New Age Islam
Thu May 15 2025, 03:12 PM

Urdu Section ( 9 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sahir Ludhianvi Played a Pivotal Role in Bringing Urdu Language to the Masses and Elites Through Cinema-Part-1 ساحرلدھیانوی نے فلموں کے ذریعہ اُردو زبان کوعوام و خواص تک پہنچانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے

انیس امروہوی

(پہلا قسط )

8دسمبر،2024

اپنے ہم عصروں میں ساحرؔ لدھیانوی اس لحاظ سے ممتاز تصور کئے جاتے ہیں کہ انہوں نےفلمی نغموں میں بھی ادبی تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ انہوں نے فلموں کے ذریعہ اُردو زبان کو عوام و خواص تک پہنچانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اپنے نغموں میں انہوں نے جس طرح کی لفظیات کااستعمال کیا ہے، اس کی وجہ سے ہم کسی بھی نغمے کو سنتے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ نغمہ ساحرؔ کا لکھا ہوا ہے۔

’’آئو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے‘‘.... کل کیلئے خواب بُننے والا وہ مردِ مجاہد، وہ فولادی ارادوں والا انسان، جس نے کبھی حالات سے ہار نہیں مانی، جس نے انتہائی مایوسی اور کشمکش کے دنوں میں بھی اُمید کی روشنی اپنے دل ودماغ میں بسائے رکھی، اب ایک ایسے خواب میں ڈوبا ہوا ہے جس کی تعبیر وہ کسی سے کبھی معلوم نہ کر سکے گا۔

ساحرلدھیانوی

---------

 ساحرؔ لدھیانوی کے دادا فتح محمد لدھیانہ کے ایک بہت بڑے رئیس اور زمیندار تھے۔ ساحرؔ لدھیانوی کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا۔ چودھری فضل محمد نے۱۹۲۰ء میں ایک لڑکی سردار بیگم سے نکاح کر لیاجبکہ اُن کی پہلے سے ہی کئی بیویاں موجود تھیں۔ دراصل وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے جاگیر دار تھے اور ان دنوں جاگیر داروں کیلئے ایک سے زائد بیویاں رکھنا اُن کیلئے شان و شوکت کی بات تھی۔ سردار بیگم کشمیری نسل کی تھیں۔ ۸؍مارچ۱۹۲۱ء کو سردار بیگم سے جو بیٹا پیدا ہوا، چودھری فضل محمد نے اُس کا نام عبدالحئی رکھا۔ چند برسوں کے بعد ہی سردار بیگم کا اپنے شوہر فضل محمد سے جھگڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ عبدالحئی کو ساتھ لے کر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئیں۔ اُس وقت عبدالحئی کی عمر صرف ۷؍ سال تھی۔ چودھری فضل محمد نے اُس سات سالہ بچے کو اپنی سرپرستی میں لینے کیلئے عدالت میں اپیل داخل کی۔ عدالت میں جب عبدالحئی سے پوچھا گیا کہ وہ والدین میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، تو اُس نے اپنی کم سخن ماں کی طرف اشارہ کر دیا اور اس طرح عدالتی فیصلے سے عبدالحئی کو باپ کے بجائے ماں کی سرپرستی میں دے دیا گیا۔

 لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں ۱۹۲۸ء میں عبدالحئی کا داخلہ ہوا۔ ۱۹۳۷ء میں ہائی اسکول کرکے وہ انٹر میں داخل ہوئے تو ان کا رجحان شعر و شاعری کی طرف ہو گیا اور اس طرح عبدالحئی، ساحرؔ لدھیانوی بن گئے۔

  اپنی والدہ کی تربیت میں پروان چڑھنے والے ساحر نے اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم مولانا فیاضؔ ہریانوی سے حاصل کی۔ اُنہی کے فیض تربیت سے ساحرؔ کو نہ صرف اِن زبانوں پر عبور حاصل ہو گیا بلکہ شعر وادب میں بھی انہیں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ مولانا فیاض ہریانوی بھی شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ اسکول اور کالج میں اُن کا شمار اچھے اور محنتی طلبہ میں ہوتا تھا۔ ۱۹۳۹ء میں انٹر پاس کرنے کے بعد ساحرؔ نے لدھیانہ کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ شعر و شاعری سے شوق رکھتے ہوئے انہوں نے یہاں سیاست اور معاشیات کے مضامین میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستان کی تحریکِ آزادی اپنے شباب پر تھی اور انگریز بھی اپنے ظلم و جبر کا استعمال اسلحہ اور سازشوں کے زور پر دل کھول کر کررہے تھے۔ باپ کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے ساحرؔ کے دل میں جاگیردارانہ نظام کے تئیں نفرت کا بیج پہلے ہی موجود تھا لہٰذا یہ سب چیزیں ساحرؔ کی شاعری میں اس طرح گھل مل گئیں کہ ان کا رومان بھی حالاتِ حاضرہ کی بھٹّی میں تپ کر اُن کے شعروں میں ڈھلنے لگا۔

 ساحرؔ کا ابھی کالج میں بی اے کا پہلا ہی سال تھا کہ کالج کے پرنسپل کی لڑکی سے اُنہیں عشق ہو گیا۔ اس کی پاداش میں انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔ برسوں بعد جب ساحرؔ ایک بڑے شاعر کے طور پر مشہورہوگئے اور فلمی دُنیا کے مقبول ترین نغمہ نگار بن گئے تو اُسی کالج میں اُن کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں ساحرؔ نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’نذرِ کالج‘ پڑھی۔ اس کے آخری مصرعے کچھ یوں تھے۔

معصومیوں کے جرم میں بدنام بھی ہوئے

تیرے طفیل مورد الزام بھی ہوئے

اس سر زمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی

دنیا ہمارے نام سے بیزار ہی سہی

لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں

گریاں نہیں تو یاں سے نکالے ہوئے تو ہی

 بی اے کے آخری سال میں وہ لدھیانہ سے لاہور منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر چنے گئے۔ ساحرؔ کا اولین مجموعۂ کلام ’تلخیاں ‘ زمانۂ طالب علمی ہی میں شائع ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ سے ایک اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعر کی حیثیت سے ادبی دُنیا میں ان کی شناخت قائم ہوچکی تھی۔ ان کا یہ مجموعہ اتنا مقبول ہوا کہ اسے ’دیوانِ غالبؔ‘ کے بعد اردو شاعری میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرار دیا جاتا ہے۔ اس مجموعے کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے پہلے ہی صفحے پر ساحرؔ کا یہ شعر درج ہے۔

دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

 اِس ایک شعر ہی سے ساحرؔ کی شاعری کے رنگ وآہنگ کا پتہ چل جاتا ہے۔ اِس سے پہلے اور نہ بعد میں کسی اردو شاعر کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ اتنی کم عمر میں اتنی بڑی تعداد میں کسی کا کوئی شعری مجموعہ فروخت ہوا ہو۔ جن دنوں وہ دیال سنگھ کالج میں زیرتعلیم تھے، لاہور میں مکتبہ اردو والوں کے رسالے ’ادب لطیف‘ میں ۴۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ پر ایڈیٹر بھی مقرر ہو گئے۔ لاہور ہی میں ساحرؔ کو رسالہ ’سویرا‘ اور ’شاہکار‘ کی ادارت کے مواقع بھی ملے۔ اُس وقت تک پنجابی کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پریتم کی شادی ہو چکی تھی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو، لاہور میں انائونسر تھیں۔ لاہور سے پہلے ساحرؔ کی ایک ملاقات امرتا پریتم سے امرتسر کے قریب پریت نگر کے ایک ادبی سالانہ جلسے میں ہو چکی تھی۔ لاہور میں امرتا اور ساحرؔ کی دوستی ادبی حلقوں میں کافی گفتگو کا موضوع بنی رہی۔ خود امرتا پریتم نے اپنی سوانح ’رسیدی ٹکٹ‘ میں ساحرؔ سے اپنی دوستی کے واقعات بے باکی کے ساتھ تحریر کئے ہیں۔

 ۱۹۸۲ء سے۱۹۸۸ء کے درمیان، مَیں جب ’اسٹار پبلی کیشنز‘ کے فلمی ماہنامہ ’مووی اسٹار‘ میں مدیر تھا، تو بارہا امرتا پریتم کے یہاں میرا جانا ہوا۔ ان دنوں جب بھی میں امرتا پریتم کے گھر گیا، میں نے چاروں طرف، وہاں کے درودیوار پر، ڈرائنگ روم میں اور اِمروز کی پینٹنگ میں، وہاں کی سجاوٹ اور فرنیچر میں، غرض ہر جگہ ساحرؔ کی موجودگی کو محسوس کیا ہے۔ ایک بار جب میں نے امرتا سے یادگار کے طور پر آٹوگراف کی فرمائش کی تو انہوں نے پنجابی زبان میں لکھا۔

’’پرچھائیوں کے پیچھے بھاگنے والو! سینے میں جو آگ سلگتی ہے، اس کی کوئی پرچھائی نہیں ہوتی۔ ‘‘

 بہرحال، یہاں میرا مقصد امرتا پریتم اور ساحرؔ کی دوستی کی تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ساحرؔ لدھیانہ آگئے اور پھر جنوری۱۹۴۶ء میں بمبئی چلے گئے۔ ہندوستان کی آزادی کے نتیجے میں جو فرقہ وارانہ آگ پھیلی، اس میں ساحرؔ بھی جھلسے کیونکہ ان کی ماں سردار بیگم فسادات میں کہیں کھو گئیں۔ ساحرؔ بمبئی چھوڑکر اپنے دوست حمید اختر کے ساتھ لاہور گئے اور کافی جدوجہد کے بعد ماں کو تلاش کر لیا۔ ستمبر۱۹۴۷ء میں جب ساحرؔ دوبارہ لاہور گئے تو تقسیم ہند کے نتیجے میں امرتا پریتم اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ ہندوستان آچکی تھیں۔ ساحرؔ بھی جون۱۹۴۸ء میں لاہور سے دہلی منتقل ہوگئے اور تقریباً ایک سال تک دہلی میں رہے۔ دہلی میں ساحرؔ لدھیانوی حالیؔ پبلشنگ ہائوس سے وابستہ ہو گئے اور یہیں سے انہوں نے ماہنامہ ’شاہراہ‘ کا اجراء کیا۔

 ۱۹۴۹ء میں ساحرؔ جب دُوسری بار بمبئی گئے تو وہاں ہندوستانی کلامندر کی فلم ’آزادی کی راہ پر‘ کیلئے گانے لکھوانے کی غرض سے فلمساز کلونت رائے نے ساحرؔ کو بلوایا تھا۔ اس فلم کے ۴؍ گانے ساحرؔ نے لکھے تھے۔ پہلے گانے کے بول تھے ’’بدل رہی ہے زندگی‘‘ مگر ان گانوں کو زیادہ مقبولیت نہیں ملی۔ ۱۹۵۰ء میں ساحرؔ نے مستقل طور پر دہلی کو الوداع کہہ کر بمبئی میں سکونت اختیار کر لی اور نغمہ نگاری پر پوری توجہ لگادی۔ ۱۹۴۹ء کے بعد فلمی زندگی کی مصروفیات نے ساحرؔ کو اِس طرح گھیر لیا کہ تخلیقی شاعری کیلئے وقت نکالنا اُن کیلئے مشکل ہو گیا۔ اس کی تلافی انہوں نے اس طرح کی کہ فلمی گیتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا لیا اور فلموں کیلئے انہوں نے جو گیت اور غزلیں لکھیں، ان میں اپنے سیاسی اور سماجی تصورات کے اظہار کی بھی گنجائش نکال لی۔

 ۱۹۵۸ء میں ساحرؔ نے فلمساز رمیش سہگل کی فلم ’پھر صبح ہوگی‘ کے نغمے لکھے۔ یہ فلم عالمی شہرت یافتہ ناول نگار دوستوسکی کے مشہور زمانہ ناول ’کرائم اینڈ پنش مینٹ‘ کے مرکزی خیال پر بنائی گئی تھی۔ راج کپور کے پسندیدہ میوزک ڈائریکٹر شنکر جے کشن اس فلم کا میوزک تیار کرنے والے تھے مگر ساحرؔ نے کہا کہ اس فلم کا میوزک وہی بنائے گا جس نے مذکورہ ناول پڑھا ہوگا۔ تب موسیقار خیام کو اس فلم کی موسیقی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس طرح انہوں نے ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘ کی دھن تیار کی۔ اس کے بعد کئی فلموں میں ساحر ؔ لدھیانوی کے نغموں کو خیام نے اپنی دھنوں سے سجایا۔ انہیں فلموں میں ’کبھی کبھی‘ بھی ایک اہم فلم ہے۔ (جاری )

8 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sahir-ludhianvi-urdu-language-cinema-part-1/d/133972

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..