New Age Islam
Sat Sep 14 2024, 07:30 PM

Urdu Section ( 3 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Maulana Abul Kalam Azad Shaped India’s Educational Policy on Scientific Grounds مولانا آزاد نے ہندوستان کے تعلیمی نطام کو سائنسی بنیاد عطا کی

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

3 فروری 2022

مولانا آزاد آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے اور یہ عہدہ ان پر آج تک فخر کرتاہے کیونکہ ان کے بعد کوئی بھی وزیر تعلیم ان کے قد اور ان کے جیسی علمی اور انتظامی بصیرت کا حامل نہین ہوا۔ مولانا آزاد وزیر تعلیم ہونے کے ساتھ کابینی ستح کے وزیر بھی تھے اور وہ ملکی معاملات پر اثر انداز ہوتے تھے۔

انہوں نے آزادی کے بعد ہندوستان کے تعلیمی نظام کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔ وہ اگرچہ ایک دینی ماحول میں پیدا ہوئے تھے اور پرورش پائی تھی وہ ایک روشن خیال اور وسیع النظر عالم دین اور دانشور تھے ۔ انہوں نے ملک کو جو تعلیمی نظام اور سائنسی سمت دی اس کی بنیاد پر آج ہندوستان علمی، تعلیمی اور سائنسی میدان مین ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ ہندوستانن نے معاشی  اور سائنشی میدانوں میں قابل قدر ترقی کی ہے اور ایک عظیم عالمی طاقت بن سکا ہے تو اس میں مولانا آزادی کی علمی اور سائنشی بصیرت کو کافی دخل ہے۔ پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں اتنی سائنسی ترقی نہین کرسکا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے اپنے اولین دور میں مولانا آزاد جیسا وزیر تعلیم نہیں ملا۔

مولانا آزاد نے ملک کے تعلیمی نظام میں اصلاحات لانے اور اس کو عالمی سطح تک لانے کے لئے کئی قا بل زکر اقدامات کئے۔وہ ویر تعلیم کی حیثیت سے نہ صرف مسلمانوں کے دینی تعلیمی نظام میں اصلاح کی فکر تھی بلکہ پورے ملک کے جدید تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی فکر تھی۔  انہوں نے جس فرسودہ تعلیمی نظام میں پرورش پائی تھی اور تعلیم حاصل کی تھی اس کا اندازہ انہیں تھا اور اس لئے وہ مسلمانوں کے دینی تعلیم نظام مین اصلاح لا کر اسے جدید تعلیمی نظام سے ہم آہنگ بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بچپن کے تعلیم نظام کے متعلق غبار خاطر میں لکھا ہے :

’’خود اس تعلیم کا کیا حال تھا جس کی تحصیل میں تمام  ابتدائی زمانہ بسر ہوا۔ اس کا جواب  اگر اختتصار کے ساتھ بھی دیا جائے تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہوجائیں۔ایک فرسودہ نظام جسے فن تعلیم کی جس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے  سر تا سر عقیم ، ہوچکاہے۔ طریق تعلیم  کے اعتبار سے ناقص، مضامین کے اعتبار سے ناقص، انتخاب مضامین کے اعتبار سے ناقص۔‘‘۰غبار خاطر ص۹۷)

مدرسو کے نصاب کی فرسودگی کا بھی ذکر مولانا آزاد آگے چلکر کرتے ہیں :

’’اگر فنون عالیہ کو الگ کردیا جائے تو درس نظامیہ می بنیادی موضوع دو ہی رہ جاتے ہیں۔ علوم دینیہ  اور معقولات۔ علوم دینیہ کی تعلیم جن کتابوں میں منحصر رہ گئی ہے  اس سے ان کتابوں  کے مطا لب و عبارت کا علم ہوجاتاہے  لیکن خود ان علوم  مین کوئی مجتہدانہ  بصیر ت حاصل نہیں ہوسکتی۔ معقولات  سے اگر منطق الگ کردی جایے تو پھر جو  کچھ باقی رہ جاتاہے  ہے اس کی علمی قدر و قیمت  اس سے کچھ زیادہ نہیں کہ تاریخ فلفسہ قدیم کے ایک خاص عہد کی ذہنی کاوشوں  کی یادگار ہے حالانکہ علم کی دنیا  اس عہد سے صدیوں آگے بڑھ چکی۔ علوم ریاضیہ جس قدر پڑھائے جاتے ہیں وہ موجودہ عہد کی ریاضیات کے مقبالے بمنزلہ صفر کے ہیں  اور وہ بھی عام طور پر نہیں پڑھائے جاتے۔  جامع ازہر قاہرہ  کے نصاب  تعلیم کا بھی تقریبا یہی حال ہے ۔ ہندوستان  میں متاخرین کی کتب معقولات کو فروغ ہوا وہااں اتنی وسعت بھی پیدا نہ ہوسکی۔‘‘ (غبار خاطر ص ۹۸)

اس اقتباس سے مولانا کے تمام عالم اسلامی میں تعلیمی نصاب اور اس کی خامیوں کا علم تھا اور وہ اس میں اصلاح لانا چاہتے تھے۔ اس لئے آزادی کے بعد انہوں نے ہندوستان کے مدرسوں ۔ مکتبوں اور دارالعلوم کے سربراہوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی اور یہ کوشش کی تھی کہ مدرسوں کے سربراہ مدرسوں کے نصاب میں جدید علوم کو شامل کرکے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سیکولر علوم کو شا مل کرنے پر راضی ہوجائیں ۔ دوسرے لفظوں میں مدرسوں کی جدت کاری کی جو مہیم آج کی حکومتیں چلارہی ہیں وہ مولانا آزاد نے پچاس کی دہائی میں چلائی تھی۔ مگر افسوس کہ مدرسوں کے سربراہان اور مسلمانوں کی تعلیم پسماندگی کا رونا رونے والے دین مسلم قائدین نے ان تجاویز پر تب عمل کیا اور نہ اب بھی کرنے کو تیار ہیں ۔

ایسا نہیں کہ مولانا آزاد صرف مسلمانوں کے دینی تعلیم نظام کی فرسودگی سے نالاں تھے بلکہ وہ انگریزوں کے ماتحت نافذ تعلیمی نظام کی فرسودگی سے بھی نالاں تھے اور اس میں بھی اہم اصلاح چاہتے تھے۔ ۱۳ دسمبر۱۹۲۰ کو کلکتہ میںٰ مدرسہ اسلامی کے افتتاحی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :

’’ہندوستان میں سرکاری تعلیم نے جو نقصانات ہمارے قومی خصائل اور اعمال  کو پہنچائے ہیں  ان میں سب سے  بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیل علم کا مقصد  اعلی ہماری  نظروں سے  محجوب ہوگیاہے۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے اور اس کو صرف اس لئے ڈھوندنا چاہئے کہ وہ علم ہے۔  لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کو ایک دوسری راہ بتلائی ہے۔  وہ علم  کا ااس لئے شوق دلاتی ہے کہ  بلا اس کے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی۔  پس اب ہندوستان  میں علم  کو علم کے لئے نہیں بلکہ معیشت کے لئے حاصل کی جاتا ہے ۔ یہ بڑی بڑی عمارتیں  جو انگریزی تعلیم کی نوآبادیا ں ہیں  کس مخلوق سے بھری پڑی ہوئی ہیں ؟ مشتاقان علم و شیفتگان حقیقت سے؟  نہیں، ایک مٹھی  گیہوں اور ایک پیالہ چاول  کے پرستاروں سے  جن کو یقین دلایاگیاہے کہ بلا حصول تعلیم  کے وہ اپنی غذا حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘

یہ تھے وہ محرکات جنہوں نے مولانا آزاد کے وزیر تعلیم بننے کے بعد انہیں جدید عالمی خطوط پر ہندوستان کے تعلیمی نظام کو استوار کرنے کی تحریک تی۔ انہوں نے ہندوسان کے تعلیمی نظام کو عالمی سطح پر لانے اور اس تعلیمی نظام کو ہندوستانیون کی ذہنی اور روحانی تربیت کرنے کے قابل بھی بنایا اور ہندوستانی کی قومی وحدت کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی۔

جب مولانا آزاد وزیر تعلیم بنے اس وقت مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو جیسی دو قد آوار شخصیات موجود تھیں جو ترقیاتی موضوعات پر اپنے اپنے الگ خیالات رکھتی تھیں۔ ایک طرف مہاتما گاندھی بڑی صنعتوں کی بجائے گھریلو صنعتوں اور دست کاری کو فروغ دینے کے حق میں تھے تو دوسری طرف جواہر الال نہرو بڑی بڑی صنعتیں قائم کرکے ملک کو  ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کھڑے کرنا چاہتے تھے۔ مولانا آزاد نہ صرف دینی معاملات میں اعتدال پسند تھے بلکہ وہ تعلیم اور صنعتی معاملا ت میں بھی اعتدال پسند تھے۔ لہذا، وزیر تعلیم بننے کے بعد انہوں نے ایک طرف تو دیہی صنعتتوں کو بھی اہمیت دی اور ساتھ ہی ساتھ سائنس اور تکنالوجی کو فروغ دے کر ملک کو صنعتی میدان میں بھی آگے لے جانے کی کوشش کی۔

آج ہندوستان میں جو سائنسی، تہذیدبی، ادبی اور سماجی سرکاری ادارے ہیںٰ وہ سب کے سب مولانا آزاد کے دور وزارت میں قائم ہوئے ہیٰں اور مولانا آزاد کی سیاسی اور علمی بصیرت کے غماز ہیں ۔ انہوں نے ملک میں سائنسی ترقی کے لئے انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ قائم کیا۔ انہوں نے  انڈین کاؤنسل اور ایگریکلچرل اینڈ سائنٹفک ریسرچ قائم کیا اور سرکردہ ہندوستانی سائنس داں شانتی سروپ بھٹنا گر کی سربراہی میں اٹمی شعبے میں ریسرچ کے لئے بھی ادارہ قائم کیا۔ انہوں نے انڈین کاونسل آف سوشل سائنسیز ریسرچ نام کا ادارہ بھی قائم کیا جو تما م سماجی ، معاشی اور اقتصادی موضوعات و مسائل کا احاطہ کرتاتھا۔

وہ اگرچہ دینی مزاج کے حامل تھے مگر جب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ایک سیکولر وزیر کی حیثیت سے ادبی اور ثقافتی میدان میں ہندوستانیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ادارے قائم کیے ۔ جیسے ہندوستانی ادب کی ترقی کے لئے  ساہتیہ اکادی، ہندوستانی رقص و موسیقی کو فروغ دینے کے لئے سنگیت ناٹک اکادمی اور فنون لطیفہ کو فروغ دینے کے لئے للت کلا اکادمی۔ مولانا آزاد ان اکادمیوں کے سربراہ بھی رہے ۔ ان اکادمیوں کے قیام کا مقصد صرف فنکاروں کو اعزاز و اکرام دینا نہیں تھا بلکہ ادب اورثقافت کو قومی اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی تھا ۔

جیسا کہ ان کا موقف تھا کہ علم کو صرف معیشت کے لئے نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے معاشرے میں اپنے مقام کو پہچاننے اور انسان کو روحانی طورپر رفعت عطا کرنے کے لئے بھی حاصل کرنا چاہئے اس لئے وہ مذہبی علوم کو بھی جدید تعلیم کا حصہ بنانے کے حق میں تھے تا کہ طلبہ کے اندر نظریاتی اعتدال قائم رہے۔ وہ نہ پوری طرح مذہبی جنونی بن جائے اورنہ پوری طرح مادیت پرست ہوجائے ۔لہذا انہوں نے چند یونیورسٹی میں علوم مشرقی یا اسلامی علوم کے شعبے بھی قائم کرائے۔ اسی طرح وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہندوستان کا علمی اور تہذیبی سرمایہ سنسکرت میں بھی محفوظ ہے اس لئے سنسرت زبان و ادب کے فروغ سے ہندوستان کے قدیم علمی ورثے کی بھی حفاظت ہوگی۔ اس لئے ان کے دور میٰں سنسکرت کی تعلیم کے فروغ کے لئے کئی ادارے قائم کئے گئے۔

مجموعی طور پر مولانا آزاد نے اپنے مختصر دور وزارت میں ہندوستان کو تعلیمی میدان میں آگے لے جانے کے لئے جو اہم کارنامے انجام دیئے ان کی بدولت ہندوستان نے بیسویں صدی اور اکیسویں صدی مین تعلیمی اور سائنسی میدان میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ہندوستان نے کئ نامور سائسداں پیدا کئے اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان اور ماہرین معاشیات دنیا کو دئیے۔ اس نے خلائی تکنالوجی میں قابل قدر ترقی کی ہے اور سائنسی علم میں  وہ امریکہ ، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی ہوگی۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/maulana-abul-kalam-azad-india-educational/d/126291

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..