ساحل محبوبی
27 فروری، 2013
حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ انتہائی پاک باز ، تقویٰ کی شان، سوختہ عشق الہٰی ، مقربِ بار گاہ الہٰی ، مستورات کی مخدومہ اور زہدو تقویٰ میں مریم ثانی گذر ی ہیں۔
آپ کے والدین انتہائی کسمپرسی میں گذر بسر کرتے تھے جس کی وجہ سے بسا اوقات فاقوں کی نوبت رہا کرتی تھی ۔ روایتوں میں ہے کہ جس شب آپ کی ولادت با سعادت ہوئی اس وقت گھر میں نہ تو چراغ تھا اورنہ ہی آپ کے جسم پر ملنے کے لئے تیل ، اور نہ ہی اتنا کپڑا میسر تھا کہ آپ کو اس میں لپیٹا جاتا ۔ چو نکہ آپ کے والد گرامی یہ عہد کرچکے تھے کہ سوائے خدا کے کبھی بھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کروں گا لہٰذا اہلیہ کے کہنے کے باوجود آپ نے پڑوسیوں سے کچھ نہ مانگا ۔ اسی شب عالم رویاء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ آقائے علیہ السلام نے فرمایا کہ تیری یہ بچی مقبول خاص و عام ہوگی اور اس کی شفاعت سے میری امت کے ایک ہزار افراد بخش دیئے جائیں گے ۔ آقا علیہ السلام نے مزید فرمایا کہ اے شخص پریشان نہ ہوتو والئی بصرہ کے پاس کاغذ پر یہ تحریر لے کر جاؤ کہ تم ہر دن بار گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں 100 بار درود بھیجتے تھے ۔ اور ہر جمعہ کو چار سو بار لیکن ا س بار تم نے جمعہ کو درود نہیں بھیجا ہے ۔ لہٰذا بطور کفاّر ہ اس شخص کو چار سو دینار دے دو۔ صبح بیدار ہونے پر آپ بہت روئے اور ایک خط تحریر فرما کر والئی بصرہ کو پہنچا دیا۔ والئی بصرہ نے جوں ہی خط پڑھا آنکھوں سے زار و قطار آنسو نکل آئے کہ رحمت عالم، انیس بیکساں ،سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ ناچیز کو یاد فرمایا۔ فوراً یاد آوری کے شکرانے میں دس ہزار درہم فقراء میں تقسیم کروائے اور چار سو دینار حضرت رابعہ بصری رحمۃ للہ علیہ کے والد محترم کوبطور کفارہ ادا کیا اور خود بہ نفس نفیس آکر آپ سے ملاقات کی اور بڑے ہی احترام سےکہا کہ آپ کو جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے مجھے مطلع فرمادیں ۔ والد محترم نے اس چار سو دینار سے تمام ضروری اشیاء خریدیں۔
یہ کرامت آپ کی ولادت کے موقع پر ہوئی ۔ اس سے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ بار گاہِ خداوندی اور بارگاہِ رسالت مآب میں یکساں مقبول تھیں۔ آپ کے نام رابعہ کی وجہ تسمیہ ہے کہ آپ کی ولادت تین بہنوں کے بعد چوتھے نمبر پر ہوئی تھی اور عربی میں 4 کو ربع کہا جاتا ہے اس لئے آپ کا نام نامی رابعہ پڑ گیا۔
حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت پرکچھ ناقدین نے اعتراض کیا ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ‘‘ اللہ تعالیٰ صورت کے بجائے قلب کو دیکھتا ہے ’’۔ اس لئے روز محشر تمام محاسبہ صورت کے بجائے نیت پر ہوگا۔ لہٰذا ریاضت و عبادت کے معاملے میں جو عورت مردوں کے مماثل ہوا سے بھی متقی اور مقرب یوم حساب مَردوں کو پکارا جائے گا تو سب سے قبل حضرت مریم علیہ السلام آگے بڑھیں گی۔ حضرت بو علی فار مدی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ‘‘ ولایت میں مردوزن کا امتیاز نہیں ہے۔’’ چونکہ رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ با اختیار ریاضت و معرفت ممتاز زمانہ تھیں لہٰذا اہل حق و عرفان کو نظر میں انتہائی معتبر اور ذی عزت سمجھی جاتی تھیں۔ حضرت رابعہ رحمۃ اللہ علیہ کے احوال اہلِ معرفت کے لئے برہان قاطع کا درجہ رکھتے ہیں۔
حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ جب سنِ شعور کو پہنچیں تو والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور قحط سال کی وجہ سے مچی افراتفری کی وجہ سے تینوں بہنیں بھی بچھڑ گئیں انہیں حالات میں ایک ظالم نے آپ کو پکڑ لیا اور جبراً اپنی کنیز بنا کر سخت مشقت طلب کام لینا شروع کردیا۔ اس دوران آپ دن بھر روزہ رکھتیں اور رات بھر عبادت میں مصروف رہتیں۔ایک شب جب ظالم مالک کی آنکھ کھلی تو اس نے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ کو ایک گوشے میں سر بسجود پایا اور آسمان سے انوار کی بارش آپ کے سراپا دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے سنا کہ آپ فرمارہی ہیں کہ اے میرے پروردگار اگر میرے بس میں ہوتا تو ہمہ وقت تیری عبادت میں مصروف رہتی لیکن تو نے مجھے غیر کا محکوم بنایا ہے اس لئے میں معذور ہوں ۔ یہ سن کر آقا بہت پریشان ہوا۔ سوچا مجھے تو الٹا ان کی خدمت کرنی چاہئے اور میں ان سے خدمت لیتا ہوں ۔ لہٰذا صبح ہوتے ہی ہاتھ جوڑ کر آپ کے سامنے آیا او رکہا آپ آزاد ہیں۔ چاہیں تو یہیں قیام فرما کر مجھے موجب ثواب بنائیں یا پھر آپ کا جہاں جی چاہے تشریف لے جائیں۔ اس کے بعد آپ ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مشغول رہنے لگیں اور گاہے گاہے خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی محفلوں میں شریک ہونے لگیں۔ روایتوں میں ہے کہ آپ روز و شب میں تقریباً ہزار رکعتیں ادا کرتیں ۔ ہمہ وقت آپ کی زبان مصروف ذکر الہٰی رہنے لگی۔ مسلسل زہد و تقویٰ کی وجہ سے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ خاصان خدا میں شامل ہوگئیں ۔ ایک مرتبہ بوجہ تکان نماز ادا کرتے ہوئے نیند آگئی۔ اس دوران ایک چور آپ کے چادر اٹھاکر فرار ہونے لگا لیکن اُسے باہر نکلنے کا راستہ ہی نظر نہ آیا۔ البتہ جیسے ہی وہ چادر کھ دیتا راستہ نظر آجاتا لیکن لالچ نے اُسے اندھا بنا رکھا تھا۔ اس نے کئی بار یہی حرکت دہرائی اور راستہ نظر نہ آتا ۔ آخر اس نے ندائے غیبی سنی کہ خود کو کیوں آفت میں گرفتار کرتا ہے۔ اس لئے چادر والی نے برسوں سے خود کو ہمارے حوالے کردیا ہے اس وقت سے شیطان تک اس کے پاس نہیں پھٹ سکا پھر کسی دوسرے کی کیا مجال ہے جو چادر چوری کر سکے ۔ اگر ایک دوست محو خواب ہے تو کیا دوسرا تو بیدار ہے۔ ایک روز حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ دریائے فرات کے کنارے موجود تھیں۔ اسی اثناء میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بھی تشریف فرما ہوئے اور دریاکی موجوں پر مصلیٰ بچھا کر کہا ۔ آؤ ہم دونوں نماز ادا کریں۔ یہ دیکھ کر حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ہوا کہ دوش پر مصلیٰ بچھا کر کہا ، آئیے یہا ں نماز ادا کریں۔تاکہ مخلوق کے نگاہوں سے اوجھل رہیں ۔ پھر بطور دلجوئی فرمایا کہ جو کام آپ نے کیا وہ پانی کی معمولی سی مچھلیاں بھی کرسکتی ہیں اور جو میں نے کیا وہ ایک حقیر سی مکھی بھی کرسکتی ہے۔ لیکن حقیقت کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک بار حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رفقا ء کے ہمراہ شب میں حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں پہنچے ، وہاں روشنی نہیں تھی اور حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ کو روشنی کی حاجت ہوئی تو رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ نےکچھ پڑھ کر اپنی انگلیوں پر دم کیا تو وہاں ایسی روشنی ہوئی کہ پورے مکان میں ہر طرف نور پھیل گیا اور صبح تک وہ روشنی قائم رہی۔
ایک بار کسی محفل میں حضرت صالح عامری نے یہ فرمایا کہ جب مسلسل کسی کا دروازہ کھٹکھٹا یا جاتا ہے تو آخر وہ کھل ہی جاتا ہے یہ سن کر رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آخر وہ کب کھلے گا؟ کیونکہ وہ تو کبھی بند ہی نہیں ہوا۔ یہ سن کر صالح عامری کوآپ کی دانشمندی پر مسرت ہوئی اور اپنی کم علمی پر رنج۔ حضرت رابعہ رحمۃ اللہ علیہ اکثر فرمایا کرتیں کہ صرف زبانی تو بہ کرنا جھوٹوں کا فعل ہے۔ کیونکہ اگر سچی توبہ کرلی جائے تو پھر دوبارہ توبہ کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔فرمایا کہ معرفت توجہ الی اللہ کا نام ہے اور عارف کی پہچان یہ ہے کہ وہ خدا سے پاکیزہ قلب طلب کرے اور جب عطا ہوجائے تو پھر قلب کو اس وقت خدا کے حوالے کردے تاکہ حجا باتِ حفاظت میں محفوظ رہ کر مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے ۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے سر درد کی وجہ سے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا سر میں بہت درد ہے! آپ نے پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا تیس سال؟ آپ نے فرمایا کہ تونے تیس سالہ عرصے میں کبھی صحت مندی کے شکرانے کی پٹی نہیں باندھی اور ایک روز کی بیماری کی شکایت میں پٹی باندھ لی۔ اولیا ئے کاملین میں آپ کامرتبہ بہت بڑا ہے۔ وقت رحلت آپ کی مجلس میں بہت سے مشائخین اور علماء موجود تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ آپ حضرات ہٹ جائیں اور ملائکہ کے لئے راستہ چھوڑدیں ۔ چنانچہ سبھی وہاں سے اٹھ گئے اور دروازہ بند کردیا۔ اس کے بعد اندر سے یہ آواز سنائی دی ۔ اے مطمئن نفس اپنے مولا کی جانب لوٹ چل ۔ پھر آواز آنا بند ہوگئی ۔ لوگوں نے اندر جاکر دیکھا تو آپ واصل بہ حق ہوچکی تھیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
27 فروری ، 2013 بشکریہ : روز نامہ اردو ٹائمز ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/rabiah-basri-model-pious-women/d/11048