سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
29 جولائی 2021
جنگی آیات کی انتہا
پسندانہ تشریح دہشت گردانہ نظریات کی بنیاد ہے
اہم نکات:
1. دہشت گرد تنظیمیں
دہشت گردی کے جواز کے لیے مین اسٹریم فقہاء کا حوالہ دیتی ہیں
2. وہ اپنی دہشت
گردانہ سرگرمیوں کو جہاد کے نام پر چھپاتے ہیں
3. وہ اپنے نظریے کی
تائید میں جنگی آیات کا استعمال کرتے ہیں
-----
دہشت گردی کی اصطلاح اس
وقت استعمال کی جاتی ہے جب مایوس لوگوں کی ایک جماعت کسی نظریے کو زبردستی نافذ
کرنے کے لیے بے دریغ تشدد کا استعمال کرتی ہے۔ یہ کسی مذہبی یا ملحد گروہوں کے
ساتھ مخصوص نہیں بلکہ پچھلے 20 سالوں سے دنیا بھر کی مسلم انتہا پسند جماعتیں اپنے
پرتشدد اور انتہا پسندانہ نظریہ کو نافذ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتی آئی
ہیں۔ القاعدہ پہلا بڑا دہشت گرد گروہ تھا جو اس صدی کے آغاز میں نمایاں ہوا۔ اس نے
امریکی دفاعی اور سفارتی مراکز پر چھوٹے بڑے حملوں کے علاوہ نیو یارک کے ٹون ٹاورز
پر حملہ کیا۔ طالبان، بوکو حرام، الشباب، النصرہ داعش اور ان جیسی دیگر دہشت گرد
اور انتہا پسند مسلم تنظیمیں ایک متشدد مذہبی نظریہ پر عمل پیرا ہیں اور وہ اپنا
اسلامی نظام حکومت یا معاشرے یا نظام تعلیم نافذ کرنا چاہتی ہیں۔
یہ تمام شدت پسند تنظیمیں
بے گناہوں، عورتوں اور بچوں کا بے دریغ قتل کرتی ہیں اور بے گناہ مسلمانوں کے قتل
کو جائز ٹھہرانے کے لیے مرکزی دھارے کے فقہاء کی کتابوں اور فتووں کا حوالہ دیتی
ہیں۔ قرآن میں مذکور نظریہ جہاد کو ان دہشت گرد تنظیموں نے اپنے دہشت گردانہ
نظریات اور سرگرمیوں کو جائز ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے
جہاد کی اصطلاح کو دہشت گردی سے بدل دیا۔ قرآن میں جہاد کا مطلب حق کی راہ میں
جدوجہد کرنا اور اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے لیکن انتہا پسندوں اور دہشت گردوں
نے قرآنی اصطلاح جہاد کا مطلب غیر جنگجو غیر مسلموں کے ساتھ لڑنا اور انہیں قتل
کرنا لیا ہے جس میں اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ ان کی نظر میں سب کافر ہیں۔
لیکن دہشت گردی کے اس
دینی نظریہ کی نشوونما میں قرآن کے چند مین اسٹریم مفسرین کی تحریروں اور تشریحوں
نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ قرآن کی جنگ سے متعلق سیاق و سباق والی آیات کو وہ آج
بھی درست مانتے ہیں اور آج کے غیر مسلموں پر ان کا انطباق جائز سمجھتے ہیں۔ آیات
کی تنسیخ کا نظریہ جس کی تائید متعدد معروف مفسرین قرآن اور شاہ ولی اللہ جیسے
اسلامی ماہرین نے کی ہے ایک متشدد مذہبی نظریے کی نشوونما میں انتہائی اہم کردار ادا
کیا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق تمام جنگی آیات کا اطلاق آج بھی مشروع اور افادیت بخش
ہیں۔ مثال کے طور پر دہشت گرد آج کے غیر جنگجو غیر مسلموں کے خلاف تشدد کے ارتکاب
کے لیے سیاق و سباق والی اس آیت کا استعمال کرتے ہیں۔
"اے ايما ن والوں جہاد کرو ان کافروں سے جو تمہارے قريب ہيں
اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی پائیں"۔ (التوبہ: 123)
یہ سمجھنے کے لیے کہ
ہمارے مین اسٹریم مذہبی علماء نے کس طرح مسلمانوں میں انتہا پسندانہ نظریات کو
فروغ دیا ہے ہم 20 ویں صدی کے ایک بڑے اسلامی ماہر محمد قطب کی مثال لے سکتے ہیں۔
القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن ان کے شاگرد تھے۔ محمد قطب کا ماننا تھا کہ مرتد
قتل کئے جانے کے مستحق ہیں کیونکہ ان کا ارتداد معاشرے کے خلاف جرم ہے نہ کہ خدا
کے خلاف کوئی گناہ۔ قرآن مرتدوں کے لیے سزائے موت کا حکم نہیں دیتا جسمانی سزا کی
تو بات ہی جدا ہے۔
انتہا پسند مفسرین یا اسلامی
ماہرین ان آیات کو نظر انداز کرتے ہیں جو مسلمانوں کو ناانصافی کرنے یا امن پسند
غیر مسلموں کے خلاف تشدد کرنے سے روکتی ہیں۔
"اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور
تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ
برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں" (الممتحناء: 9-8)
قرآن مسلمانوں کو اجازت
دیتا ہے کہ وہ ایک متشدد گروہ سے متحد ہو کر لڑیں اگر وہ مسلمانوں کے خلاف جارحیت
کریں، اور اس طرح مسلمانوں کو مسلم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑنے کی اجازت دیتا
ہے۔
’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ
پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے
حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل
کرو، بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں‘‘۔ (الحجرات:9)
قرآن میں متعدد ایسی آیات
ہیں جو مسلمانوں کو حکم دیتی ہیں کہ وہ دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی عبادت کے طریقہ
کی آزادی کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ تصادم کے بغیر اپنے مذہبی فرائض انجام
دیں۔
"ہم ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کے قاعدے بنادیے کہ وہ ان پر
چلے تو ہرگز وہ تم سے اس معاملہ میں جھگڑا نہ کریں اور اپنے رب کی طرف بلاؤ بیشک
تم سیدھی راہ پر ہو،اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو فرمادو کہ اللہ خوب جانتا ہے
تمہارے کوتک (تمہاری کرتوت)۔ "(الحج: 69)
لیکن دہشت گرد تنظیمیں
اسلام کی خود ساختہ علم بردار بن جاتی ہیں اور اپنی اسلامی ریاست یا خلافت وحشیانہ
طریقے سے نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ وہی حقیقی مصلح ہیں۔
"اور ان سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو
سنوارنے والے ہیں۔ سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں۔" (البقرہ: 13)
''کھاؤ اور پیؤ خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔''
(البقرہ: 60)
"بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے" (الانعام: 135)
یہ بات کہ بے شمار مین
اسٹریم اسلامی علماء، ماہرین اور کچھ مین اسٹریم اسلامی تنظیمیں سیاق و سباق والی
جنگی آیتوں کو آج بھی افادیت بخش اور افاقی مانتی ہیں، اس وقت واضح ہوئی جب دہشت
گرد تنظیم داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا اور اپنی خلافت کا
اعلان کر دیا۔ ان علماء اور اسلامی تنظیموں نے کھل کر ان کی حمایت کی اور ان کی
جانب سے بے گناہ مسلمانوں اور غیر مسلموں بشمول عورتوں اور بچوں کے قتل کا دفاع
کیا۔ داعش نے گرجا گھروں اور درگاہوں دونوں کو یکساں طور پر تباہ کیا۔ انہوں نے
عورتوں کو غلام بنا کر بیچ دیا کیونکہ بہت سے مین اسٹریم علماء یہ مانتے ہیں کہ
دشمنوں کی عورتوں کو پکڑنا اور ان کے ساتھ جنسی تعلق رکھنا اور پھر انہیں بیچنا
اسلام میں جائز ہے۔
اگرچہ محمد اسد اور
مولانا وحیدالدین خان جیسے 20 ویں صدی کے کچھ لبرل مفکرین اور اسلامی ماہرین نے
فرقہ واریت اور تفوق پسندی کی قید سے آزاد ہو کر قرآن کی از سر نو تعبیر وتشریح
کرنے کی کوشش کی اور کثیر ثقافتی ضروریات اور جدید معاشرتی مجبوریوں کی روشنی میں
مسلمانوں کے اندر نظریاتی تبدیلی لانے کی کوشش کی لیکن 11ویں اور 18ویں صدی کے
علماء و مفسرین کی پیش کردہ اسلام کی انتہا پسندانہ تشریحات کو اب بھی زیادہ درست
سمجھا جاتا ہے جس کی اتباع اور تبلیغ و اشاعت مین اسٹریم علماء کا ایک طبقہ کرتا
ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی نصاب میں ان کتابوں کو شامل کرنے سے اسلام کی پرتشدد تعبیر
کو بڑے پیمانے پر فروغ ملتا ہے۔
لہٰذا دہشت گردی اور فرقہ
وارانہ نفرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمارے مین اسٹریم علماء اور اسلامی
ماہرین کو پہل کرنی چاہیے۔ قرآن کی ایک ایماندارانہ جدید تشریح اور مذہب کو سمجھنے
میں ایک جامع نقطہ نظر سے ہی اسلام کو تشدد، فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی سے
پاک کیا جا سکے گا۔
English Article: The Idea of Jihad in the Quran and Terrorism
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism