معصوم مرادآبادی
15 اگست،2024
آج ہم اپنی آزادی کی 78
/ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ آج ہی کے دن 1947 ء میں ہمارا ملک انگریز سامراج کے
ہاتھوں سے آزاد ہوا تھا۔یہ آزادی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا نتیجہ تھی، جس
میں تمام فرقوں اور طبقوں نے بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو
انگریزوں کے ذہنی غلام تھے اور آج بھی ہیں۔ انگریز وں نے ہندوستان کا اقتدار
مسلمانوں سے چھیننا تھا جو اس ملک میں تقریباً 800/ سال سے اقتدار میں تھے۔ اپنے دور اقتدار میں مسلم بادشاہوں اور
حکمرانوں نے ہندوستان کو ترقی اور کامرانی کی ان منزلوں تک پہنچایا جن کا آج ہم
تصور بھی نہیں کرسکتے۔اس کی زندہ جاوید نشانیوں میں جہاں ایک طرف تاج محل کی
خوبصورتی اور دلکشی ہے تو وہیں قطب مینار کی عظمت وبلند ی بھی ہے۔ لال قلعہ کا جاہ
وجلال ہے تو شاہجہانی جامع مسجد کا تقدس بھی ہے۔ آج سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ ان
یادگاروں کو بے نام ونشان کرنے اور تاریخ کے اوراق سے غائب کرنے کی سازشیں عروج پر
ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان سورماؤں کا نام ونشان مٹانے کی بھی منظم کوششیں جاری ہیں
جنہوں نے ہندوستان کی مانگ اپنے خون سے روشن کی تھی، مگر ان کی قربانیاں اتنی
لازوال ہیں کہ انہیں کبھی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ ان کی قربانیوں کی
داستان ہندوستان کے چپہ چپہ پر لکھی ہوئی ہے۔آج ہم یہاں ایسے ہی کچھ سورماؤں کا
تذکرہ کریں گے، جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور
اپنے لازوال جذبہ حریت سے دنیا کے بہادر سپوتوں کی فہرست میں اپنا نام سنہری حرفوں
سے درج کرایا۔ ان میں پہلا نام شیر میسور ٹیپو سلطان کا ہے۔
ٹیپو سلطان نے 7/مئی 1799
ء کو سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں سے لوہا لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔
انہوں نے انگریز سپاہ کا مقابلہ اتنی بہادری اور جرأت کے ساتھ کیا کہ ان سے لوہا
لینے والی فوج کے کمانڈر نے کہا تھا کہ ’ٹیپوسلطان کا رعب او ردبدبہ اتنا زبردست
تھا کہ وہ ان کی لاش کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔کسی طرح ہمت پیدا کرکے وہاں پہنچے
او رٹیپو سلطان کی لاش کے اوپر پاؤں رکھ کر کہا کہ ’آج ہندوستان ہمارا ہے‘۔ ٹیپو
سلطان کا یہ قول آج بھی تاریخی کتابوں میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ ’گیدر کی
سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے‘۔
مادروطن کی حفاظت کے لئے
غیر معمولی جرأت او ربہادری کی مثال صرف ٹیپو سلطان نے ہی پیش نہیں کی بلکہ ایسے
ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بے
مثال قربانیاں دیں اور جذبہ حریت کی مثالیں قائم کیں۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کی
ناکامی کے بعد انگریزوں نے دہلی میں وحشیانہ قتل عام کیا اور ہر درخت پر حریت
پسندوں کی لاشیں لٹکادیں۔ اسی دوران
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کرلیا گیا۔ انگریزوں نے ان کے بیٹوں
اورپوتوں کے سرقلم کرکے ایک طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے۔ اپنے جگر پاروں کے
کٹے ہوئے سر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر کی آنکھوں میں آنسوں نہیں تھے۔ انہوں نے اپنا
سرفخر سے بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’خاندان تیموریہ کے فرزند ایسے ہی سرخرو ہوکر
پیش ہوتے ہیں۔’دنیا میں جدوجہد آزادی کی کوئی تاریخ جذبہ حریت کی ایسی لازوال مثال
پیش کرنے سے قاصر ہے۔
تحریک خلافت کے رہنما
اورعظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے
ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے
انکار کردیا۔لندن کی گول میز کانفرنس میں انگریز سامراج کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں
نے کہا تھا کہ ’میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جاسکتاہوں جب کہ میرے ہاتھوں
میں آزادی کاپروانہ ہوگا۔اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں
مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی۔‘ اپنے اس انقلابی بیان کی لاج مولانا محمد علی
نے ایسے رکھی کہ وہ ہندوستان واپس نہیں آئے او رانہوں نے 4/جنوری،1931ء کو لندن
میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی جنگ آزادی
کے ایسے سپاہی تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔ آج بھی بیت المقدس میں مولانا محمد
علی کی قبر پر جو کتبہ لگا ہوا ہے، ا س پر جلی حرفوں میں لکھا ہے۔’محمد علی
الہندی‘
پروفیسر خلیق احمد نظامی
نے لکھا ہے کہ ’اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی
قوم کو ابھار کر ایک قوت بنادیا تھا۔انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان
کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ’وہ شکست خوردہ
قوم کا آخری سپاہی تھا جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔ آخر کار زخموں سے چور
ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا‘۔
یوں تو ہندوستان کی جنگ
آزادی میں ہزاروں متوالوں نے پھانسی کے پھندے کو چوما او روطن پر اپنی جان نچھاور
کردی لیکن ان میں ایک نام ایسا ہے جسے وطن عزیز جان قربان کرنے والوں میں بڑی قدر
ومنزلت حاصل ہے۔ یہ تھے شہید وطن اشفاق اللہ خاں جنہوں نے 27/ برس کی عمر میں تختہ
دارکو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا‘ وہ وطن کے لئے ان کی بے
پناہ محبت کا آئینہ دار ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ ’اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی
جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مرمٹنے کا
میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا‘۔
مشہور زمانہ کا کوری کیس
میں 6/ اپریل،1927ء کو سیشن جج ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی۔
ان پر پانچ دفعات لگائی گئی تھیں جن میں دودفعات کے تحت تا عمر کا لاپانی کی سزا
اور تین دفعات کے تحت سزا ئے موت دی گئی تھی۔پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے
اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی
کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے مہمان کا وزن بڑھ جائے۔ جس وقت اشفاق اللہ خاں
کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اس وقت ان کا وزن 178 /پونڈ تھا اور اس کے بعد جب
پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کاوزن 203/ پونڈ ہوچکا تھا۔وزن میں یہ اضافہ وطن پر
قربان ہونے کی خوشی میں ہوا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی والدہ کے نام خط میں
بھی کیا تھا۔
یوں تو انگریز سامراج سے
لوہا لینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن ہم نے یہاں صرف چند ایسے سورماؤں کا
تذکرہ کیاہے جن کے کارنامے لازوال ہیں اور جنہوں نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش
کیا۔ جن دیگرعظیم مجاہد ین آزادی نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان کو سرخرو کیا، ان میں
نواب سراج الدولہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، علامہ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا
برکت اللہ بھوپالی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، حکیم اجمل خاں،
ڈاکٹر مختار احمد انصاری، خان عبدالغفار خاں اور رفیع احمد قدوائی جیسے درجنوں نام
شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی راہیں متعین کیں اور ہمیں
ایک آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ آئیے آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کو
ان سورماؤں کے کارناموں سے واقف کرانے کا عہد کریں تاکہ وہ اس ملک میں سر اٹھا کر
جینے کا حوصلہ پیدا کرسکیں۔
15 اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism