سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
میرے مضمو ن ”انبیاء کی فضلیت“ پر غلام غوث صدیقی صاحب کو کچھ اعتراضات ہیں۔ ایک اعتراض یہ ہے کہ تمام انبیاء کو (قرآن کے حوالے سے) برابر ٹھہرایا ہے۔ میں نے یہ لکھا تھا کہ وہ الگ الگ خصوصیات اور معجزوں کی بنیاد پر منفرد اور ممتاز ہیں جس طرح کوئی فٹبال کا اچھا کھلاڑی ہوتاہے تو کوئی کرکٹ کا، کوئی ریاضی پر دسترس رکھتا ہے تو کوئی طبعیات پر۔ میرے اس بیان میں بھی انہیں تضاد نظر آیا۔شاید وہ لفظ منفرد اور ممتاز کامعنی نہیں جانتے۔ ممتاز کامعنی سب سے افضل نہیں ہوتاہے۔ ثانیہ مرزا اور شعیب ملک شوہر اور بیوی ہیں مگر اپنے اپنے شعبے میں ممتاز ہیں۔ انہوں نے جو دلائل دیئے ہیں وہ غیر منطقی ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
”پوری امت، صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین اس بات پر متفق ہیں کہ آخری نبی افضل الانبیاء ہیں۔“
یہاں انہوں نے اس بار ”اپنے کلاسیکی علماء“ کا حوالہ نہیں دیا۔ انہوں نے افضل الانبیاء کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں کہیں ہے تو اس سورۃ اور آیت کا حوالہ دیں۔ ہاں“خاتم النبین“ کا ذکر ہے۔ انہوں نے کنیز فاطمہ کے مضمون میں منقول اس حدیث کا بھی حوالہ نہیں دیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی نبی کو چھوٹا مت سمجھو۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بعض رُسل کو بعض پر فضیلت دی گئی۔ وہ لکھتے ہیں۔
”یعنی بعض رُسل بعض سے افضل ہوئے تو جب افضل ہوئے تو افضل کیوں نہیں کہہ سکتے۔“
میں وہ آیت یہاں نقل کرتا ہوں۔
”یہ سب رسول فضلیت دی ہم نے ان میں بعض کو بعض سے۔ کوئی تو وہ ہے کہ کلام فرمایا اس سے اللہ نے اور بلند کئے بعضوں کے درجے اور دیئے ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو معجزے صریح اور قوت دی اس کو روح القدس سے۔“ (البقرہ:253)
اس آیت میں دو رسولوں کی فضلیت کا ذکر ہے۔ حضرت موسی علیہ اسلام کو یوں فضیلت دی کہ ان سے اللہ نے کلام فرمانے کا شرف بخشا اور حضرت عیسی علیہ السلام کو اس طرح فضیلت دی کہ انہیں صریح معجزے دیئے اور انہیں روح القدس سے قوت دی۔ ان دونوں کے علاوہ بھی بعض دوسرے انبیاء کے بھی درجے بلند کئے۔
غلام غوث صدیقی صاحب بتائیں کہ اس آیت میں کس نبی پر کس نبی کو برتری حاصل ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام پر یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام پر؟ قرآن نے تو یہ کہا کہ ہم نے دونوں کو الگ الگ طور پر فضیلت دی۔ وہ کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا۔
پھر دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے ”بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ یہ تو کہیں نہیں کہا گیا“ ایک کو تمام پر فضیلت دی۔ صرف ایک آیت (البقرہ:253) کا حوالہ دیا جس میں آپ کے مطلب کی بات تھی یا آپ کی آئیڈیولوجی کو جواز ملتا ہے مگر ان دو آیتوں پر آپ کی نظر نہیں گئی جن میں کہا گیا ہے کہ مومن نبیوں میں امتیاز نہیں کرتا۔
”مان لیارسول پر جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو کہتے ہیں کہ ہم فرق نہیں کرتے اس کے پیغمبروں میں۔ (البقرہ:285)
”او رتم کہہ دو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو اترا ہم پر اور جو اترا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب او راس کی اولاد پر اور جو ملا موسی علیہ السلام کو اور عیسیٰ علیہ السلام کو او رملا دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے۔ ہم فرق نہیں کرتے ان سب میں سے کسی ایک میں بھی۔“ (البقرہ: 136)
مندرجہ بالا دونوں آیتوں میں مسلمانوں کا طرز عمل یہ بتایا گیا ہے کہ وہ نبیوں میں امتیاز نہیں کرتے۔ اور آپ جب کسی کو سب سے افضل کہتے ہیں تو پھر دوسروں کو کم تر بھی بتاتے ہیں جب کہ قرآن کہتا ہے کہ مسلمان نبیوں میں امتیاز نہیں کرتے۔
یہود اپنے نبی کو افضل مانتے تھے اور عیسائی اپنے نبی کو افضل مانتے تھے او ران کے اس عقیدے کا رد قرآن نے یہ کہہ کر کردیا ہے۔
”یہود یوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں توعیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں مگر یہ سب محض ان کے منہ کی باتیں ہیں جو وہ گزشتہ زمانے کے مفکروں کی نقل میں کرتے ہیں۔“ (30:9)
ان قوموں کے عقائد ہمارے لئے نظیر یا مثال نہیں بن سکتے جب کہ اس معاملے میں قرآن او رحدیث ہمارے لئے طرز عمل متعین کر چکے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی قسم قرآن بھی کہتا ہے اور ان کی عظمت سے کسی کافر کو ہی انکار ہوسکتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی قرآن دیگر تمام انبیاء کرام کی عظمت کا بھی ذکر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مسلمانوں سے کہتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو۔ اس کے ساتھ ہی وہ دیگر انبیاء پر بھی سلام بھجتا ہے۔
”سلام علیٰ موسیٰ و ہارون“ (الصّٰفّٰت:130)
”سلام علیٰ اِل یاسین۔(الصّٰفّٰت:130)
”سلام علیٰ ابراہیم“ (الصّٰفّٰت:109)
”سلام علیٰ نوح فی العالمین (الصّٰفّٰت:79)
ان پر قرآن سلام بھیجتا ہے اور ہر روز لاکھوں مسلمان قرآن کی تلاوت کرتے وقت ان تمام انبیا ء پر سلام بھیجتے ہیں۔ اس میں خدا کی مصلحت یہ ہے کہ اگر قرآن ان انبیاء پر سلام نہ بھیجتا توہم جیسے تنگ ذہن مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح صرف اپنے نبی پر سلام بھیجتے اورانہیں کم تر سمجھ کر ان پر سلام نہ بھیجتے۔بغیر سند کے تو ہمارا طرزعمل یہ ہے اگر قرآن نے سند دے دی ہوتی تو ہم کھل کر دوسرے انبیاء کو کم تر کہتے اور گناہ کے مرتکب ہوتے۔
میرا خیال ہے کہ عربی کے جملے ”فضّلنا“ کا ہم نے وہ مفہوم نہیں لیا ہے جو قرآن کا ہے۔”ہم نے فضل کیا اور ”ہم نے افضل بنایا “ دو الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ ”فضّلنا“ کا کون سا ترجمہ قرآن کے مفہوم اور اس کی اسپرٹ سے زیادہ قریب ہے یہ دیگر آیتوں کے تناظر میں سمجھنا ہوگا۔ خود غلام غوث صدیقی عربی زبان کے عالم ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ عربی میں ایک لفظ کے 20معنی ہوسکتے ہیں۔ تو پھر ایک ہی معنی سے چمٹ جانا کہاں کی دانش مندی ہے؟
اللہ نے حضرت داؤد پر فضل کیا اور انہیں زبور عطا کیا۔اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضل کیا اور ان سے کلام فرمایا۔ اللہ نے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فضل کیا اور نہیں صریح معجزے دیئے۔ اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فضل کیا اور انہیں معراج عطا کیا۔ سبھوں کو ایک دوسرے سے الگ بنایا کیا اس طرح سے نہیں پڑھ سکتے؟
انجم صاحب، مجھے اعتراف ہے کہ میرا قرآن کریم کامطالعہ کمزور ہے۔ پھر بھی قرآن سے یہ میری انسیت ہے کہ اپنی کند ذہنی کے باوجود اسے سمجھنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔ دعا کی درخواست ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/s-arshad,-new-age-islam/quran-and-hadith-accord-equal-status-to-all-prophets/d/120008
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/status-prophets-eyes-quran-hadith/d/120013
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism