سعدیہ دہلوی
10اگست ، 2016
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں سے اپنی ذات پر ایمان رکھنے کے علاوہ اس بات کا بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان باتوں میں بھی مشغول نہ ہوں جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض اہل علم نے کہا کہ کسی کا صرف اپنے کام سے سروکار رکھنا نصف دین ہے۔ صوفیائے کرام کا کہنا ہے کہ جب خدا کسی سے ناراض ہوجاتا ہے تو وہ اسے ان کاموں میں مصروف کر دیتا ہے جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس بات کی تعلیم دیتے ہوئے کہ اپنی روح کی حفاظت کس طرح کی جائے، قرآن ہمیں جاہل کے ساتھ نہ الجھنے کا حکم دیتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں ہمارے ارد گرد کے معاملات اور حالت کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔یقیناً لوگوں کو ایک دوسروں کے درد اور تکلیف کو محسوس کرنا چاہئے اور مثبت طریقےسے اس میں اپناتعاون پیش کرنا چاہیے، لیکن دوسروں کے معاملات میں غیر ضروریدخل اندازی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ہم میں سے بہت ایسے ہیں جودوسروں کی طرز زندگی، ان کے کپڑوں، ان کی کاروں،ان کی شہرت، مال و دولت اور دیگر دنیاوی مال و اسباب پر گفتگو کرنے کے عادی ہیں۔یہ زیادہ تر غیر ضروری تجسس اوراور بے معنیٰ بات چیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔اگر چہ اس کا مقصد عداوت و کینہ پروری نہ ہو لیکن ان پر ایسے تبصرے کردینا بہت آسان ہے جو بالآخر ہماری روح کے لیےنقصاندہ ہوگا۔
ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ ہم کیا بات کرتےہیں اور ہمیں اپنی زبان پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔دوسروں کے بارے میں باتیں کرنا، ان پر انگشت نمائی کرنا، انہیں برا بھلا کہنا، ان کی خامیوں کو بے نقاب کرنا اور ان پر غلط کاموں کا الزام لگانابہت آسان ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:"اگر تم کسی پر جھوٹا الزام لگاتے ہو تو اللہ تمہیں کو اس کا ثبوت لانے تک جہنم میں جلائے گا۔"
ہماری زبان روح کے لئے برائی اور بے حد اچھائیدونوں کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے۔اگر ہم اس کا استعمال اختلافات پیدا کرنےاور فتنہ پھیلانے کے لیے کرتے ہیں تو یہ ہماری روح کو فاسد کرتی ہے۔اگر ہم اپنی زبان کا استعمال امن پھیلانے کے لئے کرتے ہیں تو یہ روح کو تندرست و تواناں کرتی ہے۔ امن ایک دماغی کیفیت ہے۔ دوسروں سے نقصانات کو روکنا اور دوسروں کو فائدہ فراہم کرنا بھی امن ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مشہور ہے کہ ایک مسکراہٹ اور رحمت و شفقت بھرے الفاظ بھی صدقہ کی ایک قسم ہیں۔
صوفیاء کا کہنا ہے کہ بولنے کا قانون یہ ہے کہ لوگوں کو دوسروں سے متعلق ایسا کچھ بھی کہنے سے پرہیز کرنا چاہیےجو وہ ان سے سننا پسند نہیں کرتے؛اگر چہ جس کے بارے میں گفتگو کی جا رہی ہے وہ شخصوہاں پر نہ ہو۔ غیبت ایک سنگین گناہ ہے اور اس کے گناہ سے بچنے کے لیے خدا سے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔جب کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ نے کسی کےبارے میں کوئی غلط بات کی ہے تو پھر آپ کو اس شخص سے معافی مانگنا ضروری ہے۔
جب ہم کسی ایسی جماعت میں پھنس جائیں جہاں دوسروں کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہو تو اس شخص کا دفاع کرنا بہتر ہے جو وہاں اپنا موقف واضح کرنے کے لئے موجود نہیں ہے۔ اسلامی معتقدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جواس دنیا میں دوسروں کے گناہوں پر پردہ ڈالے گااللہ آخرت میں اس کے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
ماخذ:
asianage.com/mystic-mantra/sins-omission-382
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/sins-omission/d/108229
URL for this article: