New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 07:55 PM

Urdu Section ( 5 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sailani Baba's Dargah: An Iconoclastic Beacon of Communal Harmony and Religious Tolerance سیلانی بابا کی درگاہ: فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی علامت

ساحل رضوی، نیو ایج اسلام

16 ستمبر 2024

سیلانی بابا کی درگاہ ہندوستان کی مذہبی ہم آہنگی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے، جہاں ہندو اور مسلمان مل کر گنیش چترتھی اور دیگر تہوار مناتے ہیں۔ شنکر بابا کے ذریعے قائم کیا گیا گنیش چترتھی کا یہ سلسلہ اتحاد اور باہمی احترام کو فروغ دیتا ہے، جو سیلانی بابا کی روحانی میراث اور امن، رواداری، اور بھائی چارے پر مبنی ان کی تعلیمات کو عملی شکل دیتا ہے۔

اہم نکات:

مہاراشٹر میں سیلانی بابا کی درگاہ مذہبی اتحاد کو فروغ دیتی ہے، جہاں ہندو اور مسلمان مل کر گنیش چترتھی مناتے ہیں۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی یہ روایت سیلانی بابا کے شاگرد شنکر بابا پوتھیکر نے شروع کی تھی۔

سیلانی بابا، جو 1871 میں دہلی میں پیدا ہوئے، نے تصوف کو اپنایا اور امن اور عقیدت کے پیغامات پھیلائے۔

اس درگاہ پر، رواداری اور باہمی احترام کی مثال پیش کرتے ہوئے، اسلامی اور ہندو دونوں تہوار منائے جاتے ہیں۔

اس مقام کی دیکھ بھال ہندو اور مسلمان دونوں مشترکہ طور پر کرتے ہیں، جو ہندوستان کی تکثیری روح کی علامت ہے۔

Sailani Baba's Dargah

-----

سمبھاجی نگر شہر سے صرف سات کلومیٹر دور، سیلانی نگر میں واقع ایک پُرسکون درگاہ کا نخلستان ہر سال اپنی نوعیت کی ایک منفرد روایت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس غیر معمولی تقریب کا آغاز سدگرو شنکر بابا پوتھیکر نے کیا تھا، جو سیلانی بابا کے بہت چہیتے شاگرد تھے۔ حضرت شاہ عبدالرحمن شاہ سیلانی کی اصل درگاہ، جسے عرف عام میں سیلانی بابا کے نام سے جانا جاتا ہے، مہاراشٹر کے ضلع بلڈھانہ میں واقع ہے، اور روحانی طور پر اس کی بڑی اہمیت ہے۔

درگاہیں قومی منظر نامے پر وہ مقامات ہیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ خوشی سے تہوار منانے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال شاید سیلانی بابا کی درگاہ ہے، جہاں ہندو اور مسلمان مل کر گنیش چترتھی کا جشن مناتے ہیں۔ یہ ایک زندہ مثال ہے جو مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کو ہندوستانی تکثیریت کے لیے لازمی قرار دیتی ہے۔

سیلانی بابا: ایک مختصر تعارف

عبدالرحمن شاہ سیلانی، سیلانی بابا کے نام سے زیادہ مشہور تھے، جو 1871 میں دہلی میں ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام کالے خان تھا، اور وہ پیشے کے اعتبار سے ایک تاجر تھے۔ وہ اپنے والدین کی شادی کے کئی سالوں کے بعد پیدا ہوئے، اور ان کے بارے میں ان کے خاندان والوں کا ماننا تھا کہ یہ ایک عظیم صوفی بزرگ کی دعاؤں سے پیدا ہوئے ہیں۔

اس نوجوان میں کشتی کا ایسا جوش تھا کہ اس جنون میں وہ دہلی سے دکن کے لیے روانہ ہوئے، اور بالاپور میں نور میاں سے پہلوانی میں تربیت حاصل کی۔ دریں اثنا، حیدرآباد میں جلد ہی ان کی ملاقات روحانی سلسلے کے عظیم صوفی بزرگ خیرالدین مخدوم مجرد سے ہوئی، جنہوں نے سیلانی بابا کو اپنے حلقہ ارادت میں داخل کر لیا۔ اسی مرحلے میں سیلانی بابا مخدوم مجرد کی تعلیمات سے کافی متاثر ہوئے اور روحانیت سے بھرپور راستے پر چلتے ہوئے تصوف کی طرف متوجہ ہو گئے۔

خیرالدین مجرد کی سرپرستی میں، انہوں نے تصوف و روحانیت کی تعلیم پائی، اور ایک روحانی شیخ بن کر خلق خدا میں نکلے۔ ناندیڑ میں کئی سال تک تصوف و روحانیت پر مبنی امن اور تقویٰ کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔

مذہبی رواداری کی روایت

سیلانی بابا کی درگاہ میں گنیش اتسو تقریباً 30 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ ایک منفرد عمل ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی مضبوط علامت بھی۔ شنکر بابا کی وفات کے بعد درگاہ کے احاطے میں ایک مقبرہ بنایا گیا تھا، جس کی بدولت درگاہ میں اس گنیش تہوار کا آغاز ہوا۔ شنکر بابا کی بیوی کے انتقال کے بعد انہیں بھی اسی جگہ دفن کیا گیا، جس سے روحانی ہم آہنگی کے اس تاریخی مقام کو مزید تقویت ملی۔

گنیش اتسو کے دوران، بھگوان گنیش کی ایک مورتی درگاہ پر رکھی جاتی ہے، جہاں ہر مذہب کے لوگ ان تقریبات میں شامل ہونے کے لیے آتے ہیں۔ مورتیوں کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے، اور گنیش کی آرتی اور نماز دونوں ایک ہی جگہ پر، سنجیدگی سے ادا کی جاتی ہیں، اور ہر مذہب کے لیے محبت، اتحاد اور احترام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ متنوع مذہبی معمولات کے ساتھ بقائے باہمی اور ہم آہنگی، سیلانی بابا کی تعلیمات — امن، رواداری اور بھائی چارے — کا نچوڑ ہے۔

تمام عقائد کا احترام

درگاہ کے علاوہ، اس احاطے میں بھگوان ہنومان اور بھگوان مہادیو کے مندر بھی ہیں۔ ہر جمعرات کو، بھگوان گنیش، بھگوان دتاتریہ، بھگوان مہادیو، اور سیلانی بابا کے لیے آرتی کی جاتی ہے، جس میں تمام طبقوں کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ گنیش اتسو کے ساتھ ساتھ، یہاں کالیکا ماتا اور تلجا بھوانی ماتا کے تہوار بھی ویسے ہی جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں، جن میں تمام عقائد کے ماننے والے شامل ہوتے ہیں۔

شنکر بابا کی بہو، پلوی پوتھیکر کا کہنا ہے کہ یہ درگاہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا سنگم بن گئی ہے۔ ان تہواروں کا مشترکہ جشن نہ صرف پیروکاروں میں روحانی آسودگی پیدا کرتا ہے، بلکہ سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا مضبوط پیغام بھی دیتا ہے۔

یہاں اکثر حاضری دینے والے انور پٹھان کہتے ہیں: "یہاں آنے سے بے پناہ روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بابا کے مزار کا بھگوان گنیش کی مورتی کے ساتھ پایا جانا، مذہبی رواداری اور تمام عقائد کے احترام کی ایک بہترین مثال ہے۔"

اتحاد کا ماڈل

سیلانی بابا کی درگاہ ایک ایسی مثال ہے جو ہندوستان کی تکثیری روح کو زندہ رکھتی ہے، اور مناسب احترام کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی وہاں کی پہچان ہے۔ سیلانی بابا کی روح اور شنکر بابا کی طرف سے شروع کی گئی روایت، تمام برادریوں کے لوگوں کو جشن اور امن میں اکٹھا ہونے کی ترغیب دیتی رہتی ہے۔

درگاہ کی دیکھ بھال ہندو اور مسلمان دونوں مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔ اس طرح، مذہبی سرحدوں سے ماوراء، اتحاد کا ایک گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جب ہمیشہ ہی حقیر مفادات کے لیے سماجی تقسیم کا استحصال کیا جاتا ہے، سیلانی بابا کی درگاہ اور شنکر بابا کی کہانی — اور وہ اقدار جن کی انہوں نے تبلیغ کی — مذہبی رواداری اور ہم آہنگی سے حاصل ہونے والی طاقت کا ایک سنجیدہ سبق پیش کرتے ہیں۔

سیلانی بابا کی درگاہ میں اتحاد کی روایت، مذہب کے نام پر لڑنے والوں اور معاشرے میں تقسیم کا باعث بننے والوں کے لیے ایک سنجیدہ سبق ہے کہ باہمی احترام اور افہام و تفہیم سے مزید کتنا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 ------ 

English Article: Sailani Baba's Dargah: An Iconoclastic Beacon of Communal Harmony and Religious Tolerance

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sailani-baba-dargah-communal-harmony-religious-tolerance/d/133620

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..