سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
21 جولائی 2021
جدید علماء اسلام پرزور
انداز میں یہ بات کہتے ہیں کہ قرآن مجید باندیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت
نہیں دیتا ہے
اہم نکات:
· ملک الیمین کا
معنی کہ جس کا ذکر قرآن کی چند آیتوں میں ہے، شادی شدہ لونڈیاں بھی ہو سکتا ہے۔
· اسلام کے ابتدائی
ادوار میں جنگی قیدیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت تھی۔
· صحابہ کرام نے
جنگ میں گرفتار ہونے والی خواتین کے ساتھ عزل کیا تھا۔
· آہستہ آہستہ جنگی
قیدیوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کا رواج غیر قانونی بنا دیا گیا۔
· اسلام نے باندیوں
کے لئے زنا کی سزا مقرر کی ہے
-----
اسلامی معاشرے کے علمی
حلقوں میں کنیزوں یا باندیوں کے معاملے پر خوب بحثیں ہوئی ہیں۔ روایتی علماء اسلام
متفقہ طور پر یہ مانتے ہیں کہ قرآن باندیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی
اجازت دیتا ہے۔ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل آیات کا حوالہ پیش
کرتے ہیں۔
"اے غیب بتانے والے (نبی)! ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں
تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو اور تمہارے ہاتھ کا مال کنیزیں جو اللہ نے تمہیں
غنیمت میں دیں۔" (الاحزاب:50)
اسی آیت میں اللہ مزید
فرماتا ہے:
"اور ایمان والی عورت اگر وہ اپنی جان نبی کی نذر کرے اگر نبی
اسے نکاح میں لانا چاہے یہ خاص تمہارے لیے ہہے امت کے لیے نہیں ہمیں معلوم ہے جو
ہم نے مسلمانوں پر مقرر کیا ہے ان کی بیبیوں اور ان کے ہاتھ کی مال کنیزوں میں یہ
خصوصیت تمہاری اس لیے کہ تم پر کوئی تنگی نہ ہو، اور اللہ بخشنے والا
مہربان۔"(احزاب:50)
قرآن مجید کی ایک دوسری
آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
"اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں - مگر اپنی
بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں -
تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔" (المومن: 7-5)
لیکن جدید علماء اسلام ان
سے زبردست اختلاف رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید باندیوں کے ساتھ جنسی
تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور وہ اپنی دلیل کے حق میں قرآن کی
مندرجہ ذیل آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔
"اور نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق
بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں۔" (نور:32)
"اور تم میں بے مقدوری کے باعث جن کے نکاح میں آزاد عورتیں
ایمان والیاں نہ ہوں تو ان سے نکاح کرے جو تمہارے ہاتھ کی مِلک ہیں ایمان والی
کنیزیں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے، تم میں ایک دوسرے سے ہے تو ان سے
نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور حسب دستور ان کے مہر انہیں دو قید میں
آتیاں نہ مستی نکالتی اور نہ یار بناتی جب وہ قید میں آجائیں پھر برا کام کریں تو
ان پر اس سزا کی آدھی ہے جو آزاد عورتوں پر ہے۔ "(النساء:25)
"اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ
ہوجائیں۔" (البقر:221)
صحیح بخاری میں ایک ایسی
حدیث موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
مسلمان جنگ میں قید کی گئی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے تھے۔
ابوسعید خدری روایت کرتے
ہیں، "ہم نے بنی مصطلق کی بہت سی خواتین کو ایک جنگ میں گرفتار کیا تھا۔ ہم
ان کے ساتھ عزل کرتے تھے۔ ایک دن ہم نے پیغمبر اکرم ﷺ سے پوچھا کہ"عزل کا عمل
کیسا ہے؟" نبی ﷺ نے تین بار پوچھا، "کیا تم ایسا کرتے ہو؟" پھر آپ
ﷺ نے فرمایا "اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ قیامت تک جس روح کو پیدا ہونے کا حکم
دیا جا چکا ہے وہ کسی بھی طرح پیدا ہو کر ہی رہے گی۔ "(کتاب النکاح، صحیح
بخاری، 191)
اس حدیث سے قرآن کی اس
آیت کی تصدیق ہوتی ہے جس میں باندیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی
گئی ہے۔
"اے غیب بتانے والے (نبی)! ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں
تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو اور تمہارے ہاتھ کا مال کنیزیں جو اللہ نے تمہیں
غنیمت میں دیں۔" (الاحزاب:50)
سورہ المومنون کی آیت سے
بھی یہی ثابت ہوتا ہے:
"اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں - مگر اپنی
بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں -
تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔" (المومن: 7-5)
بیوی اور ملک الیمین کے
علاوہ سے جسمانی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنا حد سے تجاوز کرنا ہے۔
لیکن دوسری آیتوں میں
باندیوں اور لونڈیوں کے ساتھ شادی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث
میں لونڈی کے لئے زنا پر جسمانی سزا تک کیا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
قرآن اور احادیث بنویہ شادی کے بغیر لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے
روکتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "جب کسی
لونڈی کے زنا کی بات سامنے آئے تو اسے کوڑے مارنا چاہئے لیکن اسے زبانی طور پر
اذیت نہیں دی جانی چاہئے۔ جب وہ دوبارہ زنا کرتی ہے تو اسے دوبارہ کوڑے لگائے
جائیں لیکن زبانی طور پر اسے اذیت نہ دی جائے۔ لیکن اگر وہ تیسری بار پھر زنا کرتی
ہے تو اسے فروخت کردیا جانا چاہئے اگر چہ ایک بال کی قیمت پر ہی۔" (صحیح
بخاری ، کتاب النکاح، 1738)
ایک اور حدیث میں
مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ باندیوں کے ساتھ عزت سے پیش آئیں اور انہیں
اچھی تعلیم دیں اور اچھے اخلاق سکھائیں اور پھر انھیں آزاد کر دیں اور ان سے شادی
کریں۔
ابو موسی روایت کرتے ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اگر کوئی شخص باندی
رکھتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اسے تعلیم دیتا ہے اور اسے آزاد کر دیتا ہے
اور پھر اس سے شادی کرلیتا ہے تو اس کے لئے دوگنا ثواب ہے۔ اسی طرح جو غلام اللہ
کی اطاعت کرے اور اپنے مالک کی فرمانبرداری کرے اسے بھی دوگنا اجر دیا جائے گا۔
"(صحیح بخاری ، کتاب الرہن، 2373)
بریرہ نامی ایک باندی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ وہ
آزادی حاصل کرنے کے لئے تاوان کی رقم ادا کر دیں۔ اس کی شادی اس کی خواہش کے خلاف
مغیث نامی ایک غلام سے ہوئی تھی جس سے وہ نفرت کرتی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا نے اس کے تاوان کی رقم اس آقاؤں کو ادا کر دی اور وہ آزاد ہوگئی۔ آزادی ملنے
کے بعد اس نے مغیث سے طلاق لے لی۔
ایک اور حدیث سے معلوم
ہوتا ہے کہ غلام عورتوں اور غلام مردوں کو ان کے آقاؤں کا بھائی اور بہن کہا گیا
ہے۔
مرور بن سوید روایت کرتے
ہیں کہ انہوں نے ابوذر غفاری کو دیکھا کہ وہ اپنے غلام ہی کی طرح ایک جوڑا کپڑا
زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ابوذر غفاری سے اس کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے جواب دیا
کہ ایک بار میں نے اپنے غلام سے بد زبانی کی اور غلام نے اس کی حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم سے شکایت کر دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا
کہ "کیا تم نے اسے برا بھلا کہا ہے؟" میں نے کہا کہ ہاں ایک بار میں نے
ایسا کیا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا "تمہارے غلام اور لونڈیاں تمہارے
بھائی بہن ہیں جو تمہاری خدمت کرتے ہیں، اللہ نے انہیں تمہارا ماتحت بنایا ہے
لہذا، تم اپنے بھائی کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور اسے وہی کپڑے پہناؤ جو
تم خود پہنتے ہو اور اسے ایسا کوئی کام مت دو جو وہ نہیں کرسکتا ہے اور اگر کوئی
ایسا کام اسے دو تو اس کی مدد کرو۔" (صحیح بخاری، کتاب الرہن۔ 2371)
حضرت جویریہ کے حوالے سے
ایک اور واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی
اسیروں کو آزاد کرنے کے بعد ان کے ساتھ شادی کرنے اور انھیں ایک با وقار زندگی
بخشنے اور غلام ہونے کا دھبہ ان سے دور کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث
کے مطابق حضرت جویریہ کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے بعد قید کرلیا گیا تھا۔ وہ قبیلہ
بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔ جنگ کے بعد بنی مصطلق کی بہت سی عورتیں غلام بنا
لی گئیں اور حضرت جویریہ ایک مسلمان کے حصے میں آئیں۔ حضرت جویریہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی رہائی کے
لئے تاوان کی رقم ادا کر دیں کیونکہ وہ ایک سردار کی بیٹی تھیں اور انہیں ایک
لونڈی کی زندگی پسند نہیں تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تاوان
کی رقم ادا کی اور انہیں آزاد کردیا۔ ان کی آزادی کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کی رضامندی سے ان سے شادی کر لی۔
لہٰذا اب یہ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ سورہ المومنون اور سورہ الاحزاب کی آیتوں میں ملک الیمین ساتھ جنسی
تعلقات کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ لیکن جب ہم سورہ النساء کی اس آیت پر غور کرتے
ہیں تو الجھن دور ہوجاتی ہے۔
’’جب وہ قید میں آجائیں پھر برا کام کریں تو ان پر اس سزا کی آدھی
ہے جو آزاد عورتوں پر ہے۔"(النساء:25)
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ
اگر باندی زنا کرے تو آزاد عورتوں کے مقابلے اسے آدھی سزا ملے گی۔ آیت نے یہ واضح
کر دیا ہے کہ نکاح کے بعد بھی سزا کے معاملے میں ایک عورت کسی شخص کی دوسری بیویوں
سے ممیز و ممتاز ہوگی۔ اگر ہم سورہ مومنون اور احزاب میں مذکور ملک الیمین کے اس
معنی کو اخذ کریں تو الجھن دور ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ایک شخص کی تمام بیویوں کو نکاح
کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے لیکن قانونی مقاصد کے لئے ایک باندی اس وقت بھی باندی
ہی سمجھی جائے گی۔ لہذا ایک باندی زمانے کے معاصر معاشرتی اور قانونی اصولوں کی
بناء پر شادی کے بعد بھی باندی ہی تصور کی جائے گی۔ لہذا جب قرآن "بیویاں اور
ملک الیمین" کہتا ہے تو اس کا مطلب ہے بیویاں اور شادی شدہ باندیاں۔ اگر ’’ما
ملکت ایمانکم‘‘ کا یہ معنی اخذ کیا جائے تو الجھن دور ہوجاتی ہے اور ان علماء
اسلام کی دلیل کو تقویت مل جاتی ہے جو شادی کے بغیر باندیوں کے ساتھ جنسی تعلقات
کے خلاف ہیں۔ ما مالکت ایمانکم کا مطلب "شادی شدہ باندی" ہوسکتا ہے.
اسلامی فقہاء کے مطابق
ایام جاہلیت میں جنگی قیدیوں اور ان کے آقاؤں کے مابین تعلق ’عہد ملک‘ پر مبنی تھا
اور مالک اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتا تھا جیسا کہ بنی مصطلق کے بارے
میں حدیث سے ظاہر ہے۔ بچے کو جنم دینے کے بعد ایسی خواتین کو ام الولد کہا جاتا
تھا اور وہ بچہ آزاد تصور کیا جاتا تھا۔ وہ عورت زندگی بھر اپنے آقا کے ساتھ رہتی
تھی اور اپنے مالک کے مرنے کے بعد خود بخود آزاد ہوجاتی تھی۔ لیکن قرآن و حدیث نے
اس روایت کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ باندیوں اور لونڈیوں کے ساتھ شادی کی حوصلہ
افزائی کی گئی اور خود پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت ماریہ قبطیہ اور بعد کے عہد میں حضرت
صفیہ سے شادی کی۔ خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جنگی قیدیوں
کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر مکمل پابندی عائد ہو چکی تھی اور اسے زنا سمجھا
جاتا تھا۔ اسلامی فوج کے ایک کمانڈر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک جنگی قیدی کے
ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر زنا کی سزا حکم دیا تھا۔ تاہم، حکم کی تکمیل سے
پہلے ہی اس کمانڈر کی موت ہوگئی۔
لہذا، اگر ہم سورہ احزاب
اور سورہ مومنون میں مذکورہ ملک الیمین کو سورہ النساء کی آیت نمبر 25 کی روشنی
میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو لونڈیوں اور باندیوں کے بارے میں تمام آیات ہم
آہنگ نظر آتی ہیں۔
English
Article: Why Do Modern Islamic Scholars Shy Away From The
Clear Verses about Milkal Yameen: Does Quran Allow Sexual Relationship With
Bondwomen?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism