صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی
جس طرح فصل بونے کے لئے زمین کی تیاری ضروری ہوتی ہے اسی طرح اسلامی انقلاب کے لئے فضا کی ساز گاری اور ناساز گاری کا جائزہ بھی لازمی ہوتاہے، انقلاب کوئی خود رو پودا نہیں کہ اپنے آپ اُگ آئے اور پھر خود ہی سڑ سوکھ جائے اس کے بنیادی لوازم پورے کئےبغیر اس کی آرزو ‘‘آرزوئے خام ’’ اور ‘‘جستجو نا تمام ’’ کا درجہ رکھتی ہے۔
بنائے بریں جب مقتدر طبقہ اور عوام اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے؟ اسے برقرار رکھ کر انقلاب کس حد تک بار آور ہوگا؟ اور اس کے کون کون سے گوشے اصلاح کے متقاضی ہیں اور یا پھر پورے کا پورا ڈھانچہ بدل دینے کے لائق ہے؟ اس سوالات کا جواب ڈھونڈے بغیر اسلامی انقلاب کی آرزو رکھنا ریت میں مچھلیاں پکڑنے کےمترادف ہے۔ چنانچہ اس دو حرفی تمہید کے بعد ہم اپنے ملک کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی ڈھانچے کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ فضا کی ہمواری اور نا ہمواری کا صحیح اندازہ ہوسکے اور پہلا قدم ہی صحیح سمت میں اٹھ سکے منزل تو ذرا بعد کی بات ہے۔
سیاسی ڈھانچہ :
ملک کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ قطعاً غیر اطمینان بخش اور نو آبادیاتی عہد کا چربہ اور عہد غلامی کا نشان بد ہے اس کےلئے اوپری سطح کی لیپا پوتی اور معمولی اصلاح و مرمت نا کافی ہے بلکہ اسے از سر نو اسلامی انقلابی خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے یہ وہ جو ہڑ ہے جس کی ایک ایک بوند غلیظ اور متعفن ہے نل اور ٹونٹیاں صاف کرنے کی نہیں اس جوہڑ کو سرے سےبند کرنا ہی اس ملک کے ساتھ اصل خیر خواہی ہے۔ موجودہ سیاسی ڈھانچے کی خرابیاں ایسی ہیں جو وقتی اصلاح کےبجائے بڑے آپریشن کی متضاضی ہیں، موجودہ فریم ورک بنیادی طور پر انگریزی استعمار نے اپنے مکر وہ مقاصد اور سامراجی مفادات کے لیے تیار کیا اور اس مشین میں صرف وہی پرزے فٹ کئے گئے جو انگریز کومطلوب تھے اور اب بھی وہی کل پرزے فٹ ہیں او رہوسکتے ہیں جو ذہن ، فکر، سوچ ، مفاد اور مزاج کے لحاظ سے نظام حاضر کے لئے مناسب ہیں ۔
انگریز نے اس ڈھانچے کو تین بنیادوں پر استوار کیا، فوجی قوت، جاگیر داری اور افسر شاہی، فوجی قوت کے ذریعے انگریز نے اس علاقے کو غلام بنایا، جاگیرداری نے وسائل فراہم کئے اور بیورو کریسی نے خالص تابعداری اور چاپلوسی کامظاہرہ کرکے اپنی شیطانی ذہانت سے اس ڈھانچے کو قائم رکھا آج بھی اصل طاقت فوج کے پاس ہے ،جاگیر دار ہر عہد میں حکومت کے دستر خوان کا بن بلایا مہمان رہا اور افسر شاہی نے اس سلسلے کو باقاعدہ سسٹم کی شکل دے رکھی ہے،
طاقت کا مطلب ہی اقتدار ہے جس طرح خوشبو کے بغیر پھول اور تپش کے بغیر آگ کا کوئی تصور نہیں اسی طرح طاقت اقتدار اور حکومت کے سوا کیا ہے؟ طاقت کی نفسیات اور فلاسفی ہی یہ ہے کہ دوسرے اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں ، ہر ایک محکوم ہو، سبھی مجبور ہوں اور سب کے ہاتھ میں کاسۂ خیرات ہو او رہمارے ملک میں سب سے منظّم تربیت یافتہ اور طاقتور ادارہ فوج ہے جس کے اہدات و مقاصد سے لے کر بوٹ کے تسمے تک میں نوآبادیاتی نظام کی جھلک نمایاں ہے۔
جاگیرداری نظام ویسے تو دور ملوکیت میں بھی تھا نوہزاری کے باقاعدہ مناصب تھے، مگر انگریز نے کمال چابکدستی اور ماڈرن طریقے سےاسے ایک ایسے نظام کی شکل دے دی ہے جس نے پوری سوسائٹی کو اپنی گرفت میں لے کر کچھ اس بری طرح لتاڑا اور پچھاڑ ا ہے کہ ہماری سوسائٹی کی صالح سوچ، روشن تہذیب اور انصاف پرورروش بے سدھ اور ادھ موئی ہوکر وہ گئی ہے، انگریز چونکہ بد یشی تھا اس کے لئے ایسے جابرانہ نظام اور فرعونی وقارونی طریق کار کی اشد ضرورت تھی سو اس نے یہاں کے جذبات کے مقابلہ میں اپنی ضروریات کو پورا کیا اور ایک پوری قوم کو کامل سو برس اپنی ہمہ جہت غلامی کی زنجیر میں کس کر رکھا لیکن وہ ڈائن تو چلی گئی البتہ اپنے دانت چھوڑ کر گئی ہے جو ہمارے جسدِ ملی میں گڑے ہوئے ہیں جس کے قبیح اثرات سے اب نہ دیہہ محفوظ ہے اور نہ شہر۔
رہی بیورو کریسی تو اس کی ساخت ہی ایسی ہے جس کا دین دھرم اور نظریہ مقصد کچھ بھی نہیں او رکچھ ہے تو محض ‘‘زبردست’’ کی اطاعت اور ‘‘زیر دست’’ کی حجامت ہے، جس کی نگاہ کا اولین و آخرین مح نظر صرف آسائش ، زیبائش ، اور ‘‘ کھلائش پلائش ’’ ہے۔ وہ اپنی عافیت چاہتی ہے خواہ انگریز کی حکومت ہو یا سکھا شاہی، یا کسی اور کی، اس تثلیث اور تگڑم نے مل کر پوری قوم کے دماغ کو معطل ،ضمیر کو قیدی اور فکر کو ماؤف کر رکھا ہے ، کہاں کا اصول؟ کہاں کا ضابطہ ؟ اصول و ضوابط ان تین کو چھوڑ کر باقی ساری قوم کے لئے چکی کے مانند ہیں جس میں برابر عوام کو پیسا جارہا ہے اور چکی بھی ایسی جو فرضی ضابطوں اور مہمل فائلوں کے بوجھ سےآہستہ چلتی مگر باریک پیستی ہے،پاکستان جسے اسلامی انقلاب کا گہوارہ بننا تھا موجودہ بدبودار سیاسی نظام کے باعث مسائل و مشکلات کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے ، اس وقت کسی جوڑ توڑ ،خرید و فروخت اور حیلے بہانے سے انتقال اقتدار کی نہیں دراصل تبدیلی نظام کی ضرورت ہے ، جب کہ آج تک محض چہرے بدلنے کی مشق ہوتی رہی ہے اور ہر چہرہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بھیانک ہوتا ہے اہل نظر تو شروع سے اور پوری قوم اب ان چہروں سے اکتائی نظر آتی ہے لگتاہے کہ بہت جلد فک کل نظام کانعرہ بلند ہوگا اور انگریز کے بخشے ہوئے اس سیاسی نظام کا تابوت ہمیشہ کے لئے عبرت اور فراموش کی گہرائیوں میں دفن کردیا جائے گا۔
ظاہر ہے جو ملک اور معاشرہ داخلی طور پر اپنے نظام فکر و عمل کے اعتبار سے مضبوط اور مربوط نہیں ہوگا وہ اقوال عالم میں کبھی اپنا تشخص واضح اور مستحکم نہیں کرسکے گا کچھ ایسی ہی کیفیت سےوطن عزیز دو چار ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کرنے کے مجاز نہیں بلکہ فیصلے کہیں او رہوتےہیں اور ان پر عملدر آمد کےلئے ہماری حکومتیں آمادہ و مستعد رہتی ہیں، آج اہل وطن کو جو اپنے معاشرے میں کج روی ، ایک دوسرے سے بیگانگی حتیٰ کہ ملک سے شکوہ شکایت او رمسائل و حالات سے آنکھیں چرانے کی عادت اور نفسانفسی کی کیفیت نظر آتی ہے وہ اس مکر وہ سیاسی نظام کا فطری نتیجہ ہے جہاں ہر شخص اپنا اعتبار کھو بیٹھا ہو وہ کسی دوسرے پرکیا اعتماد کرے گا؟۔
جب تک ملک کا سیاسی ڈھانچہ تبدیل نہ ہو اس وقت تک نہ تعلیم کوئی اثر دکھاسکے گی ، نہ اخلاقی وعظ اور خطبے کچھ کریں گے، نہ کمیٹیاں اور کمیشن اصلاح کریں گے او رنہ ہی ہر چند سال بعد الیکشن اس قوم کی تقدیر سنوار سکیں گے ، کیونکہ روح نہ ہو تو جسم اپنے تمام اعضاء کی درستی کے باوجود حرکت سے عاری ہوتا ہے اسی طرح تعلیم، اخلاقیات، کمیٹیاں ، کمیشن اور الیکشن ایک باقاعدہ اور صالح نظام کے تحت ہی بارآور ثابت ہوسکتے ہیں جہاں کوئی مستحکم سیاسی نظام نہ ہو وہاں یہ سب کچھ بیکار اور عبث ٹھہر ے گا۔
آج کے دن تک وطن عزیز میں قائم ہونے والی حکومتیں کسی سیاسی نظام ، کسی متعین اصول، کسی اخلاقی جواز اور کسی بھی فکری تحریک اورنظریاتی پس منظر کے حوالے سےنہ قائم ہوئی ہیں او رنہ انہوں نے کسی اچھی اور قابل رشک روایت کو مستحکم تو کیا؟ جنم بھی نہیں دیا بلکہ ‘‘ایڈہاک ازم’’ کا فلسفہ ہی کار فرمارہا کہ کسی طرح وقت بسر ہوتا رہے ، سو ایسا ہوتا رہا اور ہماری جڑیں ہل کر رہ گئیں۔
المختصر پاکستان کے مسائل کا واحد اور بھر پور حل عوام کامعتمد علیہ ‘‘اسلامی انقلاب ’’ ہے جہاں طاقت کا سر چشمہ فوج نہ ہو بلکہ قانون الہٰی ہو، جس کی زد میں بڑے بڑوں کی گردنیں بھی ہوں، جہاں اقتدار چند جرنیلوں ، افسروں، جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے پاس نہ ہو بلکہ ملک کی اکثریتی آبادی یعنی مقہود و مجبور عوام کے ہاتھ میں ہو، ان کا پنجہ ہو اورحکمرانوں کی گردن ، جب او رجہاں قاتلوں الہٰی اور سوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں دیکھیں ان کا ٹینٹوا دبا کر عبرت کدوں کی نذر کردیں جہاں پہلے کئی فرعون ، قارون، شد اد اور ہامان کراہ رہے ہیں اور تاریخ تماشہ دیکھ رہی ہے۔
جہاں دھن کے مقابلہ میں ذہن کو با لا دستی حاصل ہو، جہاں ‘‘اپروچ ’’ کے مقابلے میں سوچ پروان چڑھے جہاں چند سری حکومت کے بجائے کروڑوں انسان مل جل کر اپنادکھ سکھ بانٹیں ، موجودہ سیاسی نظام کسی عملی و فکری اور پائیدار پالیسی کی بنیاد پر استوار نہیں اس کے عناصر ترکیبی میں بیرونی قرضہ جات، استحصال ، دھونس ، بے اصولی، دفع الوقتی اور فریب کاری وغیرہ ہیں ، جو ان فنون میں جتنا زیادہ باہر ہے وہی بڑا سیاست کار اور کامیاب حکمران ہے۔
مذہبی ڈھانچہ:
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مذہب دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اور دین اسلام کائنات کی سب سے بڑی سچی حقیقت اور عظیم انقلابی قوت ہے ، انسانی تمدن کی تاریخ دراصل مذہبی تاریخ ہے سب سے پہلا انسان مذہبی تھا اور آخر ی انسان بھی مذہبی ہوگا سب نقوش دھند لا جائیں گے لیکن مذہب کے اثرات کبھی زائل نہ ہوں گے جس طرح انسان کو فطرت و دیعت کی گئی ہے اسی طرح فطرت انسانی کو مذہب و دیعت کیا گیا ہے نہ انسان کو اپنی فطرت سے مفر ہے او رنہ ہی وہ مذہب سے بے نیاز ہوسکتا ہے ، دور حاضر کی مذہب کے خلاف مصنوعی کشمکش اور اس کے تجا ہل عارفانہ ہنگامی اور وقتی ہے بہت جلد غبار کی طرح بیٹھ جائے گا۔
نیز یہ امر واقعہ بھی اپنے دامن میں مضبوط تاریخی ، تمدنی اور تہذیبی دلائل رکھتا ہے کہ دین اسلام نے پہلے نبی سے لے کر پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر موقع پر انسانیت کی رہنمائی کی ہے اور قیامت تک اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پوری انسانیت کو تمیز رنگ و نسل سے قطع نظر اپنے جلو میں لے کر چل سکتا ہے اور ‘‘آدم محض ’’ کو ‘‘ انسان کامل’’ کی رفیع و عظیم منزل تک پہنچا سکتا ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ حالات کی کروٹ او رزمانے کی گردش کےساتھ ساتھ اسلام کو ‘‘ دین انقلاب’’ کےبجائے ‘‘مذہب ثواب ’’ کا درجہ ملتا گیا اس تبدیلی معکوس میں سب سے زیادہ دخل جعت پسند حکمرانوں کا تھا مگر بندگان زر وسیم مذہبی تاجروں کا کردار بھی کچھ کم نہیں جو بادشاہوں کے دامن سے لٹکے ہوئے اور جذبات حرص و جاہ کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے، رفتہ رفتہ یہ اغراض باقاعدہ ٹولے اور گروہ بنتےگئے ،اور دین کے نام پر غلبہ و تسلط کی مہم چل نکلی جس کے نیتجے میں حق پرست، علماء اور مشائخ اپوزیشن میں او رموقع پرست اور سرکار نواز علمبردار ان مذہب ‘‘شیخ الاسلام’’ بن کر حکومتی مجلسوں کی رونق بن گئے،اور سرکاری پروپیگنڈہ مشینری انہیں کیا سے کیا بنا دیتی ہے،تاریخ اسلام کے نازک موقع پر ایسی مذہبی ذہنیت نے محض ‘‘تاج و کلاہ’’ سے وفاداری کے مظاہرے میں پوری ملت کو نقصان پہنچا یا ، حکمرانوں کے لئے مذہبی گروہ بندی اس سے کہیں بڑھ کر سود مند ہوئی ہے جتنی کہ فصل کےلئے کھاد اور اسپرے، کیونکہ حکمرانوں کو اس طرح مذہبی مورچہ مل جاتا ہے جس میں وہ خود محفوظ ہوجاتے اور فرقہ پرست تو پچیوں کو آگے کردیتے ہیں جو ہر اہل حق اور انقلابی کو اپنانشانہ بناتےرہتے ہیں بد قسمتی سے اس رسمی گروہی او ربرائے نام مذہبیت کا وافر حصہ بر صغیر پاک و ہند کے حصے میں آیا ہے جس کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں ۔
پاکستان میں دین بس فرقے کا نام بن کر رہ گیا ہے مساجد کا بٹوارہ ، فساد، کردار کشی ، نفرت کی زبان اور حیلہ بازی یہاں کی مذہبی ٹکسال کے رائج سکے ہیں او رنیکی صرف پوجا پاٹ کے ذریعے حصول تسکین کا نام ہے سیاست، معیشت اور معاشرت دین اور اس کی حدود وقیود سے آزاد ، جب کہ دین اپنی فکری سادگی، فطری راستی ، بنیادی تعلیمات اور خالص مفہوم کے اعتبار سےایک انقلابی قوت کا نام ہے جو استحصال ،ظلم ، بدعنوانی اور موروثیت وملوکیت کے خلاف ایک زبردست وسیلہ اورذریعہ ہے جسے بروئے کار لاکر خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس انقلابی قوت کو سنی، شیعہ ،مقلدکا عنوان نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کا عنوان صرف اسلام اور اس کے کارکنان صرف مسلمان ہیں یہ گروہ بندیا ں بذات خود اسلام دشمنی کا مظہر ہیں ان کے ذریعے اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنا ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے مدارس تعلیم و تربیت کے لئے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ مورچے ہیں جہاں سےدوسرے مکاتب فکر پر تیر اندازی کے لئے طلبہ کو مشق کرائی جاتی ہے مسجدیں خانہ اللہ اور بنات کعبہ ہیں مگر اب یہ ‘‘ مذہبی ڈیرے ’’ ہیں جن کے دروازوں پر مختلف بورڈ آویزاں ہیں اور اس شناخت کے بغیر محض بندگی رب کے لئے داخلہ ممنوع ہے۔
منبر و محراب اصلاح عقائد ، ایزاد یقین اور بالیدگی روح کے لئے ہوتےہیں اب یہاں سے ہونےوالی جگر پاش ، دھواں دھار اور شعلہ بار تقریریں دل کو پتھر اور آئینہ قلب کو دھندلا دیتی ہیں سو ان حالات میں ان مراکز کو وہی شان دینے کی ضرورت ہے جو ان کےشایان ہے۔ موجودہ مذہبی گروہ بندی اسلام کی سچی تعلیمات کا غلط اشتہار ہے ۔ اس کے ہوتے اسلامی انقلاب کی تحریک اپنے بہترین نتائج سےملت کو مستفید نہیں کرسکتی ۔ فرقہ بندی مسائل کی جڑ اور شیرازہ بندی حل مشکلات کی شاہ کلید ہے۔ اس کےلئے تمام حق پرست علماء ، خدا ترس مشائخ ، مجاہد نوجوان، روشن خیال طلبہ، دین کے سچے خدمت گار اور امت کے خیر خواہ افراد کو مل جل کر ایک پلیٹ فارم سے جد وجہد کرنی چاہئے تاکہ سبھی لوگ قیامت کے روز اللہ اور رسول کے سامنے سر خرو اور یہاں دنیا میں سرفراز ہوں سکیں ۔
معاشرتی ڈھانچہ :
ہمارے ملک کا معاشرتی ( اخلاقی) ڈھانچہ اب اس قابل نہیں رہا جوملت کو سہارا او رملکی استحکام کو بنیاد فراہم کر سکے ہمارا موجودہ معاشرتی ڈھانچہ یکسوئی کے بجائے دو رخی کا شکار ہے اور یہ چیز کسی بھی قوم کےلئے قابل رشک نہیں ہوتی ہمارے ملک میں دو تہذیبیں ، دو رویے ، دو حوالے، دو نظام تعلیم اور دو معیار باہم مصروف کشمکش ہیں ایک رویہ قدیم اور کلاسیکل ہے جو ملک کی اکثریتی آبادی یعنی دیہات میں ہے اور دوسرا رویہ چربہ ہے مغربی تہذیب اور بے ہنگم فیشن کا۔
اول الذ کر رویہ بہتر تو تھا اگر وہ اپنی اصلی شکل میں قائم رہتا مگر جاگیری نظام نے اس رویے کو بھی مسخ کر کے رکھ دیا سادگی ، بے تکلفی ، اور بدوی طرز زندگی اچھا ہے مگر و ڈیر ا شاہی نے اسے جہالت ، تو ہم پرستی خوفزدی اور بہیمیت میں بدل دیا ہے تعلیم سے گریز ،خوئے غلامی ،اپنی رائے سے دستبرداری اور وڈیروں کے ہاتھ میں فیصلوں کا کلی اختیار اور خود پردگی، بات بات پر جھگڑے، قتل، مقدمے اور عداوتیں یہ سبھی عطیے ہیں جاگیر داری کےدیہات اور اہل دیہہ کے لئے، اور شہروں میں مصنوعی اور دم بریدہ تہذیب جڑ پکڑ چکی ہے جہاں نہ اب اپنی زبان ہے نہ لباس نہ بودو باش اور نہ چال چلن ، اس دورخے پن نے نہ ہمیں پورا انگریز بننے دیا اور نہ مشرق اقدار باقی اور محفوظ رہ سکیں یہی وجہ ہے کہ دنیا روز بروز سمٹتی اور سکڑتی جارہی ہے لیکن شہری اور دیہاتی سوچ میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں وہ ان کے لئے اجنبی اور یہ ان سے ناواقف اور گریزاں ،اور جو تہذیب اور معاشرے ہمارا قابل فخر اور مقدس ورثہ ہے،یعنی اسلامی تہذیب و معاشرت اسے تو ہم طاق نسیاں کی نذر کرچکےہیں ہماری اسلامی تہذیب جامع اور سنگم ہے روحانیت اور مادیت کی، تصوریت اور عملیت کی بدویت اور حضرویت کی اور جدت اور قدامت کی، کاش اس تہذیب کو پھر سے آواز دی جائے اور ہم فی الواقع انسان اور مسلمان بن سکیں جو تہذیب اب ہمارے اندر زبردستی داخل کی جارہی ہے اس کے نیتجے میں ہم نہ سچے روحانی بن رہے ہیں او رنہ صحیح دنیادار، تہذیب نے ہماری سادگی کو بھی مجروح کردیا ہے اور شہری سائستگی بھی ہمیں حاصل نہیں ہوسکی، چنانچہ ہم فضا میں معلق ہوکر رہ گئے ہیں ، اور رفتہ رفتہ ہماری شناخت ، مسخ بلکہ ختم ہوتی جارہی ہے اور دنیا کے لئے یہ جاننا مشکل ہورہا ہے کہ ہم لوگ کس تہذیب و معاشرت کے لوگ ہیں؟
کوئی بھی معاشرتی ڈھانچہ ہو ہمیشہ اخلاقی قدروں پر استوار ہوتا ہے اور ہمارے ہاں بد قسمتی سے اخلاقی قدریں کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہیں جس کے اثرات بداب زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر ہورہے ہیں ۔
دینی معاملات میں تعصب اور عدم برداشت ،شادی بیاہ میں اسراف و نمائش سرکاری محکموں میں بد دیانتی اورتساہل اہل کاروں میں غفلت اور فرائض سے چشم پوشی، معاملات میں بے اصولی او ربے راہروی،سیاست میں دو غلاپن ،مفاد پرستی اور دولت و طاقت کا زبردست عمل دخل، عدالتوں میں سفارش کی نقب زنی، اور انصاف کشی،انتظامیہ میں سازش ، جبر تشدد اور اقرباء پروری، اسمبلیوں میں ذاتی اغراض و مفادات کا تحفظ اور ضمیر فروشی، گلی کوچوں میں اسلحے کی نمائش ، محلوں اور چوکوں میں قتل و غارت ، گھروں میں ناچاقی گھٹن اور رنجش ،برادریوں میں کینہ اور بغص دکاندار اور گاہک میں بد اعتمادی سڑکوں ،شاہراہوں پر ڈاکے ، اور لوٹ مار، پر رونق اور گنجان آبادیوں میں دھماکے اور تخریب کاری الغرض ایک دنگا فساد ہے جو ہر سمت برپا ہے یہ سبھی بے اعتدالیاں ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی کمزوری اور بودے پن کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ایک صحیح الدماغ اور صلاح الفطرت شخص کے نزدیک معاشرے کی کامل تطہیر اور از سر نو تعمیر کی ضرورت ہے ایک صاف ستھرا معاشرہ او رپاکیزہ زندگی کی رمق رکھنے والی سوسائٹی ہی انقلاب کا گہوارہ بن سکتی ہے اور اسی کی گود میں انقلابی روحیں جنم لے سکتی ہیں جہاں پہلی گھٹی سے جوانی اور پھر بڑھاپے تک ایک پوری نسل کو بطور غذا ، بدعنوانی ،کم اندیشی ، کوتاہ فکری، بےاصولی، زر پرستی ، نقل اور مخلوط طرز تمدن اور آخرت سے بیگانگی فراہم کی گئی ہو، وہاں سعید روحیں بھی مکر وہ پیکر میں ڈھل جاتی ہیں ایسے ماحول میں انقلاب کی توقع کرنا آم کے پیڑ سے کھجور توڑنے والی بات ہے۔
انقلابی فکر جس معاشرے کی خواہاں ہوتی ہے وہاں فرد اور اجتماع میں تصادم نہیں ہوتا وہاں انسان دورخی زندگی بسر نہیں کرتا وہاں درندوں کے بھٹ اور انسانوں کی بستیاں جدا ہوتی ہیں وہاں چہروں پر ماسک اور آنکھوں پر گوگل نہیں چڑھی ہوتی بلکہ ہر انسان کا چہرہ اتنا روشن ہوتا ہے کہ وہ دور سے پہچانا جاتا ہے اس کی پیشانی سےاس کا خلوص جھلک رہا ہوتا ہے، بغل میں چھری او رمنہ میں رام والا معاشرہ جملہ افراد قوم کو خوفزدہ بنا دیتا ہے ہر ایک دوسرے سے شاکی ،بدگمان اور گریزاں رہتا ہے، ماں بیٹی سے ، باپ بیٹے سے، بڑا چھوٹے سے ، استاد شاگرد سے ، مرشد پیر سے ، دکاندار گاہک سے ،بھائی بہن سے ، اور دوست اپنے یار سے خواہ مخواہ کھنچا رہتا ہے کیونکہ جب انسانیت ہی ناقابل اعتبار ٹھہری تو انسان کا کیا بھروسہ؟ انقلابی معاشرہ اپنےدامن میں یکسوئی ،یکجہتی ، یک رنگی اخلاص ،مروت، سادگی، دیانت ، ضمیر اور طبع کی روشنی کے جوہر رکھتا ہے اور یہ صفات رب کا نور ہوتی ہیں جن سے زمین کا ہر گوشہ معمور ہوجاتا ہے ۔
معاشی ڈھانچہ :
ہمارےملک کا رائج الوقت معاشی ڈھانچہ مضمحل ، نفرت انگیز ،متعفن ، انتہائی صلاحیت کش اور انسانیت دشمن ہے، ہمارا معاشی نظام جن بنیادوں پر استوار ہے وہ ہیں انسانیت دشمنی، جبر، استحصال ،فریب ، ہوس ، نا انصافی اور احکام اللہ و رسول سے بغاوت ۔ ہمارے موجودہ معاشی ڈھانچے کی بابت حرام کمانا آسان اور حلال کمانا مشکل ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ امیر روز بروز امیر تر اور غریب آئے دن غریب تر ہوتا جارہا ہے ، جبر او استحصال کے سبب صلاحیتیں دم توڑ دیتی ہیں اور چالاکیاں پھل پھول رہی ہیں، اس معاشی ڈھانچے نے لوگوں کو دو مستقل طبقات میں بانٹ رکھا ہے ایک طبقہ عوام کا، جو روز کی روٹی کی فکر میں بیمار ہورہا ہے اور دوسرا طبقہ امراء کا جو کھا کھا کر علیل ہورہا ہے ایک طبقے کو دنیا بھر کی سہولتیں میسر ہیں اور دوسرے طبقے کو محض گھر بھر کی فکر ذہنی مریض بنائے دے رہی ہے۔
کوئی بھی سلیم الطبع اور راست فکر انسان یہ کبھی باور نہیں کرسکتا کہ اتنی بڑی جاگیر یں کبھی حلال ذرائع سے اور محنت سے بن سکتی ہیں ان جاگیروں کے پیچھے یقیناً انگریز بہادر کی خوشامد ،اپنی سرزمین سے غداری ،اہل وطن سے دھوکہ کسانوں کی محنت کا استحصال ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت یا تساہل اور جھوٹ فریب ایسے عوامل کار فرما ہیں ، جاگیردار طبقہ وطن اور اہل وطن کے ساتھ غداری اور سرمایہ دار ٹولہ ملک اور اہل ملک سے بے رحمانہ سلوک کے باعث وجود میں آیا ہے ۔ بد قسمتی سے ملکی قانون بھی انسانوں کی جان اور حرمت کے تحفظ کے بجائے اہل زرکی دولت کی حفاظت کااہتمام کرتاہے اس نظام کاہر پہلو ‘‘ بڑوں’’ کے مفادات اور قانون کا ہر گوشہ ان کے منافع اور بینک بیلنس کا خیال رکھتا ہے، اس کے نزدیک شاید انسان کی جان اور حرمت کوئی وقعت نہیں رکھتی ۔
اگربہ تعمق نظر دیکھا جائے تو زیادہ تر جرائم ذہنی اور معاشی بے اعتدالیوں کے باعث رونما ہوتے ہیں یا انسان زیادہ کھا کر بدمست ہوتاہے یا پھر بھوک اور افلاس کے باعث دوسرے کا پیٹ پھاڑ نے پر آمادہ ہوتاہے اگر معاشی انصاف اور اقتصادی عدل معاشرے میں رائج ہوتو بہت سے جرائم بہت سے مسائل اور بہت سے المیے ہوسکتے ہیں ۔ یہ امر کافی حدتک قرین قیاس ہے کہ انسان اہل زر بن کر اللہ کا باغی اور بھوک سے نڈھال ہوکر اس کی رحمت سے مایوس ہوسکتا ہے اور اسلام میں دونوں چیزیں جرم اور گناہ کا درجہ رکھتی ہیں ، اور سوء بخت سے یہ ماحول ہمارے ملک میں عام نظر آرہا ہے ایک طبقہ سدرۃ المنتہی پر اور دوسرا تحت الثریٰ میں ہے اور یہ اونچ نیچ بہت سی نفسیاتی ، ذہنی اور اخلاقی پیچیدگیاں پیدا کررہی ہے ۔
بے تحاشہ دولت کے احتکار اور ارتکاز اور پھر اسے قانونی تحفظ کامسئلہ نہ ہو تو عقل سلیم او رنہ ہی اسلام کے فریم میں فٹ بیٹھتا ہے ، رزق اللہ کا ہے اور اللہ کے بندوں میں ان کی ضروریات کے مطابق گردش رہناچاہئے ، کسی کو نان شبینہ کا محتاج اور کسی کو قارون بنا دینا معاشرے پر بہت بڑا ظلم ہے۔
اگر کوئی دانشور خود کو جاگیر دار ، صنعتکار ، کروڑ پتی ، خان، ملک ، وڈیرا اور چودھری قرار دے کر سوچے تو الگ مسئلہ ہے ورنہ آنکھوں کے سامنے کی بات ہے اور صاف دکھائی دیتی ہے کہ اہل زور جاگیر دنیا میں ہزاروں ہوں گے اور غریب، سفید پوش اور متوسط عوام اربوں کی تعداد میں ہیں سو کسی انسان دوست اور ہمدردشحص کی ہمدردیاں ہزاروں نہیں اربوں انسانوں کے ساتھ ہونی چاہئیں ، چند ہزار لوگوں کے عیش کدوں کو آباد کرنے کی خاطر کئی ارب انسانوں کی زندگیوں کو جہنم کی بھٹی بنا دینا نہ انسانیت کے لئے قابل قبول ہے اور نہ ہی اسلام کی نظر میں مرغوب او رمطلوب ، وحدت الہٰی پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وحدت انسانیت پر اپنا اعتقاد پختہ کیا جائے، تاجدار الفقر فخری سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو ‘‘اسوۂ حسنہ ’’ کا درجہ حاصل ہے اور وطن عزیز کا معاشی ڈھانچہ بھی اسی ‘‘اسوۂ حسنہ’’ کی روشنی میں استوار ہوناچاہئے۔ اور ‘‘ اسوۂ حسنہ’’ کیا ہے؟ یہ ہر اس شخص کو معلوم ہے جس کا کسی بھی درجے میں اسلام سے تعلق ہے اس میں عالم یا عامی اور نیکو کار اور گناہ گار کی کوئی تمیز نہیں، کوئی فلسفیانہ موشگافیاں نکالنے بیٹھ جائے تو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟ ورنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے سخن اور طرز عمل سب پر واضح ہے۔
خلاصہ کلام :۔
ہم نے پورے دیانتداری سے اپنا تجزیہ پیش کر دیا ہے ،مختلف جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے اصلاح کے لئے جانے والی کوششوں کو ہم مسترد نہیں کرتے تاہم ہمارے نزدیک مسئلہ کا حل کسی جزوی اصلاح میں نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب میں پوشیدہ ہے ، اور اس انقلاب کےلئے ہر سمت او رہر جہت سے دباؤ بڑھنا اور آواز اٹھنا چاہئے ۔ اس سلسلے میں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور معاشی ڈھانچہ کو بدلنے کاشعور اس وقت تک پیدا نہیں ہوگا جب تک کہ ذہنوں کو فرقہ بندی کی پھپھوندی سے صاف نہیں کرلیا جائے گا۔
دراصل فرقہ وارانہ فضا اور ذہنیت کسی مسئلے کی حقیقی نوعیت او راس کی مجموعی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے، ایسی ذہنیت پر مسئلے کو خاص زاویے سے دیکھتی اور اکثر دھوکہ کھا جاتی ہے۔ دین کے علی الرغم یا اس سے ہٹ کر تو انقلاب دنیا سے تسلیم کیا مگر جو نہی دین کے حوالے سےمتقی قیادت کے زیر اثر انقلاب آیا تو وہ فرقہ وارانہ پروپیگنڈے اور سنی، شیعہ کشمکش کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
ہمارے ہاں سیاست کا ابلیسی نظام اس لئے جڑ پکڑ گیا ہے کہ دین انقلاب کے بجائے محض ثواب کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، معاشرتی ڈھانچہ اسی لئے تہہ و بالا ہواکہ ارباب مذہب اعتقادی مباحث میں الجھ کر رہ گئے اور اخلاقی و معاملاتی میدان بازیگروں کے ہاتھ آگیا او رانہوں نے معاشرت کو دولت اور طاقت کی بے لگام مسابقت کی نذر کردیا، ملک کامعاشی نظام اس کےلئے استحصال اور ہوس کی زد میں آگیاکہ مذہبی حلقوں نے اس اونچ نیچ کو آسمانی فیصلہ قرار دے کر دونوں طبقات کی آویزش کو نفرت آفریں رویے میں بدل دیا ۔ مذہبی تانا بانا اس لئے بکھرا نظر آتا ہے کہ رجال دین اصول اور فروغ کافرق فراموش کر بیٹھے اور تقویٰ کے بجائے فتویٰ کی زبان رائج ہوگئی ، شدہ شدہ ہر چول ڈھیلی پڑتی گئی اور قوم انقلابی نظریات کی جگہ حادثات اور اتفاقات کو اپنا نصیب او رمقدر سمجھ بیٹھی جس کے نیتجے میں کوئی اصول، کوئی قدر، کسی عقیدہ کوتشکیل اور ترویج دینے والے جب خود ہی اصول پر فروغ ، قدر پر جبر اور عقیدہ پر فرقہ اور ضابطہ پر ضد کو ترجیح دینے لگے تو قوم ان الفاظ کے حقیقی معنی و مفہوم سےکیسے آشنا ہوتی؟
متذکرہ صدر، سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور معاشی مسائل کسی ایک طبقہ کے لئے تکلیف دہ نہیں بلکہ پوری قوم اس سیلاب بلا میں خس و خاشاک بن کر ادھر ادھر بہہ رہی ہے اس لئے اس منہ زور طوفان کو روکنے کےلئے جملہ اہل وطن کو، ارباب اقتدار کو ، رجال دین کو، صاحبان دنش و بینش کو اور حاملین عہدہ و منصب کو مشترکہ مساعی کرنے کی ضرورت ہے، سنی اور شیعہ ، شہری اور دیہاتی ، حکمران اور رعایا ، جاگیردار اور مزارع ، صنعتکار او ر مزدور، استاد اور طالب علم الگ الگ طبقات کے آئینہ خانوں میں اپنے ہی درشن کرنے میں مصروف نہ رہیں بلکہ من حیث القوم ملک او رملت کی تعمیری نوکا کام کریں ۔
پاکستان اور اہل پاکستان بحمد اللہ افرادی قوت کے مالک ہیں، ذہنی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، فنی مہارت سےبہرہ ور ہیں، خام مو اد رکھتے ہیں، اللہ کا عطا ء کردہ سب کچھ ہے کمی ہے تو فقط ذہنی ہم آہنگی اور روحانی یکسوئی کی ،یہ میسر آجائے تو ۔
ع ۔ مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
کامصرع مکمل شعر بن سکتا ہے۔
فروری، 2015 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-revolution-our-national-structure/d/101910