سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
27 مارچ 2021
قرآن کریم کی تفسیر کی
روایت پہلی صدی ہجری میں اموی خلیفہ عبدالملک کے حکم پر شروع ہوئی۔ پہلی تفسیر ان
کے ہی دور خلافت میں مرتب کر لی گئی تھی۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے
بعد اسلامی ریاست میں وسعت آئی جس کے پیش نظر مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات کو دنیا
بھر کے عام مسلمانوں کے لیے قابل رسائی بنانے کی ضرورت محسوس کی جس کے نتیجے میں
علم تفسیر کی تدوین عمل میں آئی۔
قرآنی آیات کو نہ صرف
جبرئیل علیہ السلام نے نبی ﷺ پر نازل کیا بلکہ جبرائیل علیہ السلام نے ان آیات
قرآیہ کے معانی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے۔ مندرجہ ذیل آیات سے یہی
ثابت ہوتاہے:
"تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اس وقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔
پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے " (القیامہ:
18-19)
"اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ
انہیں صاف بتائے پھراللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور وہ راہ دکھاتا ہے جسے چاہے،
اور وہی عزت و حکمت والا ہے ۔" (ابراہیم: 4)
"اور وہ کوئی کہاوت تمہارے پاس نہ لائیں گے مگر ہم حق اور اس
سے بہتر بیان لے آئیں گے۔" (احسن تفسیر) (الفرقان: 33)
ابتدائی دور میں نزول
قرآن کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے حفظ کرنے اور آیات کی تفسیر و تشریح کے
بارے میں پریشان رہا کرتے تھے۔ اس پر اللہ نے آپ ﷺ کو فکر نہ کرنے کی ہدایت دی اور
اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ قرآن یاد کرانے اور آیات کی تفسیر سکھانے کی ذمہ
داری میری ہے۔
سورہ فرقان میں لفظ تفسیر
کا استعمال قرآن کی بہتر تفہیم کے لیے تفسیر کی روایت کو جواز فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح سورہ ابراہیم میں
لفظ لسان قوم کا استعمال دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ قرآن کو جائز قرار دیتا
ہے کیونکہ قرآن دنیا کے تمام لوگوں کے لیے قیامت تک کے ہر دور کے لئے نازل ہوا ہے۔
سب سے پہلی جامع تفسیر
تیسری صدی ہجری میں امام طبری نے لکھی۔ انہوں نے اس سلسلہ اسناد کی مدد سے تفسیر
مرتب کی جو اس وقت دستیاب تھی۔ اپنے متوازن اور سائنسی نقطہ نظر کی وجہ سے ان کی
یہ تفسیر سب سے معتمد تفسیر مانی جاتی ہے۔ اس تفسیر کو ام التفاسیر بھی کہا جاتا
ہے کیونکہ بعد کے تمام مفسرین نے اس سے استفادہ کیا ہے۔
ایک اور اہم تفسیر ابن
کثیر کی تفسیر ہے جسے عام طور پر تفسیر ابن کثیر کہا جاتا ہے۔ یہ تفسیر تفسیر طبری
کے بعد سب سے معتمد اور جامع تفسیر ہے۔ ابن کثیر نے تفسیر طبری سے بہت زیادہ
استفادہ کیا ہے جو کہ کئی جلدوں میں دستیاب ہے۔ اگرچہ ابن کثیر سخت گیر اسلامی
اسکالر ابن تیمیہ کے شاگرد تھے لیکن ان کی تفسیر اپنے سائنسی اور متوازن انداز
بیان کی وجہ سے معتمد ہے۔ یہ تفسیر سلفیوں میں زیادہ مقبول ہے۔
ایک اور اہم تفسیر تفسیر
جلالین ہے، جسے 16 ویں صدی عیسوی میں جلال الدین محلی اور ان کے شاگرد جلال الدین
سیوتی نے مشترکہ طور پر تحریر کی ہے۔
اس کے بعد علم تفسیر
باضابطہ طور پر مدون ہو چکی تھی اور کئی زبانوں میں ہزاروں تفسیریں لکھی جا چکی
تھیں۔ ان میں سے کچھ تفسیریں کئی سو جلدوں میں مدون کی گئیں جسے عام مسلمانوں کے
لیے پڑھنا آسان نہیں تھا۔ مثال کے طور پر تفسیر حقائق 500 جلدوں میں لکھی گئی تھی۔
بعد کے برسوں میں قرآن کی
تفسیر مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کی تبلیغ کا ذریعہ بن گئی۔ مختلف فرقوں اور
مکاتب فکر کے علماء نے اپنے فرقے یا گروہ یا نظریے کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات
کی تشریح کی۔ آیات کی وضاحت کرتے ہوئے جدید مفسرین نے سلاسل اسناد کو ترک کر دیا
یا نظر انداز کر دیا تاکہ وہ اپنی توضیح پیش کر سکیں۔
مثال کے طور پر معتزلیوں
نے قرآن کی اپنے نقطہ نظر سے تشریح کی اور صوفیوں نے صوفی یا وحدت الوجود کے نقطہ
نظر سے آیات کی تشریح کی۔ بہت سی اسرائیلیات بھی تفسیر میں شامل کر لی گئی۔ حقائق
التفسیر قرآن کی ایک صوفی تفسیر ہے جبکہ تفسیر العجائب والغرائب آیات قرآنیہ کے
بعید المعانی توضیحات پر مشتمل ہے۔ ان دونوں تفسیروں کو علماء نے مسترد کر دیا ہے۔
اسی طرح شیعوں نے اپنے
فرقہ وارانہ عقائد کا جواز پیش کرنے کے لیے تفسیریں لکھی ہیں۔ احمدی فرقے کے اپنے
فرقہ وارانہ نظریے پر مبنی اپنی تفسیر ہے۔
ان فرقہ وارانہ تفسیروں
نے قرآن کی تفہیم کو واضح کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جدید دور
میں تفسیر قرآن کا علم اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر تفسیر کا مقصد قرآن
کی تفہیم کو آسان بنانا تھا لیکن حقیقت میں مفسرین کے غیر ایماندارانہ اور فرقہ
وارانہ نقطہ نظر نے قرآن مجید کی تفہیم کو مشکل بنا دیتا ہے۔ قرآن کے ترجمے کے
بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ مختلف فرقوں یا مکاتب فکر کے علماء نے اپنے اپنے
فرقہ وارانہ نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے آیات قرآنیہ کا ترجمہ کیا ہے۔ فرقہ وارانہ
تعصب ان کے تراجم اور تفاسیر سے واضح ہے۔ ان علماء نے قرآن کو مشکل بنا دیا ہے
جبکہ خدا فرماتا ہے:
"اور بیشک ہم نے قرآن یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا تو ہے
کوئی یاد کرنے والا" (القمر: 17)
آج کے مفسرین کے غیر
متوازن اور غیر سائنسی نقطہ نظر کی وجہ سے علماء کی اکثریت آج بھی تفسیر طبری کو
سب سے زیادہ معتمد اور معتبر تفسیر سمجھتی ہے۔ جدید سائنسی اور سماجی سیاق و سباق
پر مبنی عالمی سطح پر قابل قبول ایک جدید تفسیر وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
English Article: Significance of Tafseer in Understanding the Quran
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism