سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
اسلام ہی نہیں دنیا کے تمام مذاہب میں دین کی تبلیغ و اشاعت پرامن طور سے کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے لئے جبر و تشدد کرنا یا لالچ دینا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر مذہبی بھی ہے۔جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے وہ اپنی ہی قوم کے فرد تھے۔ نہ ان کے پاس فوج تھی، نہ فرشتوں کا گروہ تھا اور اسی لئے منکردین اور کفار ومشرکین انبیاء کرام کو ماننے سے انکار کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر تم خدا کے بھیجے ہوئے نبی ہوتو پھر تم ہماری طرح کیوں ہو، تم ہماری طرح کھاتے پیتے ہو اور بازاروں میں پھرتے ہو۔ اگر تم نبی ہو تو تمہارے ساتھ فرشتے کیوں نہیں چلتے۔ان انبیاء کرام نے پرامن طور دین کی تبلیغ و اشاعت کی۔ خدا بھی قرآن میں ابنیاء رکرام سے کہتاہے کہ آپ کا کام صرف لوگوں کو نیکی کی تلقین اور برائی کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے اور شرک اور کفر سے باز رہنے کی تلقین کرناہے۔ ان کوعوام کوداروغہ بننے سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ دین میں جبر واکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے بھی پرامن طور پر دین کی اشاعت و تبلیغ کی۔ اس کام میں انہیں پتھر بھی کھانے پڑے اور گالیاں بھی سنیں۔ انہیں طرح طرح سے ایذا دی گئی یہاں تک کہ طائف میں حضرت جبرئیل خدا کے حکم سے حضور پاک ﷺ کے پاس تشریف لائے اور ان سے کہاں کہ اگر آپ حکم دیں تو ملک الجبال طائف کی بستی کو کچل ڈالیں۔ مگر آپ ﷺ نے ان کے لئے بددعا نہیں کی اور پرامن طریقے سے ہی تبلیغ و اشاعت دین کرتے رہے۔ان کے صحابہ کرام بھی حضور پاک ﷺ کے نقش قدم پر دچلتے ہوئے دین کی اشاعت کی اور اس راہ میں تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں۔
اسلام کے آغازمیں مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مسلمانوں کو کفار و مشرکین مکہ سے جنگیں لڑنی پڑیں جواسلام کے بقا کی جنگ تھی۔ وہ جنگیں ان پر تھوپی گئی تھیں۔ یہ جنگیں ایک طرح سے سیاسی جنگیں تھیں۔ یہ جنگیں صرف اس لئے نہیں تھیں کہ محمد ﷺ کفار و مشرکین کی دین کی مخالفت کررہے تھے اور مسلمانوں کے دین کی ترقی سے انہیں اپنے دین کے لئے خطرہ محسوس ہورہاتھا۔ بلکہ ان کی دشمنی اس لئے بھی تھی کہ اسلام کی ترقی سے ان کے معاشی اور سیاسی مفادات بھی خطرے میں پڑگئے تھے۔ یہودی سود کا کاروبار اور شراب کا کاروبا ر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی لونڈیوں سے جسم فروشی کا بھی کاروبار کراتے تھے۔ ان سب کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ یہودیوں کے پاس گنوار اور ان پڑھ مسلمان اپنی امانتیں رکھتے تھے تو وہ ہڑپ کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان پڑھ اور گنوار لوگوں کا مال ہڑپ لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لہذا، اسلام کے فروغ سے ان کی معاشی اور سیاسی طاقت پر برا اثر پڑرہاتھا۔ اگر حضور پاک ﷺنے صرف توحید کی تبلیغ و اشاعت کی ہوتی اور نماز پڑھنے کی تلقین کی ہوتی اور ان کے غیراخلاقی کاروبار پر اعتراض نہیٰں کیا ہوتا تو مشرکین اور یہودی مسلمانوں کی اتنی مخالفت نہ کرتے۔
مسلمانوں اور کفارو مشرکین کے درمیان ان وجوہات سے جو جنگیں ہوئیں اور ان جگنوں کے دوران جو قرآن کی آیات حرب نازل ہوئیں وہ صرف اس وقت کے حالات اور ضرورت کے مطابق تھی۔ مگر ان آیات حرب تبلیغ دین سے جوڑ کر دیکھا گیا اوران پر اتنی زیادہ بحث ہوئی کہ ان آیات کوہی اسلام کا بنیادی عنصر اور جنگ اور قتال کو ہی مسلمانوں کا بنیادی فریضہ سمجھ لیاگیا۔ کچھ علماء اور مفسرین نے بھی آیات حرب کو ہردور کے لئے قبل تقلید و تطبیق قراردیاگیا اور لفظ جہاد کی غلط توضیح کی مدد سے جہاد کو مشرکین اور کفار کے خلاف ہر دور اور ہر حالت (حالت جنگ و حالت امن) میں فرض قراردیاگیا۔
حقیت یہ ہے کہ اسلام اور کفر میں جو ابتدائی دور میں جنگیں ہوئیں ان کی نوعیت مذہبی سے زیادہ سیاسی تھی جیسا کہ اوپر کر کیاگیاہے۔ ان کا تعلق اسلام کی اشاعت سے نہیں تھا۔ قرآن نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے کہیں بھی طاقت کے استعمال کی ہدایت نہیں دی ہے۔ اگر کہیں دفاع کی اجازت دی ہے تو صرف اس صورت میں جب اسلام کی تبلیغ کے دروان مخالفین کی طرف سے جارحیت کا سامنا کرنا پڑے اور مسلمانوں کو اپنی جان کی حفاظت کے لئے دفاع کرنا پڑے۔
قرآن میں دین کی اشاعت پرامن طور پر کرنے کے لئے جد وجہد کرنے کی ہرجگہ تلقین کی گئی ہے۔ اسلام کو پھیلانے کے لئے قتال اور جنگ کی ہدایت کہیں نہیں دی گئی ہے۔سب سے پہلے ہم ان آیات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں نبی یا رسول کو پرامن طور پر تبلیغ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے:
”اور میرا کام تویہی ہے ڈر سنادینا کھول کر۔“ (الجاثیہ: 9)
”اعراض کر اور ان کو نصیحت کر۔“ (النساء: 63)
’مجھکو حکم ہے کہ رہوں حکم برداروں میں اور یہ کہ سنادوں قرآن پھر جو کوئی راہ پر آیا سو راہ پر آئیگا اپنے بھلے کو اور جو کوئی بہکار ہا تو کہہ دے میں تو یہی ہوں تنبیہ کرنے والا۔“ (النحل: 95)
”اور مخالف نہیں ہوئے کتاب والے مگر جب انکو معلوم ہوچکا آپ کی ضد اور حسد سے اور جو کوئی انکار کرے اللہ کے حکموں کا تو اللہ جلدی حساب لینے والا ہے۔ پھر بھی اگر تجھ سے جھگڑا کریں تو کہہ دے میں تابع کیا اپنا منہ اللہ کے حکم پر اور انہوں نے بھی جو میرے ساتھ ہیں اور کہہ دے کتاب والوں کو ااور ان پڑھوں کو کہ تم بھی تابع ہوتے ہو تو پھر اگر تابع ہوئے تو انہوں نے راہ پائی سیدھی اور اگر منہ پھیریں تو تیرے زمہ صرف پہنچادیناہے۔“ (آل عمران: 20)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism