سید محمود کاظمی
(آخری قسط )
17نومبر،2024
اظہاروتاثر، دونوں مطالعاتی صورتوں کے تحت حسن و فنکاری کی تفہیم، تفسیر، تعبیر اور تشریح کے لیے جس فلسفیانہ نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے وہ دراصل اس خیال کے بطن سے جنم لیتاہے کہ یہ کائنات ایک ازلی وابدی حسن کا پر تو ہے جسے صوفیا نے حسن حقیقی بھی قرار دیاہے۔ افلاطون کے مطابق اسی حسن حقیقی اور اس کے تخلیق کردہ عالم حقیقت کی نقل فن کار اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کاطرز احساس جس ماحول میں تشکیل کے مراحل سے گزرے اس کے اثر سے محروم ہو۔ مارکسزم نے بھی تخلیق کار کے لیے سماجی سروکاروں کو فطری اورلازمی قراردیاہے۔ ظاہر ہے کہ تخلیق کار فطری طور پر موجودات سے متاثر ہوتاہے اور پھرانھیں اپنے تخلیقی تجربے کاحصہ بناتا ہے۔ اس کا شعور ذات اوراحساس جمال یاتصور حسن خلا میں نہیں اس کے سماجی انسلاکات کے درمیان پرورش پاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے معیارات حسن اور سماجی رویے یکساں ہوتے اور ان میں جو تنوع ہمیں نظرآتاہے وہ موجود نہ ہوتا۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیافنی معیارات ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود عہدوماحول سے بھی ماورا ہوتے ہیں؟ تواس تعلق سے ارنسٹ فشر نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف Necessity of Art The میں ایک بڑے کام کی بات کہی ہے ،اس کاکہنا ہے کہ :
ساحرلدھیانوی
--------
’’بدلتے ہوئے سماجی حالات کے باوجود فن میں کچھ ایسی شے ہے جوناقابل تغیرسچائی کااظہار کرتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ ہم بیسویںصدی میں رہنے والے لوگ بھی قبل از تاریخ غارکی تصاویر یاقدیم نغموں سے محظوظ ہوتے ہیں۔‘‘ ( بحوالہ مارکسی جمالیات از اصغرعلی انجینئر،ص 32)
جب ہم متذکرہ بالاقول کی روشنی میں تاج محل کا جائزہ لیتے ہیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ فن زماںو مکاں کی حدود سے اکثروبیشتر ماورا ہوتاہے۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب فن نے خون جگرکی آبیاری سے نمود حاصل کی ہو۔ تاج محل کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے یعنی فن نے ایک معجزے کی شکل اختیار کرلی ہے اور چار صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ عمارت ہماری توجہ کامرکزبنی ہوئی ہے۔ سماج اورمعاشرہ بدلا،وقت اور حالات بدلے، جدید طرزتعمیر نے قدیم طرز تعمیر کی جگہ لے لی لیکن تاج محل کاجادوآج بھی برقرارہے لیکن جن ہاتھوںکی محنت اور فنکاری نے یہ جادوجگایا ہے وہ ہاتھ گم نام ہیں ۔ان کی محنت کاکہیں کوئی ذکرنہیں، ان کے استحصال کا تذکرہ نہیں، معمارتاج کے طورپر اس شہنشاہ کا نام آتا ہے جس نے اس عمارت کی تعمیرکے لیے اپنے خزانے کا منھ کھول دیا تھا لیکن جن ہاتھوں نے اپنی محنت سے اس معجزۂ فن کونمود بخشی ہم نے کبھی ان کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے اپنے مرقد بے چراغ اور ان کے پیاروں کے مقابر بے قندیل کیوں رہے ؟یہ عمارات و مقابر مطلق الحکم شہنشاہوںکی عظمت کاستون توقرار پائے لیکن محنت کشوںکی سعی مسلسل کا شناخت نامہ کیوں نہ بن سکے۔یہی ساحر کا Main concern ہے۔اور یہ صرف ساحرکا ہی Concern نہیں ہے بلکہ ہراس انسان کاہے جو مارکسی جمالیات کاصاف اورواضح تصور رکھتا ہے کہ جس کے مطابق فن اور فن کار کی عظمت اسی میں پوشیدہ ہے کہ اس میں ازلی انسانی اقدار کی جھلک پائی جاتی ہو۔اوراگر یہ اقدار مجروح ہوں یا کی جائیں تو فن بھی متاثر ہوتا ہے اور فن کی عظمت کاتصور بھی۔ مارکس اس بات پرزور دیتا ہے کہ محنت جب ایک مخصوص درجے پر پہنچ جاتی ہے تو فن کی تخلیق عمل میں آتی ہے اس لیے کسی بھی فنی تخلیق کا مطالعہ اوراس کا محاکمہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہم محنت کو Recognizeنہیں کرتے ۔مارکس کے مطابق محنت حیاتیاتی ضرورتوںکی تکمیل کے ساتھ اس کے داخلی یاجمالی تقاضوں کی تکمیل بھی کرتی ہے مثلاً تعمیراورفن تعمیر میں سے ’تعمیر‘کی حیثیت یہ ہے کہ وہ ہماری بنیادی ضرورت کو پورا کرتی ہے جب کہ ’فن تعمیر‘ ہمارے داخلی یا جمالی تقاضوں کی تکمیل کویقینی بناتا ہے اور یہی فرق ایک معمولی عمارت اور تاج محل کے مابین پایاجاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ محنت دونوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ تاج محل بھی اسی محنت کا نتیجہ ہے جو ایک مخصوص درجے پر پہنچ کرفن کی صورت اختیار کر گیا ۔اب اگر یہ محنت اختیاری ہو اور محض محنت کش کی تخلیقی قوت کااظہار ہوتو یہ مستحسن ہے اوراگر ایک مخصوص سماجی نظام میں بازار کی ضرورتوں یا دوسروں کی خواہشات کی تابع ہو تو پھر محنت کش کے استحصال اور اس کی بشری تحقیر کے امکان کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔معماران تاج کے ساتھ بھی یہی ہواکیونکہ ان کی صناعی و کاریگری کسی دوسرے کی خواہش نمود کی تابع تھی۔شہنشاہ کو مہیا بے پناہ مادی وسائل نے سنگ مرمر کے ساتھ محنت کو بھی خرید لیا اور اس تشہیر وفا کے پردے میں سطوت کے نشانات گم ہوکررہ گئے۔
اب اسی مارکسی جمالیات کی قائم کردہ ایک اوراہم بحث کی طرف آتے ہیں اور وہ بحث ہے حسن یاشعورحسن کے تعلق سے ازلی صداقت کی ۔ مارکسی تصورجمال کے مطابق ہمیں انسان ،محنت اور پیداوار کے اس تکون کو اس وقت بھی ذہن میں رکھناچاہیے جب ہم یہ طے کر رہے ہوں حسن کی صداقت ازلی کہاں موجود ہے اور کس میں پائی جاتی ہے۔ اب تک ہمارا شعورحسن عظمت ورفعت کے اس مخصوص تصور کے زیراثر رہا ہے جو حسن کوایک روحانی و جمالیاتی تجربہ قراردیتا ہے اوراس کی ارضیت کا منکر ہے۔ ہماری ارضی یاجسمانی ضرورتوں کی تکمیل جن اشیا سے ہوتی ہے نہ ان میں حسن ہے اور نہ ہی وہ ہمارے فنون لطیفہ بالخصوص شعروادب کاموضوع بن سکتی ہیں۔ اس تصور حسن کے برعکس مارکس حسن کے افادی پہلو کو بھی ملحوظ خاطررکھتا ہے اور شعورحسن یااحساس جمال کی تربیت ان خطوط پر بھی چاہتا ہے کہ ہم ان اشیا اور لوگوں میں بھی حسن دیکھیں جو ہماری ارضی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے جب پریم چند نے کہاتھا کہ ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا تواس سے ان کی یہی مراد تھی اور پھر اپنے افسانے عید گاہ میں انھوں نے اسی مارکسی تصور جمال کو فنکارانہ طورپر افسانے کی بُنت کاحصہ بنایا تھا جب مٹی کے رنگ برنگے خوب صورت کھلونوں کے مقابلے میں لوہے کاایک ٹیڑھا میڑھا بدصورت چمٹاحسن کا معیار بن جاتا ہے۔یہاں پریم چند نے اس نکتے کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے کہ حسین وہی ہے جو مفید ہے ۔ اگر ہمارا شعورحسن بنی نوع انسان کی بہتری اور بھلائی کے تصور سے آشنا ہوجائے تو اس کی تعبیر و تفسیر کا دائرہ از خود تعمیرحیات کی ان مختلف صورتوںتک پھیل جائے گا جنھیں ابھی تک ہمارے کسی بھی جمالیاتی تجربے کاحصہ نہیں سمجھاگیاہے۔
مارکسی جمالیات کاایک اہم ترین وصف اس کا تاریخی شعور ہے جو جمالیات کے دوسرے تصورات میں عام طورپرنہیں پایاجاتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ مارکس سے قبل کانٹ اور ہیگل جیسے فلسفی ایک واضح تصور جمال رکھتے تھے لیکن ان دونوں کے نزدیک جمالیات کاتعلق محض تصورات و تخیلات کی دنیاسے ہے اور تاریخ کا ایک مخصوص دوراور اس دور کے مثبت و منفی عناصرکاادراک ان کے نزدیک کوئی معنی نہیںرکھتا ہے۔اس کے برعکس مارکسی تعبیر جمالیات زیادہ ارضی ہے اور وہ کسی بھی طرح کے شعورحسن کے تحت جبرواستحصال کو جمالیاتی پیکر نہیں عطاکرسکتی۔ ساحر چونکہ ایک ترقی پسند شاعر تھے جو مارکسی فلسفہ ٔ حیات سے متاثرتھے اس لیے وہ کسی واضح تاریخی شعور کے بغیر مجرد جمالیاتی تعبیر حسن کوقبول نہیں کرسکتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے’پس پردہ تشہیر وفا‘ اقتدار و قوت کی کارفرمائی کی نشاندہی کی اور اپنی محبوب سے یہ تقاضا کیا کہ وہ مردہ شاہوں کے عالی شان مقابرکے حسن میں ہی کھوکر نہ رہ جائے بلکہ تاریک رہ جانے والے ہزاروں مکانات کی جانب بھی نظر کرے ۔ یہاںپر مجھے برتول بریخت کا وہ قول یادآتا ہے جس کے مطابق ایک سماجی حقیقت نگار جس فن پارے کی تخلیق کرتا ہے اسے زندگی اورانسان کی تقدیرپر قدرت حاصل کرنے کاحوصلہ عطاکرنا چاہیے۔ وہ تب ہی کارآمدوکامیاب قرار دیا جائے گا جب وہ انسانی مجبوری کے مقابلے میںانسانی آزادی، ذلت اور پستی کے مقابلے میں بلندی، روایت پرستی کے مقابلے میں خلاقانہ آزادروی کے جذبے کو پروموٹ کرے۔ساحر نے اس نظم کے ذریعے یہی کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ اگر وہ تاج محل کے اس Stablished اسطور کوکہ تاج محل یادگار محبت ہے ،چیلنج نہ کرتے اور ایک دوسرا اسطور یہ قائم نہ کرتے کہ تاج محل مطلق العنانیت کے پیداکردہ استحصال کی علامت ہے تو وہ ایک بڑے سماجی حقیقت نگار کے طورپر نہ ابھرتے اور نہ ہی ان کا تخلیق کردہ فن پار ہ ہمیں روایت پرستی کے مقابلے میں آزادروی کا شعور بخشتا۔ ساحرنے ایک Stablished اسطور کی تکرار کے بجائے ایک نئے زاویے سے گفتگوکی اوراس حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا کہ فن یاادب ہمیشہ اپنے عہد ،ماحول اورسماج کی پیداواری قوتوں میں تبدیلی کے ساتھ نئے سماجی وژن کی تشکیل کرتاہے۔صیغہ متکلم کواس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کی محبوبہ اس وادی رنگیں سے عقیدت رکھے اوراسے ایک مظہرالفت کے طورپر قبول کرے ،وہ اسے تصویر کے ایک دوسرے رخ کی جانب بھی متوجہ کرنا چاہتا ہے۔وہ فن کی قدرشناسی کے ساتھ محنت کی ناقدری اور جبر و استحصال کی کئی دوسری صورتوں کو بھی روشنی میں لانا چاہتا ہے اور بحیثیت ایک سماجی حقیقت نگار یہ اس کافرض بھی ہے اور حق بھی۔
17 نومبر،2024،بشکریہ:روزنامہ چٹان، سری نگر
--------------------
Part-1: Sahir's Poem "Taj Mahal" and Aesthetics-Part-1 ساحر کی نظم تاج محل اور جمالیات
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sahir-poem-taj-mahal-aesthetics-concluding-part/d/133777
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism