New Age Islam
Thu Jun 19 2025, 07:14 PM

Urdu Section ( 20 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sahir Ludhianvi: Enriching the Film Industry with Memorable and Beautiful Qawwalis-Concluding Part ساحر لدھیانوی نے فلم انڈسٹری کو یاد گار اور خوبصورت قوالیوں سے مالا مال کیا ہے

انیس امروہوی

(آخری قسط )

15دسمبر،2024

ساحرؔ نے نہ صرف یہ کہ اپنی شاعری کے معیار کو گرنے نہیں دیا بلکہ فلمی شاعری کے معیار کو بھی بلند کیا اور اُس بدذوقی کی روک تھام کی جسے فلم بینوں پر مسلط کیا جا رہا تھا۔ فلمی دُنیا سے وابستہ ہونے کے بعد اگرچہ ان کی شعر گوئی کی رفتار نسبتاً کم ہو گئی لیکن شاعر کی حیثیت سے ان کی مقبولیت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بہت کم ادیبوں اور شاعروں کو ان کی زندگی میں اتنی شہرت اور عزت حاصل ہوتی ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں ساحر ؔ کافیخوش قسمت رہے۔

 ساحرنے اپنی شاعری میں جہاں عورت کی عزت واحترام کی حمایت کی ہے، وہیں اپنے نغموں میں بھی وہ عورت پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف کھل کر آواز اُٹھاتے ہیں۔ فلم ’پیاسا‘ کا نغمہ ’’یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے‘‘ اور فلم ’سادھنا‘ کا نغمہ ’’عورت نے جنم دیا مردوں کو‘‘ اور فلم ’انصاف کا ترازو‘ میں ساحرؔ کا لکھا گیت ’’لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں ‘‘ اس بات کے شاہد ہیں۔ وہ زندگی بھر جنگ وجدل کے مخالف رہے۔ وہ جانتے تھے کہ سیاستداں اکثر اپنے سیاسی مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا دیتے ہیں۔ درحقیقت وہ قاتل اور لٹیرے ہیں، وہ انسانی جان کی قیمت نہیں جانتے۔

 ساحرؔ کی ایک مشہور نظم ’چکلے‘ سننے کے بعد اُس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ حالانکہ یہ نظم ساحرؔ کے لاہور کے زمانے کی ہے مگر آزادی کے بعد یہ نظم فلم ’پیاسا‘ میں شامل ہوئی تو پورے برصغیر میں دھوم مچ گئی۔ اکثر مشاعروں میں لوگ ساحرؔ سے فرمائش کرکے یہ نظم سنا کرتے تھے۔

 ساحرؔ شروع ہی سے انجمن ترقی پسند مصنّفین سے وابستہ ہو گئے تھے مگران کی انقلابی اور سیاسی شاعری حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور نعرہ بازی سے پاک ہے۔ انہوں نے بے خوفی کے ساتھ دو ٹوک انداز میں اپنے خیالات اپنی شاعری کے ذریعہ پیش کر دئیے ہیں۔ ان کی شاعری محض زُلف و رُخسار کی آئینہ دار نہیں بلکہ پُرخیال ہے اور وہ انسان کو ذہنی خوراک مہیا کراتی ہے۔ اس کے دل ودماغ میں نئی نئی فکر کے بیج بوتی ہے، نئے نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔ وہ یقیناً ساحرؔ کی روح کی آواز ہے۔ ساحرؔ کی مقبول نظموں میں ’تاج محل‘ کو اتنا پسند کیا جاتا تھا کہ جب کسی مشاعرے میں ساحرؔ مائک پر آتے تو لوگ ’تاج محل تاج محل‘ کہہ کر چلّانے لگتے تھے۔ ساحرؔ تنہا ایسے شاعر ہیں جنہوں نے صدیوں سے محبت کی عظیم اور لاثانی یادگار مانے جانے والے ’تاج محل‘ کے سائے میں اپنے محبوب سے ملنے سے انکار کر دیا اور تاج محل کے بارے میں ایک بالکل نیا اور اچھوتا نظریہ عوام کے سامنے پیش کیا۔

 ساحرؔ اور مجروحؔ سے پہلے فلمی نغمہ نگاری میں ٹھیٹ ادبی قسم کی لفظیات اور ادبی نظموں کے استعمال کی قطعی گنجائش نہیں تھی لیکن ساحرؔ نے اپنی تمام ادبی نظموں کو فلموں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا کہ وہ فلم کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔ فلم ’لیلیٰ مجنوں ‘ کے ایک نغمے کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں۔

بہت رنجور ہے یہ، غموں سے چور ہے یہ

خدا کا خوف کھائو، بہت مجبور ہے یہ

  اس بند میں لفظ ’رنجور‘ ساحرؔ جیسا نغمہ نگار ہی استعمال کر سکتا ہے۔ ساحرؔ اپنی زندگی میں ایک چیلنج تھے ہمارے روایتی شاعروں اور ہماری روایتی شاعری کیلئے۔ انہوں نے اپنا قلم اُٹھایا تو ماضی کی عشقیہ شاعری کوپسینہ آگیا۔ معاشرے کی فرسودہ روایات کی دھجیاں بکھر گئیں۔ ساحرؔ نے اردو شاعری میں ایک نئے دَور کا آغاز کیا۔ انہوں نے خواص کے بجائے عوام کیلئے انقلابی شاعری کے دروازے کھول دئیے اور اپنی شاعری کو عوامی رنگ میں پیش کیا۔ موجودہ زندگی کے مسائل اور استحصال کو جتنے خوبصورت اور سہل انداز میں ساحرؔ نے پیش کیا ہے، کوئی دُوسرا شاعر پیش نہیں کر سکا۔

 ساحرؔ لدھیانوی کو فلمی قوالی لکھنے میں ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے اب تک کی سب سے بہترین قوالیاں فلموں کو پیش کی ہیں۔ یاد کیجئے فلم ’وقت‘ کی وہ قوالی، جب بلراج ساہنی اپنی ہی بیگم کی تعریف یوں کرتے ہیں :

اے میری زہرا جبیں، تجھے معلوم نہیں

تو ابھی تک ہے حسیں اور میں جواں

 فلمی قوالیوں میں ساحرؔ کی لکھی ایک قوالی ابھی بھی میل کا پتھر بنی ہوئی ہے اور آج بھی فنِ قوالی کی لاج بنائے ہوئے ہے۔ فلم ’برسات کی رات‘ کی محمد رفیع وغیرہ کی آواز میں گائی ہوئی یہ قوالی:

نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو ہمسفر کی تلاش ہے

میرے شوقِ خانہ خراب کو، تیری رہ گزر کی تلاش ہے

 فلم ’دھرم پُتر‘ میں ہندوستانی قومی اتحاد کو اُجاگر کرتی ہوئی ساحرؔ کی لکھی یہ قوالی بھی لوگ آج تک بھول نہیں پائے ہیں :

یہ مسجد ہے وہ بُت خانہ چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو

مقصد تو ہے دل کو سمجھانا چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو

 فلم’سادھنا‘ میں ساحرؔ لدھیانوی کی لکھی یہ قوالی آج بھی اُسی طرح مقبول ہے:

آج کیوں ہم سے پردہ ہے

 اور فلم’تاج محل‘ کی یہ قوالی بھی ساحرؔ کی پہچان بنی ہوئی ہے اور ابھی تک اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے:

چاندی کا بدن سونے کی نظر

اُس پر یہ نزاکت کیا کہیے

 اور ’لیلیٰ مجنوں ‘ کی یہ قوالی بھی ساحرؔ ہی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے:

میں تیرے در پہ آیا ہوں

 فلم’بہو بیگم کی قوالی ’’ایسے میں تجھ کو ڈھونڈ کے لائوں کہاں سے میں ‘‘ بھی ساحرؔ کی لکھی ہوئی مقبول قوالیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی موسیقی روشن نے ترتیب دی تھی۔

 اسی طرح راج کپور اور نوتن کی فلم ’دل ہی تو ہے‘ میں ساحرؔ لدھیانوی کی لکھی ہوئی ایک قوالی ’’نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے‘‘ بے حد مقبول کہی جا سکتی ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر بی ایل رویل اور ہدایتکار پی ایل سنتوشی تھے۔ موسیقار روشن کی دُھنوں سے سجی اس قوالی میں عید کے موقع کیلئے ایک بند اس طرح کہا گیا ہے:

جس گھڑی میری نگاہوں کو تیری دید ہوئی

وہ گھڑی میرے لیے عیش کی تمہید ہوئی

جب کبھی میں نے ترا چاند سا چہرہ دیکھا

عید ہو یا کہ نہ ہو، میرے لیے عید ہوئی

 اس قوالی میں ساحرؔ نے جس طرح اس بند میں ’تمہید‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، اسی طرح ایک اور بند میں ’اوجھل‘ اور تہمت‘ کے الفاظ اس طرح استعمال کیے ہیں :

وہ تہمت جسےعشق کہتی ہے دُنیا

وہ تہمت اُٹھانے کو جی چاہتا ہے

وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی

وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے

 اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ساحرؔ کے بے شمار فلمی نغموں میں اُردو کے ایسے مشکل الفاظ مل جاتے ہیں جو فلمی نغموں میں بہت کم مستعمل ہیں، مگر ساحرؔ نے انہیں بہت خوبصورتی سے اپنے فلمی نغموں میں استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’تیر و تفنگ، تہمت، اوجھل، تمہید، غرور، جرمِ اُلفت، قضا کے رستے، ترکِ وفا، جنگ وجدال، فتح و ظفر، ملکیت، کبر وغرور، زنگ، عرش، رنجور، ہدایت کی روشنی، میزان، ناگاہ، بشر، جینے کا شعور اورمرنے کا سلیقہ‘ وغیرہ۔

 مشہور گلوکارہ سدھا ملہوترہ جب فلم انڈسٹری میں اپنی پہچان بنا نے کیلئے جد و جہد کر رہی تھیں توساحرؔ نے اُن کو کئی فلموں میں پروموٹ کیا۔ اس کی وجہ سے ان دونوں کے معاشقے کے قصے بھی فلمی گلیاروں سے ہوتے ہوئے فلمی رسالوں تک پہنچنے اور پھیلنے لگے۔ حالانکہ ہمیشہ کی طرح ساحرؔ اس بار بھی خاموش رہے۔ اس کہانی پر وقفہ اُس وقت لگا جب سدھا کی منگنی نیوی کے کسی کمانڈر سے ہو گئی۔ انہیں دنوں ساحرؔ کے دوستوں اور مداحوں نے ’ایک شام ساحرؔ کے نام‘ ایک محفل کا انعقاد کیا۔ اس واقعے کو ابراہیم جلیس نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کیا ہے:

 ’’ یہ شام کسی عالیشان بنگلے کے ٹیرس پر منائی گئی۔ ان کے دوستوں نے وہاں اظہار خیال کیا، موسیقاروں اور گلوکاروں نے ساحرؔ کے مشہور گیت گائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود سدھا ملہوترہ نے ساحر کے گیت گائے۔ پروگرام کے آخر میں، ساحرؔ نے اپنی نئی اور مشہور نظم ’خوبصورت موڑ‘ سنائی‘‘:

چلو، اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دل نوازی کی

نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے

نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں میں

نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اُسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

 اُس شام کی روداد بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ساحرؔ کی اِس نظم نے وہاں موجود ہر شخص کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا اور ماحول پر ایک پُرکیف سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ ہر نفس جذباتی تھا اور خاموش بھی۔ سُدھا ملہوترہ اپنے آنسوئوں اور جذبات کو روکنے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھیں اور کچھ کہے سنے بغیر، چپ چاپ فلیٹ کی سیڑھیوں سے اُترکر اپنی کار میں جا بیٹھیں۔ دُوسری طرف ساحرؔ بھی بے قراری اور بے بسی کی کیفیت میں اپنی جگہ سے اُٹھے اور پلٹ کر کسی کی طرف دیکھے بغیر ہی سیڑھیاں اُتر گئے۔ سڑک پر سُدھا اپنی کار میں اور ساحرؔ اپنی کار میں بیٹھ کر دو مختلف سمتوں کی جانب روانہ ہو گئے۔ سارے ماحول اور تمام محفل کو اجنبی بناکر دونوں اپنی اپنی منزلوں کی جانب چلے گئے اور پھر کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔ بعد میں اِس نظم کو فلم ’گمراہ‘ میں سنیل دت، اشوک کمار اور مالا سنہا پر بڑی خوبصورتی سے فلمایا گیا۔

 اپنی طرز کا یہ واحد اور مقبول ترین شاعر ۲۵؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کو سانجھ ڈھلے ۵۷؍برس کی قیدِ حیات سے نجات پاکر اور اپنے الفاظ کا جادو پوری آب وتاب کے ساتھ لوگوں کے دل ودماغ پر چلتا ہوا چھوڑ کر چُپ چاپ گہری اور ابدی نیند سو گیا۔

15 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

Part-1: Sahir Ludhianvi Played a Pivotal Role in Bringing Urdu Language to the Masses and Elites Through Cinema-Part-1 ساحرلدھیانوی نے فلموں کے ذریعہ اُردو زبان کوعوام و خواص تک پہنچانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sahir-ludhianvi-film-industry-qawwalis-concluding-par/d/134078

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..