سجدہ خان
4 جون 2013
نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیغام مساوات کے ساتھ کیا غلط ہوا ہے کہ آج اسلام کو سب سے زیادہ ظالمانہ اور زن بیزار مذہب سمجھا جاتا ہے ؟
کچھ لوگوں کے ذریعہ افغانستان کو ایک ایسی جابر حکومت کی مثال سمجھا جاتا ہے پر جہاں خواتین کو ان کے کچھ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ 2009 میں افغان صدر حامد کرزئی نے خواتین کے خلاف تشدد پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایک قانون متعارف کرایا ۔ قانون صدارتی فرمان کے ذریعے منظور کیا گیا تھا۔ تاہم، اسے پارلیمانی منظوری حاصل نہیں ہوئی ۔ اس فرمان نے جبری شادی اور بچوں کی شادیاں اور خواتین کے ساتھ دیگر بدسلوکیوں سمیت 23 پرتشدد عمل کو مجرمانہ قرار دیا ۔ تا ہم خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے (EVAW) کے قانون کو غیر مناسب طور پر لاگو کیا گیا ہے، بہت سی قانونی کاروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
حال ہی میں، بعض افغان سیاست دانوں نے یہ چاہا کہ اس قانون کو ناقابل تنسیخ اور مسلسل اطلاق دیتے ہوئے، اسے پارلیمانی منظوری حاصل ہو ۔ تاہم، اس بحث کو درمیان میں ہی کچھ قدامت پسند ارکان پارلیمنٹ کے ذریعہ معطل کر دیا گیا جو کہ اس قانون پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اور صدر پر شریعت کی توہین کا الزام لگا رہے ہی۔ فرمان پر پوری طرح سے سبوتاژ نہیں کیا گیا ، لیکن اسے طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا اور اضافی غور کے لئے ایک مشترکہ کمیشن کو بھیج دیا گیا ۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جلد ہی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کی اہلیہ لورا نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ خواتین کے حقوق کی بھی لڑائی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ کے بعد، دراصل کتنا حاصل کیا گیا ہے، جب افغان حکومت خواتین کے خلاف تشدد، جبری شادی اور دیگر برے برتاؤ پر پابندی عائد کرنے والے ایک صدارتی فرمان کو سبوتاژ کر سکتی ہے ؟ 2001 کے بعد سے ملک امداد میں تقریبا 60 ارب پونڈ (Dh337۔32 ارب ڈالر) حاصل کر چکا ہے۔ تعلیم اور حکمرانی میں خواتین کی نمائندگی میں بہتری ہوئی ہے۔ اسکولوں میں تقریبا دو ملین لڑکیاں ہیں اور ارکان پارلیمنٹ میں 27 فی صد تعداد خواتین کی ہے-برطانیہ سے زیادہ۔ اس کے باوجود، چیریٹی ایکشن ایڈ کے ذریعہ 2012 میں افغانستان بھر میں خواتین کے ایک سروے سے یہ پتہ چلا ہے کہ ملک میں دس میں سے نو کو بین الاقوامی برادری کی روانگی کے ساتھ مزید انحطاط کا خدشہ ۔
یہ یاد ہونا چاہئے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جب عرب کے سامنے اسلام پیش کیا تھا تو عرب کی ثقافت اس وقت زن بیزاری اور جنسیت کی لپیٹ میں تھی ۔ اگرچہ جنسی عدم مساوات عرب معاشرے کی میراث نہیں ہے کیونکہ ساتویں صدی میں کسی بھی معاشرے میں مساوات کا تصور نہیں پایا جاتا تھا ۔
پوری تاریخ میں، تقریبا تمام معاشرے پیدرانہ معمولات پر قائم تھے جہاں عورتوں نے مساوات اور بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کی اور یہاں تک کہ انہیں مکمل طور پر انسان بھی نہیں سمجھا گیا ۔ مغربی دنیا صرف یہ بنیادی نظریہ قائم کر سکی تھی کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان حیاتیاتی اختلافات کا مطلب یہ ہے کہ فطرتاً عورتیں مردوں سے کمتر ہیں ۔ تھامس ایکویناس نے کہا کہ: "عورت ایک نامکمل مرد ہے۔"
بنیادی حقوق
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عورتوں کو مساجد میں حاضر ہونے ان کے خطبات میں شریک ہونے اور اور سیاسی اور عوامی معاملات میں تعاون کرنے کے قابل بنا کر عورتوں کو آزادی فراہم کیا ہے ۔ ان کی بیوی عائشہ (رضی اللہ عنہا ) نے زندگی کے اسلامی طریقہ سے متعلق معاملات پر تقریباً 210 . 2روایات نقل کی ہیں ۔ ایک مسلمان عورت کو آزاد ہونے کا حق حاصل ہے، اسے اس کے شوہر کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اسے اس کی شناخت کو برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے، اسے تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، اسے اس لڑکے کو منتخب کرنے کا حق ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے ۔ افسوس کی بات ہے، ان میں سے کچھ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی افغانستان میں عام ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ۔
صرف افغانستان ہی وہ واحد جگہ نہیں ہے جہاں مسلم خواتین صنفی مساوات کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں ۔ اس میں سخت جہالت کی آمیزش ہے اور بعض مسلمان جنسی جبر، عدم مساوات اور پیدرانہ نظام کے جواز میں قرآن کی تشریح کر رہے ہیں۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا پیغام واضح تھا کہ مرد اور عورت برابر ہیں، لیکن مختلف ہیں۔ یہ تصور کرنا کہ کسی کہ ساتھ مختلف طریقے سے پیش آنا اس کے ساتھ نا انصافی سے پیش آنا ہے، کوتاہ نظری ہے ۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مرد اور عورت خدا کے سامنے برابر ہیں؛ امتیاز کا معیار صرف تقوی ہے۔ "اور جو شخص نیک اعمال کرتا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اور ایک مومن ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا اور اس کے ساتھ ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی ۔"
بہت سے مسلمانوں کے لئے، خدا کے سامنے مساوات دنیاوی معاملات میں مقدم ہو گا جو دونوں جنسوں کے درمیان فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
اسلام کو ثقافتی رسومات زن بیزار تشریحات کے بجائے اس کے اصل ذرائع کے ذریعے سمجھنے کے لئے گندم کو بھوسہ سے علیحدہ کرنا ضروری ہے ۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کواس بات کو مزید یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صنفی مساوات کے مطالبہ کے ذریعہ امداد دیتے وقت افغان حکومت پر سخت حالات عائد کئے جانے چاہئے ۔ یہ قبل از وقت ہو سکتا ہے ۔ میرا ماننا ہے کہ یہ ایک ثقافتی طرز ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہاں مسلم خواتین کے حقوق پر بامعنی مکالمہ کی ضرورت ہے اور ان تبدیلیوں کی قیادت افغانستان کے اندر سے ہی کیا جانا ضروری ہے۔
مسلمان عورتوں کو اسلام سے نہیں بلکہ ان کے مقامی ثقافتی رسومات سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے، جسے اکثر اسلام کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ مسلمانوں کو خاموش نہیں ہونا چاہئے، انہیں مسلم خواتین کی آزادی اوراس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری اٹھانی ضروری ہے کہ وہ ان حقوق سے محروم نہیں جو انہیں 1400 سال پہلے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ذریعہ عطاء کیا گیا ہے ۔
سجدہ ایک خان برطانوی مصنف اور ڈاکٹریٹ کینڈیڈیٹ ہیں اور معاصر معاشرے میں اسلام کی افادیت پر تحقیق کر رہی ہیں ۔
ماخذ:
http://gulfnews.com/opinions/columnists/conflating-cultural-practices-and-islam-1.1192804
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-culture/conflating-cultural-practices-islam/d/12027
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/conflating-cultural-practices-islam-/d/12902