New Age Islam
Thu May 15 2025, 02:54 PM

Urdu Section ( 23 Jul 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Jihad does Not mean war or Fighting قرآن کے اردو تراجم میں قتال اور جہاد کو ایک ہی معنی میں بیان کیا گیا ہے جو گمراہ کن ہے


سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام

اسلام کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر اسلام اور ان کے پیروکاروں کو مکہ کے مشرکین اور یہودیوں سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ کفار و مشرکین اور یہودیوں کے ہاتھوں انہیں کافی تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھانی پڑیں۔ اس کے باوجود وہ ایمان پر قائم رہے اور تما م تکلیفوں کو صبرورضا سے برداشت کیا۔ پھر بھی جب مشرکین اور یہودیوں کی ریشہ دوانیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں اور نبی اکرم کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیاتو انہوں نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اور حضرت محمد ﷺ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ منتقل ہوگئے۔ مگر یہاں بھی انہیں یہودیوں اور مشرکین کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں جب مسلموں کی تعدا د زیادہ ہوگئی اور مشرکین جب فیصلہ کن جنگ پر آمادہ ہوگئے تو مسلمانوں نے جنگ بھی کی ور ان جنگوں میں انہیں اللہ کی مدد سے فتح بھی حاصل ہوئی۔قرآن میں ان جنگوں کے تعلق سے درجنوں آیتیں نازل ہوئیں جن میں مسلمانوں کو جنگ کے دنوں میں اپنی بقاء اورا پنے دفاع کے لئے جنگ کی ہدایت کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو کئی موقعوں پر صلح کی بھی تلقین کی گئی اور مسلمانوں نے اپنے دل پر جبر کرکے مشرکین مکہ سے صلح بھی کی۔ مسلمان ہر موقع پراپنی طرف سے پوری کوشش کرتے تھے کہ جنگ نہ ہو اور پر امن طریقے سے ہر معاملہ طے ہوجائے۔ اس کے لئے انہوں نے ہر حکمت عملی اختیار کی اور صبر بھی کیا۔ ہجرت سے قبل پیغمبر اسلام نے طائف میں تبلیغ دین کے لئے پتھر بھی کھائے اور گالیاں بھی سنیں اور اللہ کی رضا کے لئے صبر کیا۔

قرآن میں مسلمانوں کو دین کی اشاعت اور اس کی بقاء کے لئے محنت کرنے اور قربانی پیش کرنے کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے اجر عظیم کی بشارت دی ہے۔مسلمانوں کو دین کی اشاعت اور توحید کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لئے ہر طرح سے محنت اورجد وجہد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ قرآن مسلمانوں کو دین کی اشاعت پر امن طور پر حکمت اور صبر کے ساتھ کرنے کی تلقین کی ہے۔ اور اس کے لئے جان اور مال دونوں کی قربانی پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔قرآن میں اس محنت اور جد وجہد کے لئے دو اصطلاح استعمال کئے ہیں۔ ایک ہے قتال اور دوسری جہد۔قتال سے مراد جنگ جس میں مسلمان یاتو دشمن کو قتل کریں یا پھر قتل ہوں اور یہ آیتیں زیادہ تر حضور پاک کی زندگی میں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں جب مسلمانوں کے سامنے بقا کا مسئلہ تھا اور جب مشرکین مکہ مسلمانوں کاقلع قمع کرنے کے درپے تھے۔ دوسری اصطلاح جہد یاجہاد کی ہے  جو مسلمانوں کے لئے ہرزمانے میں قابل عمل ہے  اور اس کا مطلب ہے دین کی اشاعت کے  لئے جدوجہد کرنا۔دین کی راہ میں تکلیف اٹھانا، دولت اور مال کی قربانی پیش کرنا، اور پرامن طریقے سے دین کی اشاعت کا کام کرنا یہ سب جہاد یا جہد کے ذیل میں آتے ہیں ۔ قرآن میں یہ دونوں اصطلاحات موقع کی مناسبت سے استعمال ہوئی ہیں مگر بد قسمتی سے دونوں اصطلاحات کا اردو ترجمہ زیادہ تر آیتوں میں ایک ہی معنوں یعنی جنگ کے معنی میں استعمال کیاگیاہے۔ جس سے عام مسلمانوں بلکہ انتہاپسند علماء کے ایک طبقے میں بھی یہ تاثر عام ہوگیاکہ جہاد یا جہد قتال کا ہم معنی ہے اور جہاں جہاں بھی جہاد کا یا جہد کا ذکر آیاہے وہاں مسلمانوں کو مشرکین اور غیرمسلموں سے جنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذیل میں دونوں اصطلاحات کی مثالیں پیش کی جارہی ہیں او ر ان میں ترجمے کی وجہ سے مفہوم میں  تبدیلی کے نمونے پیش ہیں۔

سب سے پہلے لفظ قتال والی آیتیں پیش ہیں جو زمانہ جنگ میں اتری  ہیں:

و قاتلو ا فی سبیل اللہ (البقرہ: 244)

”اور لڑو اللہ کی راہ میں۔“

یہ آیت جنگ کے زمانے میں اتری جب مشرکین مکہ اور مسلمانوں میں لڑائی ہورہی تھی اور مسلمانوں کو ان سے بہادری سے لڑنے کی تلقین کی گئی۔

فلما کتب علیہم القتال  تولوا الاّقلیلاً منہم  (البقرہ:246))

پھر جب ان کو حکم ہوا لڑائی کا تو وہ سب پھر گئے مگر تھوڑے سے ان میں۔

قاتلوا فی سبیل اللہ (آل عمران: 167)

اللہ کی راہ میں جنگ کرو۔

یقاتلوں فی سبیل اللہ (لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں): (النساء: 76)

فقاتل فی سبیل اللہ (سو تو لڑ اللہ کی راہ میں) (النساء: 84)

اس طرح کی درجنوں آیتیں ہیں جو زمانہ جنگ میں مسلمانوں کو لڑائی کی ترغیب دیتی ہیں۔اور ان آیتوں میں جنگ کے لئے قتال اور اس سے مشتق الفاظ کا استعمال ہواہے۔ مگر قرآن میں درجنوں آیتوں میں لفظ جہد اور اس سے مشتق الفاظ مثلاً جاھدوا،مجاھدون، مجاھدین وغیرہ کا استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں صرف ایک آیت میں لفظ جہاد کا استعمال ہواہے۔ ان تمام آیتوں میں دین کی اشاعت اور حفاظت کے لئے جدوجہد کرنے، قربانی پیش کرنے، مال اور جان کی قربانی دینے اور تکلیف پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان آیتوں سے  لازمی طور پر جنگ کا مفہوم نہیں نکلتاہے۔  ہاں کبھی کبھی دین کی راہ میں نکلنے والوں کو  hostility کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور انہیں اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانا پڑسکتاہے۔مگر جہاد کا مطلب صرف جنگ نہیں ہے۔ یہی فرق قتال اور جہاد کے مفہوم میں ہے۔ مگر قرآن کے اردو کے تراجم میں جہد یا جہاد کا معنی ہرجگہ لڑائی یا جنگ کیاگیاہے۔ چند مثالیں پیش ہیں:

بے شک جو لوگ ایمان لائے  اور ہجرت کی ا ور لڑے (جھٰدوا) اللہ کی راہ میں  (البقرہ: 218)

اس آٰیت میں لفظ جھدو ا  کا ترجمہ ’لڑے‘  یعنی جنگ کی، کیاگیاجبکہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے  اور مسلمان ہونے کے بعد جو بھی مشقتیں انہیں دین کی  راہ میں اٹھانی پڑیں وہ انہوں نے اٹھائیں۔ انہوں نے تکلیفیں سہیں، ہجرت کی اور ہجرت کی تکالیف برداشت کیں اور اس دوران اگر انہیں لڑنا پڑاتو اپنی بقاء کے لئے اوردین کے تحفظ کے لئے جنگ بھی کی۔ مگر اس آیت میں جھدکا ترجمہ لڑائی کردینے سے مفہوم یہ ہوگیا کہ جو بھی مسلمان ہوا اس پر ہر حالت میں جنگ میں مصروف رہنا فرض ہوگیا۔ایک ااور آیت ہے:

برابر نہیں بیٹھ رہنے والے  مسلمان جنکو کوئی عذرنہیں اور وہ مسلمان جو  لڑنے والے (مجاھدون)  ہیں  اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اورجان سے۔ (النساء: 95)

اس آیت میں مجاھدون  ان کو کہاگیاہے جو اللہ کی راہ میں جد وجہد کرتے ہیں مال سے  اور جان سے۔ لہذا، دین کی اشاعت میں مال خرچ کرنے والا بھی مجاھد ہے یعنی جدوجہد کرنے والاہے۔ وہ شخص بھی جو اللہ کی راہ   میں  یا دین کی اشاعت کے لئے گھر سے نکلا ہو وہ بھی مجاھد ہے۔ اس آیت سے لازمی طور پر جنگ کرنے والا مراد نہیں ہے مگر ترجمے سے یہی مفہوم ملتاہے۔

جولوگ ایمان لائے  اور گھر چھوڑا (یھاجرو ا)  اور لڑے  (جھٰدوا) اپنے مال  اور جان سے  اللہ کی راہ میں اورجن لوگوں نے جگہ دی  اور مدد کی  وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (الانفال: 12)

اس آیت میں بھی ان لوگوں کا ذکر ہے جو ایمان لانے کے بعد کفار و مشرکین کے مظام کے شکار ہوئے اور ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے  اور جن لوگوں نے ان کی مدد کی  اور انہیں پناہ دی۔ یہاں جنگ کا پس منظر نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے  اور اہل مدینہ نے انکی مدد کی اور انہیں پناہ دی۔مگر لفظ  جھدٰوا کا ترجمہ سیدھے سیدھے  ”لڑے“ کردیاگیا۔ اس سے یہ مفہوم نکلتاہے کہ جو مسلمان ہوجائے وہ ہروقت حالت جنگ میں رہے۔

”اور نازل ہوتی ہے  کوئی سورت  کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور لڑائی کرو (جاھدوا) اس کے رسول  کے ساتھ ہوکر۔ (التوبۃ:  86)

یہاں بھی جاھدوا کا ترجمہ لرائی کرو کر دیاگیاہے۔ جبکہ آیت کا مفہوم ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے بعد اس کے رسول کے ساتھ دین کے لئے جو بھی جدوجہد کرنی پڑے اور قربانی پیش کرنی پڑے اور صبر سے کام لینا پڑے  اور تکلیف اٹھانی پڑے وہ اٹھائے۔ ہاں، اگر ضرورت جنگ کی پڑے تو جنگ بھی کرے، مگر یہاں جاھدوا کا مطلب صرف لڑائی یا جنگ نہیں ہے۔

ایک آیت میں جہاد کبیر کا ذکر ہے۔

”اور اگر ہم  چاہتے تو اٹھاتے  ہر بستی میں ایک ڈرانے والا ، سو تو کہا مت مان  ان منکروں کا  اور مقابلہ کر ان کا جہاد کبیر سے۔ (الفرقان: 52)

مولانا فتح محمد جالندھری اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

”اور تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس قرآن کے حکم کے مطابق بڑے شدومد سے لڑو۔“

عبداللہ یوسف علی  اس آیت کا انگریزی کا ترجمہ ان الفاط میں کرتے ہیں:

Therefore listen no to the unbelievers, but strive against them with utmost strenuousness with the (Quran).

مولانا حبیب شاکر ان الفاظ میں ترجمہ کرتے ہیں:

So do not follow the unbelievers, and strive against them a might striving with it.

محمد پکتھال یوں ترجمہ کرتے ہیں:

So obey not the disbelievers, but strive against them herewith with a great endeavor.

مترجم نے لفظ جہاد کبیر کی تشریح نہیں پیش کی بلکہ لفظی ترجمہ کردیا۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہوسکتاہے کہ کفار و منکرین کے عقائد کو قرآں کی مدد سے رد کرو انہیں اپنے باطل عقائد کو چھوڑنے کے لئے قرآن کو دلیل کی حیثیت سے پیش کرو اور انہیں توحید کی طرف دعوت دو اس کے لئے تمہیں جو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں  وہ اٹھانے کے لئے تیار رہو۔انگریزی کے مترجمین نے جہد یا جہاد کا ترجمہ جہاد نہیں کیا بلکہ اس کے لئے جدوجہد ترجمہ کیالڑائی یا جنگ نہیں کیامگر اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت  اردو کے مترجمین نے اس امر کو ذہن میں نہیں رکھا کہ یہ آیت مکیّ ہے جب مسلمان جنگ کی طاقت  نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے فتح محمد جالندھری کے مطابق  ”شدو مد سے لڑو“ غیر منطقی اور ناقبل قبول ہے۔ ”جہادِ کبیر“ قرآن کی اصطلاح ہے جس کا مفہوم ہے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا جب دین کی راہ میں ظلم سہنا پڑے اور مسلمان صبر سے ان تکلیفوں کو اللہ کی رضا کے لئے برداشت کرے تو وہ جہاد کبیر ہے۔اللہ کہتاہے کہ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو یعنی دین کو پھیلانے کے لئے قرآن کو اپنا ہتھیار بناؤ اور دین کی اشاعت کے لئے صبر و تحمل کے ساتھ جدوجہد کرو۔

ایک اور آیت سے لفظ جھد کا مفہوم اور زیادہ واضح ہوجاتاہے۔

اور ہم نے تاکید کردی ان کو اپنے ماں باپ سے بھلائی کرنے کی  اور اگروہ  زور کریں  (جاھدٰک) کہ تو شریک کرے  میرا جس کی تجھکو خبر نہیں تو ان کا کہنا مت مان۔“ (العنکبوت:  ۸)

اس آیت میں مسلمانوں سے کہاگیاہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگرچہ وہ مشرک یا کافر ہوں مگر جب وہ  تمہیں بھی شرک اور کفر کی ترغیب دیں اور یا  اس کے لئے جبر کریں تو ان کا کہنا نہ مانو۔‘یہاں  جہد کا معنی ترغیب دینا یا اکسانا ہے۔ لڑائی کرنا نہیں ہے۔

قرآن سے اور بھی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ان آیتوں میں جہد یا جہاد کو قتال کا مترادف قرار دیاگیاہے۔ اور انہی ترجموں کی وجہ سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں جہاد کا غلط تصور عام ہوگیاہے۔ جہاد کا معنی غیر مسلموں سے صرف جنگ کرنا نہیں ہے بلکہ  دین کی اشاعت کے لئے صبر کرنا، تکلیف اٹھا نا، پتھر کھا کر دعا دینا  اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنا ہے۔جہاد کبیر کی اصطلاح مکی سورہ میں استعمال کی گئی ہے جس کا مفہوم ہے نامساعد حالات میں صبر وتحمل سے دین کے لئے کام کرنا۔ مگر آج تک کسی مفسر یا مترجم نے جہاد کبیر کی وضاحت نہیں کی بلکہ اس کا لفظی ترجمہ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔بلکہ اس کا ترجمہ بڑی جنگ سے کیا جو مسلمانوں کے لئے مکی زندگی میں ممکن ہی نہیں تھا۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/jihad-mean-war-fighting-/d/119268


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..