ابن کثیر (متوفی 1373) اور الذہبی (متوفی1348) شامل ہیں، شافعی المذہب تھے۔ اور ان کے کچھ دیگر شاگرد، (جیسے ابن ابی العز (متوفی 1390)) حنفی المذہب تھے۔ اس کے علاوہ، ایسے بھی سلفی ہیں، جو یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی ایک خاص فقہی مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا کرنا ان پر ضروری نہیں ہے۔

اس سلسلے میں سلفی، فقرہ "ضروری نہیں ہے" استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے، کہ جو لوگ فقہی مذہب پر عمل کرتے ہیں، وہ گناہ کے مرتکب نہیں مانے جائیں گے۔ تاہم، اگر کوئی مسلمان اسلامی قانون میں مہارت رکھتا ہے، تو اسے آزادی ہے کہ وہ کسی بھی فقہی مذہب کی پیروی کرے، اور اس فقہی رائے کا انتخاب کرے، جو اس کے لیے مناسب ہو، لیکن اگر وہ نہ تو اسلامی قانون سے اچھی طرح واقف ہے، اور نہ ہی ماہرین کی رائے جانتاہے، تو اسے چاہیے کہ اہل علم سے صحیح رہنمائی حاصل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ سلفیوں کی ایک بڑی تعداد، فقہی احکام میں ان چاروں اماموں کی امامت کو قبول کرتی ہے۔ سلفی علماء، فقہی مذھب کے اماموں کی تصانیف کا حوالہ دینے کے لیے مشہور ہیں، جیسے امام شافعی (جن کا انتقال 820 میں ہوا) اور امام مالک (جن کا انتقال 755 میں ہوا) وغیرہ۔ ان ائمہ کو سلف نے سلف تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ابن تیمیہ اور ابن القیم جیسے مصنفین، جن کی تحریروں کا حوالہ ہم عصر سلفی، بکثرت نقل کرتے ہیں، اور جنہیں بڑے پیمانے پر سلفیت کا علم بردار تسلیم کیا جاتا ہے، اکثر بڑے پیمانے پر، ابوحنیفہ (متوفی 767) کے نقطہ نظر کا حوالہ دیتے ہیں، اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود،ایسے بھی کافی سلفی موجود ہیں، جو دوسروں کو کسی مخصوص مذہب کے اصولوں پر عمل کرنے کی ترغیب نہیں دیتے۔ دوسری طرف، ایسے بھی سلفی پائے جاتے ہیں، جو دوسروں کو کسی مخصوص مذہب کے عقائد پر عمل کرنے کی ترغیب نہیں دیتے۔ دوسری طرف، سلفیوں کی اکثریت، خاص طور پر سعودی وہابی، حنبلی مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔[3]: ایک جدید تشریح میں "سلفیت" کی اصطلاح سے مراد ایک مخصوص شناخت اور عقید کے طرف مذہبی جھکاؤ یا پیش قدمی ہے۔ اس تناظر میں، لفظ "شناخت" سے مراد عقائد، یا ایک نظریہ ہے، جو سلفیوں کے اخلاقی، سماجی، اور سیاسی مقاصد اور عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ سلفیوں کے اس خیال کی بنیاد اسی نظریہ پر ہے، کہ یہ دنیا اور اس کا نظام عمل کیسا ہونا چاہیے۔ اس اعتقادی نظام کی بنیاد قرآن، سنت نبوی اور سلف صالحین کی تعلیمات و معمولات پر رکھی گئی ہے۔ در حقیقت، سلفیت کوئی نیا نظریاتی رجحان نہیں ہے۔ بلکہ، یہ ایک ایسا رجحان ہے، جس کی بنیاد ابتدائی مذہبی اور قانونی تنازعات کے پس منظر میں رکھی گئی ہے۔ خواہ مذہب ہو، معاشرت یا سیاست ہو، اس کی بنیادی فکر یہ ہے، کہ کسی بھی چیز کے جواز اور عدم جواز کی بنیاد، واضح طور پر مذہبی ماخذاور ابتدائی اسلامی نظیروں پر ہونی چاہیے۔ موضوع سے قطع نظر یہی سچ ہے۔

سلفی اور غیر سلفی میں نقطہ امتیاز کیا ہے؟

اصل ماخذ پر قائم ایک نظامِ عقائد ہونے کے ناطے، کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے، کہ سلفیت ایک مرکزی دھارے کی تحریک ہے۔ لیکن کیا سلفی مسلمان اور غیر سلفی مسلمان کے درمیان کوئی بنیادی فرق ہے؟ "سلفیت" کی اصطلاح میں پائے جانے والے ابہام اور کنفیوژن کے پیش نظر، اس سوال کا کوئی سیدھا سادا جواب نہیں ہو سکتا۔

ایک سلفی اور غیر سلفی مسلمان کے درمیان بنیادی فرق، قرآن، سنت اور سلف کی پیروی کا نہیں ہے - جو کہ سلفیت کی بنیادی اور اہم ترین نظریاتی علامت ہے- بلکہ فرق، قرآن و سنت کی پیروی کی نوعیت، اور روزمرہ کی زندگی میں اس کے اطلاق کے طریقے کا ہے۔اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے، کہ سلفیوں کو غیر سلفیوں کے درمیا ن، بنیادی عوامل جو دونوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں، وہ مذہبی متون کی تشریحات، ان کی افہام وتفہیم اور ان کے متعلق نظریات ہیں۔

اصل ماخذ پر قائم ایک نظامِ عقائد ہونے کے ناطے، کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے، کہ سلفیت ایک مرکزی دھارے کی تحریک ہے۔ لیکن کیا سلفی مسلمان اور غیر سلفی مسلمان کے درمیان کوئی بنیادی فرق ہے؟ "سلفیت" کی اصطلاح میں پائے جانے والے ابہام اور کنفیوژن کے پیش نظر، اس سوال کا کوئی سیدھا سادا جواب نہیں ہو سکتا۔

جوس ویج میکرز کے مطابق، جس سختی اور انداز کے ساتھ سلفی مسلمان، سلف کے مقرر کردہ معیار کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز اپنی تعلیمات اور معتقدات کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے، جس آمادگی خوش اسلوبی کے ساتھ لگاتے ہیں، وہی سلفیوں کو دوسرے سنی مسلمانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ حقیقت، کہ سلفیت یہ ایک متنوع تحریک ہے، جس کی متعدد نظریاتی شاخیں ہیں، سلفیت کی تعریف اور سلفیوں کی شناخت کو زیادہ مشکل بنا دیتی ہے۔

سلفی تحریک کی پہچان اس کا تنوع ہے

سلفیت مختلف ذیلی ثقافتوں اور رجحانات پر مشتمل ہے - جس میں اعتدال پسند سے لے کر انتہا پسند، اور غیر سیاسی سے لیکر سیاسی کارکن اور جہادی (تشدد پر مبنی) عناصر تک پائے جاتے ہیں۔[5] اگرچہ زیادہ تر سلفی عقائدکے معاملات میں متفق نظر آتے ہیں، لیکن فقہ اور سیاست کے مسائل پر ان میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر،طارق عبد الحلیم نے، دور حاضر میں سلفیوں کی آٹھ الگ الگ اقسام بیان کی ہیں۔

Quintan Wiktorowicz کی تحریر کے مطابق، سلفیوں کو مجموعی طور پر تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: خالص دینی، سیاسی اور جہادی۔ خالص دینی سلفی ، تعلیم اور تبلیغ کے ذریعے عقیدے کی تطہیر پر زور دیتے ہیں، جب کہ سیاسی سلفی، اپنے سلفی نظریے کو سیاسی طور پر نافذ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ، دوسری طرف جہادی سلفی، عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ موجودہ حالات خونریزی اور انقلاب کا تقاضا کرتے ہیں: ویکٹروچز نے جو درجہ بندی قائم کی ہے، اس کے مطابق عمائمہ عبداللطیف کا بھی یہی ماننا ہے، کہ اس دورِ جدید میں سلفیت کے تین بنیادی دھارے ہیں۔ اول) السلفیہ العلمیہ جسے علمی سلفیت بھی کہا جاتا ہے، اور اس کا تعلق مقدس کتاب اور اسلامی فقہ کے مطالعہ سے ہے۔دوم) السلفیہ الحرکیہ، جسے سرگرمِ عمل سلفیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اور یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے مراد سیاسی طور پر فعال سلفی گروہ، اور ایسے گروہ بھی ہیں، جو سیاسی طور پر تو سرگرم عمل نہیں ہیں، لیکن فلاحی کاموں، اور سماجی امداد اور مذہبی تعلیمی اداروں کی وجہ سے، عوامی حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اس میں  السلفیہ الاصلاحیہ بھی شامل ، جسے اصلاح پسند سلفیت بھی کہا جاتا ہے۔ السلفیہ الجہادیہ، جس کا تعلق جہاد کے نفاذ سے ہے، سلفیت کی تیسری قسم ہے۔

اسی طرح، سمیر امغر نے بھی لکھا کہ یورپ میں سلفیت کی تین الگ الگ شاخیں ہیں۔ سب سے پہلی شاخ وہ ہے جسے "ریولیوشنری سلفیت" کہا جاتا ہے، جس کا بنیادی اسلامی فلسفہ "جہاد" کے تصور پر مبنی ہے۔ سلفیت کی دوسری قسم کو "پری ڈکٹیٹیو سلفیت" کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اس کی خصوصیت یہ ہے، کہ یہ تبلیغ اور مذہبی تعلیمات پر مبنی ہے۔ آخر میں، "پولیٹکل سلفیت" کا نمبر آتا ہے، جو سلفیت کی ایک ایسی شاخ ہے، جو سیاسی بصیرت کے مطابق اپنی کارروائیوں کو منظم کرتی ہے۔ امغر کے مطابق، ان میں سے ہر ایک شاخ کا، یورپی معاشروں، مسلم معاشروں، اور اسلامی ریاست کے حتمی قیام کی تکمیل کے ذرائع – بشمول جہاد – کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔

برنارڈ ہائیکل نے سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے، سلفیوں کے تین طبقے بیان کیے ہیں: " جہادی سلفی "، جو القاعدہ جیسی تنظیموں میں شامل ہیں، جو اپنے مخالفین اور موجودہ سیاسی رہنماؤں کے خلاف پرتشدد کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ "حرکی سلفی"، جو غیر متشدد سیاسی سرگرمی کی حمایت کرتے ہیں، اور "علمی سلفی (السلفیہ العلمیہ)"، جو خاموش طرز عمل اور روایتی نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں، اور جن کا ماننا ہے کہ ہر قسم کی اعلانیہ سیاسی تنظیم سازی، کارروائی، اور تشدد حرام ہے۔ اس دورِ جدید میں، ان کے علاوہ بھی کئی دوسرے سلفی گروہ اور دھڑے ہیں، اور جنہیں مذکورہ زمروں میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے، کہ ایک فرد سلفی ہو سکتا ہے، اور کسی سلفی ادارے سے منسلک ہوئے بغیر، سلفی نقطہ نظر کی پیروی کر سکتا ہے۔ کچھ مسلمان بعض حالات میں، سلفی طرز عمل کی بھی پیروی کرتے ہیں۔ اسے دوسرے طریقے سے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے، کہ کبھی وہ سلفی ہوتے ہیں، اور کبھی سلفی نہیں ہوتے۔

دلچسپ بات یہ ہے، کہ ایک فرد سلفی ہو سکتا ہے، اور کسی سلفی ادارے سے منسلک ہوئے بغیر، سلفی نقطہ نظر کی پیروی کر سکتا ہے۔ کچھ مسلمان بعض حالات میں، سلفی طرز عمل کی بھی پیروی کرتے ہیں۔ اسے دوسرے طریقے سے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے، کہ کبھی وہ سلفی ہوتے ہیں، اور کبھی سلفی نہیں ہوتے۔

اس دورِ جدید کی سلفیت میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں، ایسی مثالیں موجود ہیں، کہ سلفیوں کے یہ زمرہ جات اور گروہ آپس میں ایک دوسرے سے خلط ملظ ہو جاتے ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے، کہ سلفیت کے جو ماسبق میں درجے اور طبقے بیان کیے گئے، انہیں توہین آمیز سمجھا جاتا ہے، اور سلفی انہیں یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا یہ کہا جائے، سلفیت کی زمرہ بندی، جدید سلفیوں کے طبقات کا تعین کرنے والی، شخصیات اور افکار و نظریات کا ایک تخمینہ ہے۔ دوسری طرف، سلفیت کی یہ درجہ بندی، ان درجہ بندیوں سے کافی زیادہ پیچیدہ ہے، جس کا استعمال اس وقت مغربی پالیسی ساز، تجزیہ کار، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، جہادیوں، سلفیوں، اور ان لوگوں کے لیے کرتے ہیں، جو ان میں سے کسی زمرے میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ اپنی قانونی حیثیت کو قائم کرنے، اور فکری سمت کا تعین کرنے کے لیے، یہ سلفی گروہ دیگر متعدد مذہبی مفکرین اور کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ اور یہ تشریحات، بدلے میں، ان کے پیروکاروں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی رویے کے لیے، اہم اثرات مرتب کرتی ہیں۔

ان گروہوں میں اختلاف رائے اور نزاع آسانی سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ کیا ایک "اچھے" مسلمان کے لیے موسیقی سے محبت کرنا ممکن ہے؟ کیا ایک "اچھے" مسلمان پر یہ فرض ہے، کہ وہ اسرائیلی اشیاء اور مصنوعات کی خریداری سے پرہیز کرے؟ کیا ایک "اچھے" مسلمان کے لیے جائز ہے، کہ وہ کسی ایسی مسلم حکومت کو گرانے کی جدوجہد میں شامل ہو، جو شریعت پر پوری طرح عمل نہیں کرتی؟ ان اور ان جیسے دیگر سوالات کے جواب میں، سلفیت کی ہر شاخ کے پیروکاروں کو مختلف قسم کے جوابات اور مذہبی جواز فراہم کیے جاتے ہیں۔ تاہم، ان زمرہ بندیوں سے،سلفیت کا ایک مجموعی خاکہ ہی سمجھ میں آتا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں، جس کا مقصد تبصرہ نگاروں کو مدد کرنا ہے، تاکہ وہ جدید سلفیت کے نظریاتی رجحانات کے بارے میں، مزید واضح الفاظ میں بات کرنے کے قابل ہو سکیں ۔

English Article: Salafism Today: Diverse Movements Under One Ideological Umbrella

URL: https://newageislam.com/urdu-section/salafism-diverse-movements-ideological/d/132657

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..