New Age Islam
Sat Sep 14 2024, 07:54 PM

Urdu Section ( 17 March 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sectarianism Among The Muslims: What Should Be The Right Approach? مسلمانوں میں فرقہ واریت: صحیح نقطہ نظر کیا ہونا چاہیے؟

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

 31 دسمبر 2021

 فرقہ واریت تمام مذاہب کا مسئلہ رہا ہے۔

 اہم نکات:

یہودی بہت سے فرقوں میں بٹ گئے اور زمین پر لعنتی بن گئے۔

عیسائی بھی فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور متحد مسلمانوں کے ہاتھوں اپنا غلبہ کھو بیٹھے تھے۔

مسلمان بھی فرقوں میں بٹ گئے اور سیاسی طاقت کھو بیٹھے۔

بدھ مت جو ایشیا میں ایک غالب قوت تھی فرقہ واریت کی وجہ سے زوال پذیر ہوئی

مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات کو ذاتی مذہبی طرز عمل تک محدود رکھیں۔

 ----

-----قرآن کہتا ہے کہ امت مسلمہ ایک متحد قوم ہے اور پوری امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ جسم کے کسی عضو میں درد ہو تو دوسرے اعضاء بھی اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد امت مسلمہ تقریباً 72 فرقوں میں بٹ گئی۔ ان میں سب سے نمایاں سنی اور شیعہ ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں فرقے بھی درجنوں ذیلی فرقوں اور نظریاتی گروہوں میں بٹتے چلے گئے۔ یہ قرآن کے اس موقف کے خلاف تھا جو کہتا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں اور فرقے پیدا کرتے ہیں وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔

 ’’وہ جنہوں نے اپنے دین میں جُدا جُدا راہیں نکالیں او رکئی گروہ ہوگئے اے محبوب! تمہیں ان سے کچھ علا قہ نہیں ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کرتے تھے‘‘۔ (الانعام: 159)

 یہ صرف مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے۔ ان سے پہلے یہودی فرقوں اور ذیلی فرقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان میں فرقے اور اختلافات اس قدر شدید تھے کہ انہوں نے مذہب کی پاکیزگی کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کیا۔ یہاں تک کہ وہ دوسرے فرقوں کو بھی بدعتی قرار دیتے تھے اور دوسروں کے خلاف فتوے جاری کرتے تھے۔ وہ تقسیم ہو گئے کیونکہ وہ تورات کی اصل تعلیمات سے ہٹ گئے تھے۔ یہ دراصل ان پر خدا کے غضب کی ایک شکل تھی:

 "اور انہیں ہم نے زمین میں متفرق کردیا گروہ گروہ، ان میں کچھ نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے اور ہم نے انہیں بھلائیوں اور برائیوں سے آزمایا کہ کہیں وہ رجوع لائیں۔" (الاعراف: 168)

 یہودیوں کے بعد عیسائی بھی فرقوں اور نظریاتی گروہوں میں بٹ گئے اور تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انہوں نے بھی اٹھارویں صدی کے اواخر میں مذہب کی پاکیزگی کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کیا۔ قبل ازیں وہ عیسائی جو تثلیث کے عقیدہ پر یقین نہیں رکھتے تھے انہیں بھی شہنشاہ نے قتل کر دیا تھا۔

 "پھر وہ گروہ آپس میں مختلف ہوگئے۔" (الزخرف: 65)

ہمارے پاس بدھ مت کی مثال بھی موجود ہے جو گوتم بدھ کے انتقال کے سو سال کے اندر درجنوں فرقوں میں بٹ گیا۔ تقسیم کا سبب گوتم بدھ کی تعلیمات کی تشریحات تھیں۔ بدھ مت کے اسکالر وشوناتھ بنرجی لکھتے ہیں:

 "قواعد، عقائد یا یہاں تک کہ لباس کی تیاری اور پہننے میں معمولی اختلاف بھی مختلف فرقوں کے وجود کا سبب بنتا ہے اور یہاں تک کہ بدھ مت کے دائرے میں متعدد یانوں کے ظہور کا باعث بنتا ہے۔ استاد (بدھ) کے اصل الفاظ کی مختلف طریقوں سے تشریح کی جانے لگی جس میں مختلف اور بعض اوقات متضاد معنی نکالے جاتے تھے۔ (مہایان بدھ ازم: اے اسٹڈی ان اٹس ڈیولپمنٹ؛ مہایان بدھ ازم کی تدوین سدھن چندر سرکار، ایشیاٹک سوسائٹی نے کی ہے)

 لہٰذا بدھ کے پرینربن کے ایک سو سال کے اندر اندر درج ذیل بڑے فرقے وجود میں آ گئے:

 مہایان، ہنیان، منترائن، وجرائن، سوترانٹیکاس، سرواستیوادینس، مدھیامیکا وغیرہ۔

حیرت ہوتی ہے کہ یہ بات مسلمانوں کے بارے میں بھی کتنی درست ہے۔ ان میں فرقے محض لباس اور ٹوپی کی بنیاد پر وجود میں آئے اور قرآن کی آیات کی متضاد تشریحات کی بنیاد پر بھی۔

 تمام آسمانی مذاہب کی تقسیم سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فرقہ واریت تمام مذہبی طبقوں کی ایک خصوصیت رہی ہے کیونکہ وہ مذہبی صحیفوں کی تعلیمات کی اپنے اپنے انداز میں تشریح کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ صرف ان کی تشریحات ہی درست ہیں اور صرف انہوں نے ہی نبی کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے پیش کیا ہے۔

بدھ مت کے پیروکاروں میں تقسیم اور فرقہ واریت کا نتیجہ دوسرے فرقوں کے خلاف فتوے کی صورت میں نہیں نکلا اور نہ ہی بدھ کی تعلیمات کی فرقہ وارانہ تشریح کی بنیاد پر ان میں خونریزی ہوئی۔ تاہم، مہایانسٹ (بعد کی شاخ) نے تھیراوڈینز کو آرتھوڈوکس فرقہ ہینایان قرار دیا جس کا مطلب ہے سچائی کو سمجھنے کا کمتر طریقہ ۔ لیکن اس کے نتیجے میں بدھ مت کے پیروکاروں میں تشدد یا خونریزی نہیں ہوئی۔ ہنیانسٹ نے یہ ثابت کرنے کے لیے مہایانسٹوں کی دلیل کا مقابلہ کیا کہ ان کا فرقہ کمتر نہیں بلکہ بدھ کا اصل طریقہ ہے۔

 قرآن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کی بات کرتا ہے اور زمین پر اس کے نتیجے میں ہونے والی توہین ذلت کا ذکر کرتا ہے تاکہ فرقہ واریت کے نتائج سے مسلمانوں (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں) کو خبردار کیا جا سکے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ یہودی جو کبھی دنیا میں خوشحال تھے اور حکومت کرتے تھے وہ خدا کی لعنت کا شکار ہو گئے کیونکہ وہ فرقوں میں تقسیم تھے اور فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔ قرآن نے یسوع مسیح کے پیروکاروں کی مثال بھی پیش کی ہے جو بعد کے دور میں فرقوں میں بٹ گئے اور مذہب کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے خلاف خونریزی کی۔ عیسائی جو کبھی دنیا کی طاقتور جماعت تھے اور تقریباً نصف دنیا پر حکومت کرتے تھے مسلمانوں کے ہاتھ اس لیے شکست کھا گئے کیونکہ وہ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور سیاسی اور روحانی طور پر کمزور ہو چکے تھے۔

 بدھ مت بھی اپنی سادہ تعلیمات اور اپنے جامع سماجی نقطہ نظر کی وجہ سے ایک غالب قوت کے طور پر ابھرا۔ اس نے اچھوتوں اور اعلیٰ ذاتوں کے درمیان فرق کو مٹا دیا۔ یہ اس قدر مقبول ہوا کہ یہ آسام سے خراسان تک ایک غالب مذہبی طبقہ بن گیا۔ یہ انڈونیشیا، جاوا، جاپان اور چین تک بھی پھیل گیا۔

 تاہم، جب وہ فرقوں اور ذیلی فرقوں میں بٹ گئے اور استاد کی متضاد تشریحات پیش کیں، بہت سے ایسے عقائد بھی گڑھے جو بدھ کی اصل تعلیمات کے مطابق نہیں تھے۔

 اس لیے فرقہ واریت ایشیا میں بدھ مت کے زوال کا سبب بنی۔ کبھی اشوک جیسے بادشاہ اس کے سرپرست تھے۔ بعد کے ادوار میں بادشاہ ہی اس کے دشمن بن گئے اور بدھ راہبوں کو قتل کیا اور ان کے وہاروں (خانقاہوں) کو تباہ کر دیا۔

 قرآن میں فرقہ واریت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایسے ہی انجام سے خبردار کرنے کے لیے ان مذہبی برادریوں کے انجام بد کا ذکر ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے پہلے کی امتوں کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

 فرقہ واریت نے پچھلی چند صدیوں میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ قرآن کی فرقہ وارانہ تشریحات کی وجہ سے بہت سے فرقے وجود میں آئے ہیں۔ فرقہ وارانہ تاویلات نے مسلم برادریوں میں قتل و غارت گری کی وجہ بنیں اور کچھ حالیہ مثالیں اس کی گواہی بھی دیتی ہیں۔

 جب فرقہ واریت مذہبی برادریوں کی ایک مستقل خصوصیت ہے تو مسلمانوں کو بھی اس کا ادراک کرنا چاہیے اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے ساتھ بھی اسی روشنی میں اپنا رویہ اپنانا چاہیے۔ انہیں یہود و نصاریٰ کے دوبارہ عروج سے سبق حاصل کرنا چاہیے جنہوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کو پیروکاروں کی ذاتی زندگیوں تک محدود کرنے کے بعد دنیا میں اپنی سیاسی طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ آج یہودیوں یا عیسائیوں میں تشدد اور خونریزی نہیں ہے کیونکہ وہ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ انسان کسی بھی معاملے پر متفق نہیں ہوتے کیونکہ کوئی بھی دو آدمی ایک ہی طرح سے نہیں سوچتے۔ اس لیے انہوں نے سائنسی اور معاشی مسائل پر توجہ مرکوز کی اور آج سپر پاور بن چکے ہیں۔ وہ مسلمان جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن وہ دنیا پر غلبہ حاصل کر لیں گے، درحقیقت وہ اپنی فرقہ وارانہ کمزوری کی وجہ سے دبے ہوئے ہیں۔

 فرقہ وارانہ اختلافات کو اپنے ذاتی طرز عمل تک محدود رکھنا مسلمانوں کے لیے صحیح نقطہ نظر ہونا چاہیے اور انہیں قوم کی اجتماعی فلاح کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لباس پہننے یا ٹوپی کے ڈیزائن جیسے دیگر غیر بنیادی معمولات اور عقائد میں فرق اجتماعی بھلائی کے راستے میں نہیں آنا چاہئے۔ تکفیر کا عقیدہ مسلمانوں میں خونریزی اور قتل عام کا سب سے بڑا سبب رہا ہے۔

English Article: Sectarianism Among The Muslims: What Should Be The Right Approach?

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sectarianism-muslims-jews-christians-buddhists/d/126589

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..