صبیح احمد
4 فروری، 2015
11/9 کے بعد پوری دنیا کے مسلمان امریکہ کے رڈار پر آگئے تھے ۔ ہر مسلمان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا ۔ اسی شک و شبہ اور بد اعتمادی کا نتیجہ تھا کہ مشرق وسطیٰ سے لے کر افغانستان یہاں تک کہ پاکستان تک پورا خطہ ایک طرح کےسیاسی زلزلہ کاشکار ہوگیا اور ایسا آتش فشاں پھٹا کہ اس کا لاوا ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور اس کے اثرات صرف اسی خطہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں یہ محسوس کیے جارہے ہیں۔ عراق، افغانستان اور لیبیا میں طوائف الملوکی کا دور دورہ ہے۔ یہاں حکومتیں صرف برائے نام رہ گئی ہیں کہ لوگ اپنے ہی ہم وطنوں اور برادران اسلام کو گاجر مولیوں کی طرح کاٹ رہے ہیں ۔ جو زندہ ہیں وہ بھی سسکیاں لینے پر مجبور ہیں ۔ خطہ عرب بھی اچھوتا نہیں ہے ۔ یہاں بھی بے چینی اور بے یقینی کی صورتحال ہے۔ شام و یمن اپنوں کے ہی خون سے لہو لہان ہیں ۔ بحرین میں بھی لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے ، نہ جانے کب اچانک پھٹ جائے ۔ تیو نیشیا میں حالات دھیرے دھیرے معمول پر آنے لگے ہیں لیکن حالات کے زیر اثر کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
بہر حال امریکی رد عمل کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ امریکہ کو جوکچھ کرنا تھا اس نےکردیا۔ اب امریکہ کےمخاصمانہ رد عمل کازور دھیرے دھیرے کم ہونے لگاتھا لیکن اچانک عالم اسلام اب یوروپ کے رڈار پر آگیا ہے۔ فرانس کے قلب پیرس میں ایک ہفتہ وار طنزیہ میگزین شارلی ہیبڈو پر ہونے والے حملے نے پورے یوروپ میں ہلچل مچادی ہے۔ یہ حملہ فرانس کے لئے امریکہ کے 11 ستمبر کے حملے کے مانند تصور کیا جارہا ہے۔ اس واقعہ نے صرف فرانس ہی کو نہیں بلکہ پورے یوروپ کو صف بند کردیا ہے لیکن اہم سوال یہ ہےکہ یوروپ کے باشندے کس کے خلاف صف بند ہورہے ہیں؟ اس واقعہ کےبعد یوروپ میں بر سر اقتدارسربراہان حکومت نے حالانکہ بڑے اہم اور اعتدال پسندی پر مبنی بیانات دیے ہیں۔ مثلاً فرانس کے صدر فرانکوا ہولاندے نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس دہشت گردی کےواقعہ کا تعلق کسی بھی صورت مذہب اسلام سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے کیونکہ دہشت گردوں نےجن افراد کو ہلاک کیا ہے، ان میں سے ایک مسلمان بھی ہے۔ ہولاندے نے اس بیان سےدراصل فرانسیسی عوام کے غم و غصہ کو کم کرنے کی کوشش کی ہےلیکن کیا وہ زیادہ عرصے تک عوام کے غم و غصے پرقابو پانے میں کامیاب ہوسکیں گے کیونکہ فرانس اور یوروپ کےمختلف ممالک میں مسلمانوں کے خلاف پہلے ہی سےنفرت کی فضا پائی جاتی ہے اور اس طرح کے دہشت گردانہ حملوں میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس نفرت میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔
فرانس کی ایک ایسی جماعت فرنچ نیشنل فرنٹ کی لیڈر میر ین لے پین نے کہا ہے کہ ‘ فرانس کو دنیا کے تمام علاقوں میں انتہا پسند وں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کی ضرورت ہے’۔ یہا ں تک کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پھانسی کی سزا پر دوبارہ عمل در آمد شروع کرنےکی بھی تجویز پیش کی ہے اور اس سلسلے میں وہ 2017 میں ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ اس حوالے سے آسٹریلیا ، برطانیہ اور امریکہ میں میڈیا کے بڑے گروپ کے سی ای او اور مالک کیتھ روپڑٹ مرڈوک کا یہ ٹوئٹ کہ ‘اگرچہ زیادہ تر مسلمان پر امن ہیں لیکن جب تک وہ اپنے بڑھتے ہوئے جہادی کینسر کو محسوس نہیں کرلیتے اور اس پر قابو نہیں پالیتے وہ اس دہشت گردی کے ذمہ دار رہیں گے’، بہت معنی خیز اور عالم اسلام کی سنجیدگی سے غور کرنے پرمجبور کردینےوالا ہے۔ حالانکہ اس ٹوئٹ کے ایک گھنٹہ کے اندر ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ترجمان ابراہیم قالن نے اس کا جواب اس طرح دے دیا کہ ‘ ایک بلین 600 بلین مسلمانوں کو فرانس کے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا احمقانہ اور نسل پرستی پر مبنی بیمار ذہن کی عکاسی کرتاہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم مغرب کو دوسری جنگ عظیم ‘ ہولوکاسٹ’ اور ہیرو شیما ایٹمی دھماکے کا ذمہ دار ٹھہرادیں، لیکن اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ 7 جنوری 2015 کے بعد عالم اسلام اب یوروپ کےشکوک و شبہات کی زد میں آگیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد یوروپ میں اسلام مخالف جذبات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ہالینڈ میں اسلام دشمنی کے طور پر مشہور انڈ پینڈٹ پارٹی کے چئیر مین گیریت و یلڈرس نے اس حملہ کو ‘انتہا پسند اسلامیت کے نام پر کیے جانے والا حملہ ’ قرار دیا ہے تو ڈنمارک کی پیپلز پارٹی کے چئیر مین کرسچین تھولسین داحیل نے کہا ہے کہ ‘ حکومت کو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے’۔ اسی کے ساتھ ڈنمارک میں مسلمانوں کی مساجد کو بند کرنے کامطالبہ بھی کیا گیا ہے ۔ ایسے حالات میں کچھ مسلمانوں کے عمل سے پورے یوروپ میں کئی دہائیوں سے آباد مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے او راس واقعہ کا انتقام لینے کی آگ میں بہہ کر ایسی تحریکیں بھی سر اٹھانا شروع کر دیں گی جس سے مسلمانوں کا یوروپ میں جینا دوبھر کردیا جائے گا۔ محبتوں کاشہر پیرس آج کل خوف کی گرفت میں دکھائی دیتا ہے۔ جا بجا مشین گنوں سےلیس فوجی نظر آتےہیں جن میں سے بہت سے مذہبی عمارتوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔شہر کی ہوا میں آج کل ایک مخصوص خطرہ او ربے چینی محسوس ہوتی ہے جس کی سب سے واضح شکل بھاری اسلحہ سےلیس وہ فوجی ہیں جو چہار سو پھیلے ہوئے ہیں اور اس صورت حال میں ٹھیک سے پتہ نہیں چلتا کہ آزادیوں میں مداخلت سے ناواقف او رہر طرح کی روک ٹوک سےبےنیاز طرز زندگی کے لیے مشہور فرانس کہا ں گم ہے۔ فرانس میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو یوروپ میں مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس حملہ نے ملک کو اس مشکل سوال سےدو چار کردیا ہے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کا کیا مقام اور مرتبہ ہے۔ فرانسیسی مسلمان پریشان ہیں کہ اسلام مخالف جذبات میں اضافہ کے سبب انہیں ان حملوں کے منفی اثرات بھگتنا پڑیں گے۔
پیرس حملے کے بعد کم از کم 50 ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں فائرنگ ، اسلامی عمارتوں پر دستی بم سے حملے کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور تذلیل جیسے واقعات شامل ہیں۔17 جنوری کو مراکش کے ایک شہری پر اس کے ہمسائے نے چاقو سے وار کیے ۔ 17 بار چاقو کے وار کرنے سےقبل حملہ آور چلایا’ میں تمہارا خدا ہوں ، میں تمہارا اسلام ہوں’۔ ماہ رخ آصف نامی پاکستانی لڑکی نے جب 2 برس پہلے حجاب پہننا شروع کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ لوگ انہیں مختلف نظر سےدیکھ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک جاننے والے نے تو ان سے بات تک کرنا ترک کردی۔ جسٹین بوشے وزارت انصاف میں کام کرتی ہیں او رحملوں سےکچھ ہفتے قبل انہوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں لوگوں کو کیفے میں نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا ۔ والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے ڈر رہے ہیں۔ ایک نوجوان مسلم وکیل کا کہنا ہے کہ اسے یہ ناانصافی محسوس ہوئی کہ حملوں کے بعد ریاست کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ یہودیوں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سیکورٹی گارڈ بھیجے گئے ۔ اس دوران ‘ مسجد پر حملے ہورہے تھے لیکن حکومت کو کوئی فکر نہیں تھی ۔ ایک ہفتہ کے بعد دفتر داخلہ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کے اقدامات بھی کرے گا۔’
پیرس دھماکہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں منعقد مارچ میں دنیا بھر کے 40 ممالک کے سربراہان حکومت و مملکت کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اسلامی ممالک میں سے ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوگلو ، اردن کے شاہ عبداللہ دوئم اور فلسطین کے صدر محمود عباس نے بھی فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اورعالم اسلام کی جانب سے اس حملے کے ایک ہفتہ بعد دوبارہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کیا ان تمام مسلمانوں کی تذلیل نہیں کی تھی جنہو ں نے ان کےساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا ۔ کئی مسلم ممالک نے حملوں کی مذمت کی ، اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ دکھایا کہ وہ انسانیت کےساتھ ہیں لیکن مذکورہ کارٹون کی دوبارہ اشاعت کی اجازت دے کر فرانس نے بہر حال واضح پیغام دے دیا ہے ، خواہ صدر ہولاندے اور ان کے وزیر اعظم کچھ بھی بیان دیں ۔ انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ان مسلم ممالک کی جانب سے اظہار یکجہتی و احترام کی کوئی قدر نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بہت تکلیف دہ پیغام ہے۔ موجودہ حالات میں فرانس کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اس کی وجہ سے معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہوگا۔ اس کے اثرات کم و بیش نمایاں ہونے لگے ہیں۔
دہشت گردوں کامقصد یہ ہے کہ دہشت پھیلائی جائے او رلگتا ہے کہ کم از کم اس حوالے سے دہشت گردوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جو زیادہ تر فرانسیسیوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ کیا وہ اس پر قابو پاسکیں گے یا یہ منافرت او رمعاشرتی تقسیم کا سبب بن جائے گا؟
4 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islamic-world-radar-europe-/d/101353