صادقہ نواب سحر
13 جولائی، 2014
اکثر یوں ہوتاہے کہ انسان اپنی پہچان ساری دنیا میں تو کروالیتا ہے مگر اپنے ہی گھر میں وہ ایک اجنبی شخصیت بن کر رہ جاتاہے اور پھر اتفاقاً شاعر ہوگئے تو بات ہی کیا ہے.........
‘‘ بیٹھے ہیں تصور جاناں کیے ہوئے ’’ ...... بہت کم ایسے ہوئے ہیں جو گھر او رباہر دونو ں جگہوں پر قابل وقعت قابل محبت اور قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ شاعر اور گیت کا رمجروح سلطان پوری انہیں چند خوش قسمت لوگوں میں سے تھے ۔ وہ ہر جگہ کامیاب رہے ۔ بحیثیت علمی شاعر ، بحیثیت صاحب خاندان ۔ انسان باہر کی دنیا میں کتنا ہی کامیاب رہے، اگر وہ گھر میں کامیاب نہیں تو وہ ادھورا ہے۔
مجروح صاحب گھر میں رہے یا باہر ان کو اپنے بیوی بچوں ، رشتہ داروں ، دوستوں کا ہمیشہ خیال رہتا ۔ مجروح اپنےبچوں کو مشاعروں میں لے جانا پسند نہیں کرتے تھے البتہ شاعری کے مختلف پہلو انہیں ضرور سمجھا دیا کرتے تھے ۔ تعجب ہوا یہ جان کر کہ انہوں نے اپنے بچوں کو ارد ونہیں پڑھائی ، شاعری کے لیے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی او ربچوں نے بھی اس طرف خاص دھیان نہیں دیا ۔ I.C.S.C. اسکول کی پڑھائی اور ہوم ورک میں ہی ان کا وقت نکل جاتا تھا اور مجروح صاحب اپنے بچوں کو زمانے کی ٹھوکروں سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے ۔
بچوں کی پڑھائی اور تربیت میں وہ سمجھوتہ نہیں کرتے تھے ۔ کبھی کبھار اسکول والوں کی کسی کو تاہی کا احساس ہوتا تو اسکول جاکر پرنسپل اور ٹیچروں کو ڈانٹ آتے ۔
وہ بیچارے لحاظ میں خاموش ہوجاتے اور بچے دل ہی دل میں ناموزوں ماحول سے دوچار ہوجاتے ۔ مگر اکثر جب وہ اسکول کے کسی جشن میں شیروانی ، سفید کرتا، پاجامہ پہن کر جاتے تو بچوں کو محسوس ہوتا پر وگرام کی رونق ہمارے والد سے ہے اور یہ صحیح بھی ہوتا ۔
مجروح صاحب کی تین بیٹیاں تھیں نوگل ، نوبہار اور صبا اور دو بیٹے ارم اور عندلیب ۔ نوگل کینڈا میں ہیں ۔ ان کی شادی بھوپال کے بیرسٹر صبا رشید قاضی کے بیٹے وقار قاضی سے ہوئی ۔ نوبہار انصاری صاحب کے بیٹے خورشید سے بیاہی گئیں ۔ صبا ، موسیقار نوشاد صاحب کے موسیقار بیٹے راجو نوشاد کی بیوی ہیں ۔ تین بیٹیوں کے بعد ارم کی پیدائش ہوئی تو مجروح صاحب نے شکیلہ بانو بھوپالی کی قوالی کا پروگرام رکھا ۔ ارم جنہیں پیار سے امو کہتے تھے ، ہارٹ اٹیک کا شکار ہوکر بھری جوانی میں دنیا سے سدھار گئے ۔ یہ ایس ا یم ساگر کی بیٹی سے بیاہے گئے تھے ۔ دوسرے بیٹے عندلیب نے فلم لائن جوائن کی ۔ ‘‘ جانم سمجھا کرو’’ بنائی لیکن والد کے انتقال کے بعد داڑھی بڑھا لی اور اسلام سے قریب ہوگئے ۔
جگر صاحب سے مجروح کی قربت او رمحبت مشہور ہے ۔ ایک بار جگر نے ننھی صبا کو ایک روپئے کا نوٹ دیا تھا ۔ مجروح صاحب نے صبا کی تصویر کے نچلےحصّے میں نوٹ فریم کروا دیا ۔ مگر ایک دن کسی نوکر نے اس نوٹ کو چرالیا ۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے صبا کی آنکھوں میں والد کے لیے محبت او ربچپن کی یادیں ابھر آئیں ۔
مجروح صاحب کے سر پرٹوپی چشمہ رہتی، گرمی کے موسم میں بھی سوئیٹر ، مفلر ، ساتھ رکھتے وجہ سردی کی شکایت ۔ انہیں سر میں بہت سردی محسوس ہوتی تھی ۔ صبا کے گھر جاتے تو سیدھے نوشاد صاحب کے میوزک روم میں چلے جاتے ۔ صبا کو بعد میں خبر ہوتی ۔ اکثر شام کو چار بجے وہاں جاتے ۔ باہر ہال میں صبابیٹھی انتظار کرتی ۔ نوشاد صاحب کی دوستی انہیں اتنی ہی عزیز تھی ۔ جب وہ ممبئی آتے تھے تو دادر کی ایک چال میں نوشاد صاحب کے ساتھ ہی رہتےتھے ۔ اس وقت وہ مجروح تھے نہ نوشاد ۔نوشاد سے ایسی یاری نبھائی کہ رشتہ داری تک پہنچائی ۔
آج رضوی کالج باندرہ کے پڑوس میں ‘ سی گل بلڈنگ’ میں مجروح صاحب کے گھر میں ان کی بیگم فردوس صاحبہ اور عندلیب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ یہاں بھی اور اس سے پہلے Lido سنیما کے قریب جوہو کے گھر میں بھی ان کے رشتہ داروں کا آنا جانا لگا رہتا ۔ کچھ کو وہ گاؤں سے اپنا کیرئر بنانے کے لیے بلا لیتے نوکر ی اور گھر ملنے پر ہی وہ وہاں سے رخصت ہوتے ۔ ان کے ایک رشتہ دار مشتاق جو ان کے سکریٹری بھی تھے آخر وقت تک ان کے ساتھ رہے ۔ مجروح صاحب کی وفات کے چوتھے دن یعنی 21 جون کو ان کا جنازہ بھی اٹھا ۔
شاعری کے علاوہ مجروح صاحب کو کچھ اور شوق بھی تھے ۔جیسے شکار کھیلنا ، تاش کھیلنا ، اچھا کھانا ، فیملی کے ہمراہ سیر و تفریح ٹی وی پر کرکٹ اور ہاکی میچ دیکھنا ۔ شکار کے سلسلے میں اکثر بھوپال میں اپنے دوست اختر سعید خان کے یہاں جایا کرتے تھے ۔ مچھلی کے شکار کا بھی شوق تھا ۔ اس سلسلے کا ایک دلچسپ قصہ یوں ہے کہ ممبئی کے پوائی لیک میں جہا ں وہ اکثر مچھلی کا شکار کیا کرتے تھے، ایک بار پوری رات گزاردی ۔ مجروح صاحب چھوٹی بوٹ لے کر صبح تک اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتے رہے اور کامیابی پائی ۔
مجروح صاحب کو لکھنوی کھانا بڑا پسند تھا ۔ بیگم فردوس اصلی گھی میں بڑا اچھا کھانا پکاتیں او ربڑے شوق سے کھاتے ۔ گوکہ بہت کم کھاتے .....مجروح صاحب حقہ بھی بہت شوق سے پیتے ۔ شام کو آنگن میں بیٹھے ہیں، ہولے ( ہرے چنے) لہسن کی چٹنی کے ساتھ چٹخارے لیتے ہوئے کھارہے ہیں ۔ حقہ بھی چل رہاہے۔ ایک زمانہ تھا جب بیگم رشید احمد صدیقی سے شب دیگ پکواتے، کباب ، قورمہ، روغنی روٹی کے ساتھ کھاتے ۔ چاول زیادہ نہ کھاتے ۔ چاول میں صرف پلاؤ پسند تھا ۔ بھُنہ قیما خاص طور سے پسند تھا ۔ شکار کا گوشت خصوصاً تیتر ،بٹیر ، کلیجی وغیرہ آگ پر بھنوا کر کھاتے ۔ اخیر میں لیلا وتی اسپتال میں داخل کیے گئے تو بگڑتے پر ہیزی کھانے سے بیزا رتھے ۔ سترہ مئی کو ایڈمٹ ہوئے 20 کو گھر آئے ، جیسے گھر کا کھانا کھانے ہی آئے ہوں ۔ 21 مئی کو دوبارہ ایڈمٹ کیے گئے اور 23 کی رات انتقال کیا ۔
مجروح صاحب کواپنے گھر والوں سے اس قدر لگاؤ تھا کہ جہاں جہاں ممکن ہوتا بیوی بچوں کو ساتھ لے جاتے ۔ آج فردوس صاحبہ ذرا سا شوہر کی بات نکلنے پر روتی بلکتی ہیں وقت مرہم نہیں بن پایا تو کیا عجب ہے ۔ پچھلے دنوں پروڈیوسر ، ڈائرکٹر ناصر حسین کا انتقال ہوا تو جیسے پرانی یادیں لوٹ آئیں ۔ مجروح صاحب نے ناصر حسین کے ساتھ کئی فلمیں کی تھیں ۔ بے قرار ہونے لگیں مجروح صاحب کے گیت ٹی وی پر دیکھ سن کر یادو کی ریل پھر الٹی چلنے لگی ۔ مجروح صاحب اپنی بیگم کو یوروپ ، کینڈا ، جہاں جہاں فلم والے یا ادبی ادارے ٹکٹ دیتے تھے ، ہر جگہ لے گئے ۔ ‘‘ پکار’’ فلم تک وہ ان کے ساتھ جاتی رہیں ۔ پھر صحت کی خرابی کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہوئی ۔
مجروح صاحب کو 30 ستمبر 1994 میں 93 کا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ لینے دلی جانا تھا ۔ بچوں کو بھی لے گئے ۔ ہر سال چنڈی گڑھ میں ‘‘ جشن رفیع’’ کے موقع پر بہترین گلوکار کو ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔ مجروح صاحب کے ہاتھوں ایوارڈ دیا جانا تھا۔ وہاں گئے تو منتظمین سے کہا کہ بیٹی صبا کو شملہ گھما لاؤ انہوں نے شملہ کی سیر کروانے کے ساتھ ساتھ مشاعرے کا بھی انتظام کر لیا ۔مذاقاً کہتے ہیں ‘‘ صبا تمہاری بدولت ہم نے شملہ دیکھ لیا’’ بچیوں کی شادی کے موقع پر خود انہیں لے جاتے اور شاپنگ کرواتے ۔ مجروح صاحب دوست نواز بھی تھے ۔ راہی معصوم رضا ، سلمیٰ صدیقی کےعلاوہ بہت سی فلمی ادبی اور غیر فلمی لوگوں سے دوستی ہوئی اور اسے نبھایا بھی ۔
مجروح صاحب آخر ی وقت تک تنو مندر ہے ۔ لیلاوتی میں بھی انہیں یقین تھا کہ سنبھل جائیں گے ۔ یہی جینے کی للک ان میں زندہ دلی بھرتی رہی ۔عمر اور کمزوری سے ہاتھوں میں رعشہ تھا مگر اپنی وفات سے دو مہینے پہلے گاڑی خود چلاتے تھے ۔ بچے منع کرتے کہ ہاتھوں میں لرزش ہے تو انہیں ڈانٹتے ۔ مجروح صاحب ادب اور فلم کی بڑی شخصیت ہیں مگر وہ اپنی بڑائی کو گھر نہیں لائے تھے ۔ گھر میں وہ صرف باپ تھے ، نانا، داداتھے شوہر تھے ۔ گھر کے ہیڈ ، جن کے سہارے اور بھروسے گھر چلتا ہے ۔ باہر جو جدوجہد کریں سو کریں ۔ آپ کے رشتوں پر اس کاکوئی اثر نہیں ۔
زی ٹی وی والوں نے ‘‘ Making of Legend’’ پروگرام کے لئے جب عندلیب سے پوچھا کہ تمہارے ابا تمہیں کیسےلگتےہیں تو انہوں نے بڑے فخر سےکاتھا ‘‘ Best in the world ’’ یہ نہیں کہ وہ بہت بڑی جائداد چھوڑ گئے ہوں یا دنیا کی تمام نعمتیں بچوں کی جھولی میں ڈالی ہوں ۔ مگر یہ تو تھا کہ کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دی ۔ عندلیب نے مجھ سے کہا کہ آج کروڑ پتیوں کے بچے خود کشی کرتے ہیں کیونکہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انہیں طمانیت نصیب نہیں ۔ ہم میں ابانے وہ کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے ۔ گھر میں کبھی فلمی ماحول نہیں رہا ۔ شعر خوانی بھی تبھی ہوتی جب مہمان گھر آتے۔
مجروح صاحب کی غصے کے تعلق سے کئی روایتیں مشہور ہیں ۔ کچھ پہچان والے ان سے نالاں بھی رہے لیکن بات کچھ ایسی تھی کہ آخری وقت تک انہیں کام کرنا پڑا ۔لہٰذا کچھ چڑچڑے ہوچلے تھے ۔ شروع کے دن جد و جہد کے گزرے ۔پہلی تین بیٹیاں تھیں ایک ایک کر کے تینوں کی شادی کی بیٹے چھوٹے تھے ۔ کس کے Support پر آرام کرتے ارم کے موت کے بعد اکثر کہتے ‘‘ خدا کسی باپ کے کندھے پر بیٹے کا جنازہ نہ اٹھوائے ’’ آخر میں اس بات کا بھی چڑچڑاپن تھا کہ عندلیب کا کچھ کیوں نہیں بن رہا ۔ انہیں کام مانگنے کی عادت نہ تھی مگر خوش قسمت تھے ۔ اسپتال میں بھی جتن للت کا اسی سلسلےمیں فون آیا تھا ۔ زندگی یوں گزرتی رہی کہ روز کنواں کھودو اور روز پانی پیو ۔ فکر تھی کہ میرے بعد ان سب کا کیا ہوگا ؟ کبھی اس بات کا غصہ نہ تھا کہ بوڑھے سے کام کروارہے ہیں یاہم نے نہیں سہارا دے رکھا ہے ۔ ا س قسم کی بات نہ کبھی دوستوں سے سنی گئی نہ رشتہ داروں سے ۔ عندلیب نے بڑے دکھ سےکہا کہ ہم کھڑے ہوجاتے تو وہ Relax کرلیتے ۔
مجروح صاحب اپنے بچوں کے بچپن کو اپنی فلمی و ادبی مصروفیات کی نذر کر نانہیں چاہتے تھے ۔ ان کے بچوں نے جو خود اب چھوٹے یا بڑے بچوں کے ماں باپ ہوچکے ہیں ۔ اپنی یادوں کےجھروکوں سے جھانک کر کہا کہ ہم بیمار پڑتے تو دہری خوشی ملتی ، ایک تو اسکول سے چھٹی ملنے کی دوسری امپورٹیڈ کھلونے پانےکی ، جو اس زمانے میں بہت مہنگے ہوتے ۔
بچوں کو وہ اداس نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ فلم ‘‘جانم سمجھا کرو’’ میں پس منظر موسیقی کی ریکارڈ نگ ہورہی تھی کہ موسیقار اور پروڈیوسر میں کہا سنی ہوگئی اور ایک بہت اہم سین رہ گیا۔ پروڈیوسر نے میوزک ڈائرکٹر کو پیسے دینے سے انکار کردیا ۔ ان دنوں مجروح صاحب ‘‘ مشعل جاں’’ کے نام سے اپنا مجموعہ کلام شائع کروانے کےلیے پیسے اکٹھے کررہے تھے ۔ انہوں نےگھر میں سختی سے کہہ رکھا تھا کہ اتنے پیسے میرے ہیں ۔ کسی ضروری کام کے لیے بھی صرف نہ کیے جائیں ۔ مگر فلم کی تکمیل کے اس مرحلے میں انہوں نے عندلیب کو قریب بلایا، سارے پیسے نکال کر انہیں دے دیے اور کہا اپنی موسیقی کمپلیٹ کرلو۔
بہت کم لوگ سو سے بھی کم ، عمارت کے احاطے میں نظر آئے ۔ لوگوں کو خبر ہی نہیں ہوئی اور ایک اہم ادبی ہستی اور ہزاروں فلمی گیتوں کا خالق ، جن کی موجودگی ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرلیتی تھی ، چند چاہنے والوں کی موجودگی میں منوں مٹی سے نیچے سلادیا گیا ۔
کبھی کبھی اس ملک کا ذولسانی ہونا ایک طرح سے ہماری بد قسمتی بن جاتا ہے جب ایک زبان کی قابلیت دوسری زبان والوں تک پہنچ نہیں پاتی ۔ مہاراشٹر کالج کے ایک مشاعرے میں میں نے مجروح صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا کلام دیوناگری رسم الحظ میں چھپوائیں تاکہ ملک کے کونے کونے میں پہنچے ۔ ان کے اشعار لوگوں کے زبانوں پر تو ہیں مگر بہت سے لوگ انہیں پڑھ نہیں پاتے۔ ڈاکٹر ربیعہ شبنم عابدی نے مجھ سے کہا : تم ہی یہ کام کیو ں نہیں کرلیتیں ۔ مجروح صاحب نے حوصلہ افزائی کی ۔ انہیں کی سرپرستی میں میں نے دو برسوں میں یہ کام مکمل کیا ۔ یہ کلیات سارانس دلی ‘‘ پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ ’’ کے نام سے 2002 میں شائع ہوئی ۔ اس کے بعد والی پرکاش دلی سے ان کی غزلیات اور غزل نما گیتو ں کا مجموعہ ‘‘ لوک پریہ کوی’’ ‘‘مجروح سلطان پوری ’’ کے نام سے 2002 میں شائع ہوا ۔ ان دو کتابوں کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی ترتیب دےرہی ہوں۔
13 جولائی، 2014 بشکریہ : روز نامہ خبریں ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/majruh-sultanpuri-/d/98219