سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن کریم ایک تکثیری معاشرے میں انسانوں کو احترام مذاہب اور بقائے باہم کی تلقین کرتاہے ۔ قرآن کا مؤقف یہ ہے کہ خدانے دنیا میں تخلیقی تنوع کے نمونے پیش کئے ہیں اور کائنات کے ہر گوشے میں رنگارنگی اور تنوع ہے ۔ نباتات ، جمادات ، معدنیات ، پہاڑوں اور سمندروں ہر جگہ تنوع اور اختلاف فطرت اور رنگارنگی ہے ۔ اسی طرح زبانوں ، مذاہب اور رہن سہن اور انسانوں کے مزاج وغیرہ میں بھی اختلاف اور تنوع ہے ۔ خدا خود کہتاہے کہ اگروہ چاہتا تو دنیا کے سارے لوگ ایک ہی مذہب کو ماننے والے ہوتے مگر وہ انسانوں میں فکر اور رائے میں اختلافات سے انہیں آزمانا چاہتاہے ۔ خدا کہتاہے کہ اس نے انسانوں کو الگ الگ مذاہب میں بانٹا تاکہ وہ دیکھے کہ انسان اختلاف میں اتفاق کا راستہ نکال کر کس طرح صبر، تحمل اور رواداری سے ایک دوسرے کے ساتھ بقائے باہم کی کوشش کرتاہے ۔
مسلمانوں میں ایک عام خیال یہ پایاجاتاہے کہ قرآن دیگر تمام مذاہب کی تنسیخ کرتاہے جبکہ قرآن کو ذکر یعنی reminder کہاگیاہے اور پچھلے صحیفوں کی تصدیق کرنے والا کہاگیاہے ۔ قرآن میں اسلام کو بیشک بہترین دین کہاگیاہے اور اسلام کو دین کا نقطہ اختتام کہاگیاہے ۔ اکملت لکم دینکم کا مطلب یہ ہے کہ جس دین کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اس کا تمام حضرت محمد ﷺ پر ہوا
’’آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا‘‘ (المائدہ : ۳)
جبکہ عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اکملت لکم دینکم کا مطلب یہ ہے کہ دین قرآن کے نزول سے شروع ہوکر تکمیل قرآن پر پوراہوا۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن پچھلے صحیفوں کی تنسیخ نہیں کرتا بلکہ ان کی تصدیق کرتاہے ۔ صرف اہل کتاب میں بدعات کے رواج پر تنبیہ کی گئی ہے جس طرح اہل قرآن میں بھی دین میں غلو اور بدعات سے منع کیاگیاہے ۔ قرآن میں کئی مقامات پر اہل کتاب کو اچھے پیرائے میں یاد کیاگیاہے ۔ یہی نہیں بلکہ اہل کتاب کو اپنی کتاب اور اپنے دین پر قائم رہنے کی بھی تلقین کی گئی ہے ۔ اور یہ اشارہ دیاہے کہ جو لوگ توریت ۔ انجیل اور دیگر آسمانی صحیفوں کو مانتے ہیں اور ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں ، قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ کامیاب ہیں اور وہ اسلام کے ساتھ اپنی الگ مذہبی شناخت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔
’’ اور ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر شامل ہے تو جو حکم خدا نے نازل فرمایاہے اس کے مطابق ان کا فیصلہ کرنا اور حق جو تمہارے پاس آچکا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک دستور اور طریقہ (شریعت ) مقرر کیاہے اور اگر خدا چاہتاتو سب کو ایک ہی شریعت پر کردیتامگر جو حکم اس نے تم کو دئیے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنی چاہتاہے سو نیک کاموں میں جلدی کرو تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر جن باتوں میں تم کو اختلاف تھا وہ تم کو بتادے گا۔‘‘(المائدہ: 48)
خدا نے دنیا کا نظام اس طرح ترتیب دیاہے کہ اس میں ہر طرح کی جمہوریت ہے چاہے وہ مذہبی ہو، سیاسی ہو ، لسانی ہو یا ثقافتی ہو اور یہ جمہوریت ہر حال میں اور ہر زمانے میں باقی رہیتی ہے ۔ یعنی ہر طرح کے نظریات ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ باقی رہتے ہیں اور پھلتے پھولتے رہتے ہیں ۔ کوئی بھی ایک نظام کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہوسکتا کہ وہ دوسرے تمام نظاموں کو ختم کرکے دنیا میں فکری و ثقافتی ایک رنگی قائم کردے ۔ دنیا میں ہر زمانے میں مختلف مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہے ہیں اور کوئی ایک مذہب کے پیروکار کبھی بھی اتنے طاقتور نہیں ہوئے کہ وہ دوسرے تمام مذاہب کا نشان مٹادیں ۔ اس حقیقت کو قرآن خود واضح کرتاہے ۔:
’’ اگر اللہ انسانوں کو ایک دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو (راہبوں کے )صومعے (عیسائیوں کے ) گرجے، (یہودیوں کے ) عبادت خانے اور(مسلمانوں کی ) مسجدیں جہاں اللہ کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے ڈھادئیے جاتے ۔‘‘ (الحج : 40)
ہر مذہب میں جارح اور غیر روادار عناصر ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے لئے خطرہ بنتے رہتے ہیں مگر خدا کا جمہوری نظام اتنا مضبوظ ہے کہ دنیا کا یہ مذہبی توازن کبھی نہیں بگڑتا۔
قرآن یہ نہیں کہتاکہ اہل کتاب جو قرآن سے پہلے تھے وہ سب گمراہ ہیں بلکہ قرآن اقرار کرتاہے کہ ان میں اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سیدھی راہ پر ہیں اور اپنے دین کے صحیح احکام پر قائم ہیں ۔
’’یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ان اہل کتاب میں کچھ لوگ اب بھی (حکم خدا پر ) قائم ہیں ۔جو رات کے خدا کی آیتیں پڑھتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں ۔خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور نیکیوں پر لپکتے ہیں اور یہی لوگ نیک ہیں ۔’(آل عمران : 113-114)
آگے چل کر قرآن مزید کہتاہے :
’’بعضے اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اس پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے آگے عاجزی کرتے ہیں اور خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے یہی لوگ ہیں جن کا صلہ ان کے پروردگا رکے ہاں تیار ہے اور خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔‘‘ (آل عمران : 199)
قرآن یہودیوں کے متعلق بھی یہی کہتاہے :
’’اور ہم نے ان کو (یہودیوں کو )جماعت جماعت کرکے ملکوں میں منتشر کردیا۔ بعض ان میں سے نیکو کار ہیں اور بعض اور طرح کے ۔ ‘‘
یعنی قرآن ان کے متعلق بھی کہتاہے کہ سبھی یہودی برے نہیں ہیں بلکہ ان میں ایک طبقہ سیدھی راہ پر قائم ہے ۔
قرآن نصاری کے متعلق یہ بھی کہتاہے کہ ان کے دل میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہوتاہے اور جب انکے سامنے اللہ کا کلام پڑھا جاتاہے تو انکی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔ یادرہے کہ قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کا ذکر اتنے احترام او ر عقیدت کے ساتھ کیاگیاہے کہ اسے پڑھ کر خود عیسائی بھی حیرت میں پڑجاتے ہیں ۔
قرآن اہل کتاب کے تمام فرقوں کو ایک ہی خانے میں رکھتاہے اور ان کے لئے خوش خبری سناتاہے ۔ کیونکہ اہل کتاب میں بھی بہت سے لوگ توحید پر قائم ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں :
’’بے شک جو مسلمان ہوئے اور جو یہودی ہیں اور فقہ صابی اور نصاری جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور قیامت پر اور عمل کرے نیک نہ ان کو ڈر ہے اور نہ وہ غم گین ہونگے ۔‘‘ (المائدہ :69)
ایک دوسرے مقام پر بھی قرآن اسی بات کو دہراتاہے :
’’ بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے ، اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصار ی اور صائبین جو ایمان لایا اللہ ہر اور روز قیامت پر او ر کام کے نیک تو ان کے لئے ہے ان کا ثواب ان کے رب کے پاس اور نہیں ان پر کچھ خوف اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔‘‘ (البقرہ : 62)
قرآن کی رواداری کی مثال یہ آیت ہے کہ جس میں وہ اہل کتاب سے کہتاہے کہ وہ اس کتاب کے مطابق عمل کریں جو ان پر اترا ہے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ کامیاب ہیں ۔ یعنی ایک اسلامی معاشرے میں اہل کتاب اپنے مذہبی صحیفوں کے مطابق زندگی کزار سکتے ہیں ۔
’’اور اگر وہ توریت اور انجیل کو اور جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم رکھتے تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے ان میں کچھ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں ۔‘‘ (المائدہ :66)
’’کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توریت اور انجیل کواور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئیں ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے ۔‘‘(المائدہ :68)
قرآن اسلامی معاشرے میں اہل کتاب کو انکی مذہبی شناخت کے ساتھ رہنے کی بھر پور ضمانت دیتاہے یعنی انکے پرسنل لا کے مطابق انہیں اپنی زندگی گذارنے کی اجازت دیتاہے وہ ایک اسیسے معاشرے کا تصور پیش کرتاہے جہاں اہل کتاب کے مختلف فرقے ایک ساتھ اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔قرآن مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیاں تصادم کی بجائے افہام و تفہیم کی تلقین کرتاہے اور ان کے درمیان مکالمے کی وکالت کرتاہے تاکہ اختلافات کو نظر اندااز کرکے مفاہمت کے نکتے تلاش کئے جائیں ۔
’’اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرومگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہوہاں جو ان میں سے بے انصافی کریں اور کہہ دو کہ جو ہم پر اتری اور جو تم پر اتری ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم سب مسلمون ہیں ۔‘‘(العنکبوت : 46)
بلاشبہ قرآن اہل کتاب میں رائج بدعات اور باطل عقائد کی حمائت نہیں کرتا اور سخت لہجے میں ان کی تنبیہ کرتاہے ۔ مثال کے طور پر ان کے یہاں trinity یا تثلیث کا جو تصور رواج پاگیاہے ا س کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتاہے اور اہل کتاب کو ایسے باطل عقائد سے توبہ کرنے کی تلقین کرتاہے ۔
’’اے کتاب والو مت مبالغہ مت کرو اپنے دین کی بات میں اور مت کہو کہ اللہ کی شان میں مگر سچی بات۔ مسیح جو ہے عیسی مریم کا بیٹا وہ رسول ہے اللہ کا اور اس کا کلام ہے جس کو ڈالا مریم کی طرف اور روح ہے اس کے ہاں کی ۔‘‘ ( انساء : 171)
قرآن مسلمانوں کو اہل کتاب سے اچھے مراسم رکھنے کی تلقین کرتاہے اور ان کے ساتھ مفاہمت کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتاہے ۔ انہیں اسلای معاشرے میں تمام مذہبی حقوق کی ضمانت دیتاہے اور مسلمانوں سے کہتاہے کہ اختلافات کونظر انداز کرکے ان کے ساتھ بقائے باہم کا رویہ اپنانے کی تلقین کرتاہے ۔ قرآن میں حضرت عیسی اور حضرت مریم کا ذکر تفصیل اور احترام کے ساتھ کرنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism