سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
27جون، 2012
یونانی اور ہندو اساطیر کے زیر اثر عر ب قوموں میں بھی
خدا سے متعلق چند بے بنیاد اور بیہودہ عقیدے رواج پاگئے تھے ۔ انہوں نے یونانی او رہندو
دیوی دیوتاؤں کی طرح خدا کا رشتہ بھی فرشتوں
اورجنّوں کی بیٹیوں سے جوڑ دیا تھا ۔ ان کے نزدیک فرشتے عورتیں اور جنّوں کی بیٹیاں
ان کی مائیں تھیں یعنی خدا اور جنوں میں (نعوذ باللہ) سسر اور داماد کا رشتہ جوڑ دیا تھا۔ وہ خدا کو بھی انسانی خصوصیات اور خامیوں سے متصف
خیال کرتے تھے ۔ خدا کا بے نیاز اور سبب اور نتیجے (Cause
& effect) کے
اصول سے مبّرا ہونا ان کے تصور سے بعید تھا ۔ اس ذیل میں قرآن ان لوگوں کی سخت فہمائش
کرتا ہے جو خدا سے متعلق اس طرح کی بیہودہ اور فحش باتیں پھیلاتے ہیں۔
‘‘ اب ان سے پوچھ کیا تیرے رب کے یہاں بیٹیاں ہیں اور ان کے یہاں بیٹے
، یا ہم نے بنایا فرشتوں کو عورت اور دیکھتے تھے؟ (149 : الصّٰفات)
ایک دوسری جگہ قرآن اسی بات
پر طنز کرتاہے
‘‘ اور ٹھہر ایا انہو ں نے فرشتوں کو جو بندے ہیں رحمٰن کے عورتیں کیا
دیکھتے تھے ان کا بننا ؟ اب لکھ رکھیں گے ان کو گواہی اور ان سے پوچھ ہوگی ’’۔ (الزخرف
:19)
اسی طرح اللہ قرآن میں ان
لوگوں کی آخرت میں سخت گرفت کا اعلان کرتا
ہے جو بغیر کسی سند کے اس کے اور فرشتوں کے متعلق بیہودہ باتیں اختراع کرتے ہیں۔ وہ
ان پر لطیف طنز بھی کرتا ہے کہ انہیں کس طرح معلوم کہ فرشتے عورتیں ہیں؟ کیا جب انہیں تخلیق کیا جارہا تھا اس وقت وہ وہاں
کھڑے دیکھ رہے تھے؟ اسی طرح اللہ جنوں سے اس کا رشتہ جوڑ نے پر بھی ناراضگی کا اظہار
کرتا ہے:
‘‘ او رٹھہرایا ہے انہوں نے خدا اور جنّوں میں ناتا ’’۔ ( الصّٰفات:158)
قرآن نے ان کے ان باطل عقاید
کی سختی سے تردید کی۔ اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ خدا انسانی احتیاجات اور خامیوں سے مبّرا ہے۔ وہ
بے نیاز ہے ۔ وہ سبب اور نتیجے ( Cause & effect) کے اصول کاغلام نہیں
۔ سبب اور نتیجے کااصول انسانوں کی سہولت کے
لئے قائم کیا گیا ہے۔ خدا کے لئے کسی چیز کی
تخلیق یا کسی امر کے واقع ہونے کے لئے صرف کُن کہہ دینا ہی کافی ہے ۔ وہ انسانوں کی طرح کھانا نہیں کھاتا ۔ اسے اونگھ
نہیں آتی ۔ اس کی ذات لطیف ہے۔ وہ سبھوں
کو دیکھ سکتا ہے مگر انسانی آنکھیں اسے نہیں
پاسکتیں ۔ خدا نے ایک پوری سورۂ ہی اپنی شان صمدیت کےذیل میں اتاری ۔ سورۂ اخلاص کا
نزول کفار، مشرکین اور قوم یہود کے انہی باطل
عقاید کی ردّ میں ہوا۔
‘‘ تو کہہ وہ اللہ ایک ہے ۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ کسی کو جنا نہ کسی
سے جنا ۔ اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی ’’۔(
سورۂ اخلاص)
دراصل خدا او ربندوں میں باپ
اور بیٹے کا رشتہ یہودیوں کے ذہن کی اُپج ہے
۔ یہودی اپنے پیغمبر حضرت عُزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ۔ (حضرت عُزیر
علیہ السلام کی اُمت کو بھی یہودی کہا جاتاہے ) ۔ ایسا وہ دوسرے پیغمبر وں پر اپنے پیغمبر کی برتری ظاہر کرنے کے لئے کرتے
تھے ۔ پھر انہوں نے اقوامِ عالم پر اپنی برتری اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے خود کو خدا
کا بیٹا کہنا شروع کیا یعنی سارے یہودی خدا کے بیٹے ہیں اور اسی لئے خدا کے محبوب ہیں
۔ لہٰذا وہ جو بھی گناہ او رظلم کرینگے خدا انہیں
معاف کردے گا۔ خدا نے قرآن میں ان کی اس خوش فہمی کا توڑ ان الفاظ میں کیا
ہے ۔
‘‘اور کہتے ہیں یہود ونصاریٰ کہ ہم بیٹے ہیں اللہ کے اور اس کے پیارے
۔ تو کہہ پھر کیوں عذاب کرتا ہے تم کو تمہارے گناہوں پر ، کوئی نہیں بلکہ تم بھی ایک آدمی ہو اس کی مخلوق میں ۔’’ ( المائدہ
:18)
اپنے پیغمبر کی برتری ثابت کرنے کا یہی پیمانہ تھا جس کی روسے
نصرانیوں (عیسائیوں ) نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا ایمان اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ خدا کی قدرت اور حکمت
کے متعلق وہ شبہ میں پڑے ہوئے تھے ۔ قرآن ان لوگوں سے کہتا ہے ۔
‘‘ اللہ ایسا نہیں کہ رکھے اولاد۔ وہ پاک ذات ہے۔ جب ٹھہر الیتا ہے
کسی کام کا کرنا سو یہی کہتا ہے اس کو کہ ہو ، وہ ہوجاتا ہے ۔’’ (مریم :25)
اللہ کی قدرت پر اسی شبہ کی
وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر قوم یہود نے حضرت مریم علیہ السلام کی
پاکبازی پر شک کیا اور انہیں طعنے دیئے ۔ قرآن میں اس واقع کا ذکر اس طرح ہے :
‘‘ پھرلائی اس کو (عیسیٰ علیہ السلام کو ) اپنے لوگوں کے پاس گود میں
۔ وہ اس کو کہنے لگے ، اے مریم تو نے کی یہ
چیز طوفان کی ۔ اے بہن ہارون کی ، نہ تھا تیرا باپ برُا آدمی اور نہ تھی تیری ماں
بدکار ۔’’ (مریم :28)
اللہ نے حضرت مریم علیہ السلام
پر بہتان لگانے والوں کو پھٹکار لگائی او رکہا کہ ایسا کر کے وہ اپنے سر طوفان باندھ
رہے ہیں ۔ نیز اس نے گواہی دی کے مریم علیہ السلام پاکباز اور صدیقہ (سچ بولنے والی) ہے۔
‘‘اور اس کی ماں ولی (صدیقہ ) ہے ’’۔ (المائدہ :75)
اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام
کی پیدائش کی مثال حضرت آدم علیہ السلام سے دی۔
‘‘ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک ایسی جیسے آدم کی ۔ بنایا اس
کو مٹی سے پھرکہا اُس کو کہ ہوجا، وہ ہوگیا ۔’’ ( آل عمران :59)
مندرجہ ذیل بالا مثال سے قرآن
نے عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے متعلق تمام بد عقیدگیوں کو دور
کرنے کی کوشش کی ۔ جس طرح اللہ آدم علیہ السلام کو بغیر ماں او رباپ کے تخلیق کرسکتا
ہے ، اسی طرح وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بغیر باپ کے تخلیق کرسکتا ہے اس لیے
اس میں خدا کو حضرت عیسیٰ کا باپ ٹھہرا نے کی کوئی ضرور ت یا جواز نہیں ہے ۔ بلکہ ایسا
کرنا خدا کی صمدیت کو ٹھیس پہنچانا اور اس کو انسانوں کی صف میں لاکھڑا کرنا ہے جو
کہ خدا کے نزدیک بہت ہی بھاری بات ہے۔یہ اتنی سخت بات ہے کہ اس سے پہاڑوں کا دل بھی
دہلنے لگتا ہے ۔قرآن کہتا ہے ۔
‘‘اور لوگ کہتے ہیں رحمٰن رکھتا ہے اولاد بے شک تم آپھنسے ہو بھاری
چیز میں ۔ ابھی آسمان پھٹ پڑے اس بات سے او رٹکڑے ہو زمین اور گر پڑیں پہاڑ ڈھے کر
، اس پر کہ پکارتے ہیں رحمٰن کے نام پر اولاد ۔ اور نہیں پھبتا رحمٰن کو کہ رکھے اولاد
’’۔(مریم :92)
ایک دوسرے مقام پر قرآن کہتا
ہے :
‘‘ اور یہ کہ اونچی ہے شان ہمارے رب کی، نہیں رکھی اس نے جورو نہ بیٹا
۔’’ (الجن :3)
قرار دے گی اسی لئے اس نے
پہلے سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام مسیح بن مریم رکھ دیا ۔ اس کا ثبوت سورہ
ٔ آل عمران کی مندرجہ ذیل آیتیں ہیں :
‘‘ جب کہا فرشتوں نے اے مریم ! اللہ تجھ کو بشارت دیتا ہے اپنے ایک
حکم کی جس کانام مسیح ہے عیسی ٰ مریم کا بیٹا
، مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اللہ کے مقربوں میں ۔ اور باتیں کرے گا لوگوں
سے جبکہ ماں کی گود میں ہوگا اور جبکہ پوری عمر کاہوگا اور نیک بختوں میں ہے ۔ (آل
عمران :45-46)
یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بیشتر مقامات پر عیسیٰ علیہ السلام کو عیسیٰ
بن مریم کہا گیا ہے یعنی ان کو ان کے پورے
نام سے پکارا گیا ہے تاکہ لوگوں پر یہ واضح
ہوجائے کہ اگر عیسی ٰ علیہ السلام واقعی اللہ کے بیٹے ہوتے تو اللہ جب بھی قرآن
میں اپنی زبان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاذکر
کرتا تو انہیں ‘‘میرا بیٹا عیسیٰ’’ کہہ کر پکارتا نہ کہ مریم کا بیٹا عیسیٰ
کہہ کر ۔جب فرشتوں نے آکر حضرت مریم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی تو کہا کہ تجھ
کو اللہ کے حکم سے ایک بیٹا نصیب ہوگا جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ جب فرشتے خود
حضرت مریم علیہ السلام سےگفتگو کررہے تھے تو
اتنا کہنا کافی ہوتا کہ اللہ کے حکم سے تجھ کو ایک بیٹا ہوا جس کا نام
عیسیٰ ہوگا۔ مگر ان کا یہ کہنا کہ اس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا ثابت کرتا ہے کہ اللہ نےان کا نام ہی عیسیٰ بن مریم رکھا ہے
تاکہ تاقیامت لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت مریم کا بیٹا سمجھیں ، اس کا بیٹا
نہ سمجھیں ۔ اور اس بات پر تعجب نہ کریں کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے کیونکہ اللہ نے
حضرت آدم علیہ السلام کو بن ماں باپ کے پیدا کیا۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ
قرآن کے اردو مترجمین نے ہر جگہ عیسیٰ ابن مریم کا ترجمہ عیسیٰ بن مریم کی بجائے اس
کا لغوی ترجمہ عیسیٰ مریم کا بیٹا کیا ہے اور اس طرح سے ایک انتہائی اہم نکتہ ان نظروں
سے اوجھل ہوگیا ۔ صرف مولانا عبدالکریم پاریکھ نے اس کا ترجمہ عیسیٰ مریم کیا ہے ۔
مترجمین کو نظروں سے یہ نکتہ اوجھل ہوگیا کہ نام کا ترجمہ نہیں ہوتا ۔ اور قیاس ہے
کہ قرآن کے دوسری زبانوں کے مترجمین نے بھی عیسیٰ ابن مریَمَ کا ترجمہ عیسیٰ مریم
کا بیٹا ہی کیا ہوگا ۔
URL: