New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 11:16 AM

Urdu Section ( 9 March 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Burn the Beard and the Burqa برقع اور ڈاڑھی کو جلا دیجئے

سیف شاہین، نیو ایج اسلام

پچھلے کچھ عرصے سے برقعہ اور داڑھی مسلمانیت کے رسمی اعلان کا ذریعہ رہے ہیں۔ آپ دنیا میں کہیں بھی ایک برقعہ پوش عورت کو دیکھیں آپ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ ایک مسلمان خاتون ہے۔ داڑھی ابھی تک مخصوص طور پر صرف مسلمان  کی پہچان نہیں بنی ہے لیکن  پر تکلف  بغیر کٹی داڑھی والے، خاص طور پر صاف مونچھوں کے ساتھ والی داڑھی والے، مسلمانوں کی پہچان بننے کے قریب ہیں۔

 اسلامی اعتبار سے ان میں سے کسی کے بارے میں بنیادی طور پر کچھ بھی لازمی نہیں ہے۔ قرآن، خواتین کے لئے برقعہ پہننے کولازمی نہیں کرتا ہے: یہ صرف تمام مسلمان مرد اور عورت سے سیدھے سادے طریقے کے کپڑے پہننے کو کہتا ہے۔ اور نہ ہی یہ مردوں کےداڑھی رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے لئے اکثر دلیل دی جاتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی رکھتے تھے اور اس وجہ سے ایسا کرنا سنت ہے۔ لیکن سنت وہ ہوتی ہےجو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں سے الگ کرتی تھی اور آپ ﷺکی داڑھی یقینی طور پر ایسا نہیں کرتی تھی۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابو لہب اور ابو جہل بھی داڑھی رکھتے تھے۔ کسی بھی صورت میں، بہت سے داڑھی والے مسلمان بڑی تعداد میں ایسی دوسری چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ  مخصوص ہے یا نہیں۔

تو کیوں؟ برقعہ اور داڑھی مسلمانوں کے تشخص کی اتنی بڑی علامت  آج کیوں بن گئے ہیں؟ بہت سے ملاّ کیوں اس پر اصرار کرتے ہیں کہ جنس کی بنیاد پر  آپ ایک مسلمان نہیں ہو سکتے ہیں اگر آپ برقعے والی یا داڑھی والے نہیں ہیں؟ افغانستان میں طالبان، پاکستان میں ان سے منسلک گروپوں اور دنیا کے دوسرے حصوں میں انتہا پسند جو ان پر عمل نہیں کرتے ہیں انہیں قتل کر دینے کی دھمکی کیوں دیتے ہیں؟

شاید اس لئے کہ برقعہ اور داڑھی ذاتی شناخت کو ختم کرنے کی حد تک طبقاتی شناخت کے نفاذ کا انتہائی طاقتور ذرائع ہے۔

ہمارے تشخص کے بارے میں سماجی معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سماجی طور پر تعمیر ہوئی ہے۔ ہم خود کو دوسروں کی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور ہم اسی کے مطابق خودکو"تعمیر" کرتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انفرادیت اہم ہو، ذاتی شناخت مقدس بن جاتی ہے، اور لوگ دوسروں سے مختلف نظر آنے کے لئے تمام اقدام کرتے ہیں۔ امریکی کی پنک (Punk) ثقافت اس کی ایک انتہائی مثال ہے۔

تاہم، جب دوسرے ہمیں ایک فرد کے طور پر نہ دیکھ کر بلکہ بلا تفریق ایک طبقے کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں، تب اس طرح ہم خود کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں۔ایک فرد کے طور پر ہماری شناخت طبقے کی ثقافت اوراس کی نوعیت کے سمندر میں گھل مل جاتی ہے۔ ہم اپنی ذاتی پسند کو گروپ کے عقائد اور گروپ کی فکر میں شامل ہونے کے لئے ترک کر دیتے ہیں۔

 برقعہ اور داڑھی یہی کام انجام دیتے ہیں۔ اپنے چہرے کی لمبائی سے دو گنازیادہ لمبی داڑھی والا آدمی دوسروں کے لئے ایک فرد نہیں رہ جاتا ہے۔ اس کے ارد گرد کے لوگ اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں، اس کی ناک یااس کے ہونٹ نہیں دیکھتے ہیں بلکہ وہ صرف اس کی داڑھی دیکھتے ہیں اور اس سے جڑے مفہوم کو سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے وہ صرف دنیا کی آبادی میں  مسلمانوں کے ہجوم کا حصہ بن جاتا ہے، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک عورت کے لئے بھی یہی سچ ہے۔

اور کیونکہ وہ دوسروں کے لئے بغیر چہرے کا اور سپاٹ بن جاتا ہے، اس لئے وہ اپنے ذہنوں میں بھی انفرادیت کا احساس کھو دیتے ہیں اور مسلمانیت کی بھیڑ  کے موضوع بن جاتے ہیں۔ ان کےعقائد، جذبات اور خیالات باقاعدگی کے ساتھ گروپ کے احکامات کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ اس میں ایک فرد کے طور پر  ان میں بہت کم، کچھ بچتا ہے۔ اس کے علاوہ،  وہ اپنے جیسے ایک گروپ میں مستحکم ہوجاتے ہیں، اور اس طرح ان تمام لوگوں سے منقطع ہو جاتے ہیں جو اس گروپ کے رکن نہیں ہیں۔

ملّا لوگوں کیلئے ایسے لوگوں کے ذہنوں اور ان کے طرز عمل کو کنٹرول کرنا مشکل قطعی نہیں ہے۔  اسلام کے نام پر کوئی بھی دعویٰ کیجیئے، برقعے والیاں اور داڑہی والے اس سے متفق ہوں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ دعوے مناسب ہیں یا نہیں، یا  واقعی میں یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں یا نہیں۔  منطقی سوچ سے عاری اور ذاتی پسند سے محروم  برقعے والیاں اور داڑھی والے اسی کے مطابق فکر، محسوس اور عمل کریں گے جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔

کئی خواتین ہیں جو برقعہ  پہنتی ہیں وہ بڑے فخر سے اعلان کرتی ہیں کہ وہ ایسا عمل کرنے میں اپنے "ذاتی حق" کا استعمال کر رہی ہیں۔ مشکل سے ہی انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ حقیقت میں وہ اس کے بر عکس عمل کر رہی ہیں۔ اپنے حقوق میں سے بہت ہی ذاتی حق سے دست بردار ہو رہی ہیں: ان کی شخصیت، انکے ایک فرد کے طور پر رہنے کا حق۔

مسلمان اکثر شکایت کرتے ہیں کہ دوسرے انہیں دقیانوسی بتاتے ہیں۔ لیکن "اسلامی" داڑھی بڑھانے یا برقع پہن کر وہ خود کو اپنے ذہنوں میں دقیانوسی بنا رہے ہیں۔ وہ ان علامتوں سے اسلام کی وضاحت کرتے ہیں اور اسے ایک ذاتی عقیدے کے مقابلے میں ایک گروپ کی شناخت تک ہی محدود کرتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب  داڑھی اور برقع صرف مسلمانیت کی علامت نہیں رہے گیں بلکہ خود اسلام بن جائیں گے۔ مرنے کے حق اور قتل کرنے کی ذمہ داری کے تقدس کو برقرار  رکھنےکے مقابلے یہ مذہب سے تھوڑا زیادہ بن گئے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ، گروپ کی شناخت بری چیز نہیں ہے۔کسی مذہبی یا دوسرے گروپ کے حصہ کے طور پر خود کے بارے میں سوچنا  ہمیں ذاتی تکلیف کو درکنار کر دوسروں کی مدد،کر سماجی بہبود کے لئے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے ہمیں ذی شعور انسان کے طور پر  غور و فکر کرنا چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جب اللہ نے ہم لوگوں کو  انفرادی شعور دیا ہے تو ہمیں اپنی انفرادی شناخت سے  کسی بھی قیمت پر دست بردار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

سیف شاہین،  آسٹن،  میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

URL for English article: http://newageislam.com/islamic-society/saif-shahin,-new-age-islam/burn-the-burqa,-and-the-beard/d/6792

URL: https://newageislam.com/urdu-section/burn-beard-burqa/d/6818

Loading..

Loading..