سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
اسلام میں لونڈیوں یا باندیوں کی شرعی حیثیت پر علماء دین میں اختلاف رہاہے اور یہ خیال عام ہے کہ لونڈیوں کو داہنے ہاتھ کا مال کہاگیاہے اور ان سے بغیر نکاح کے جنسی تعلقات ان کے مالکوں کے لئے جائز تھا۔ اس سلسلے میں مشہور عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد کا موقف بھی یہی تھا کہ لونڈیاں ملکیت ہوتی تھیں اور ان کا نکاح نہیں ہوتاتھا۔ وہ جنگی قیدی ہوکر مسلمانوں کے حصے میں آتی تھیں اور وہ ان کی ملکیت ہوتی تھیں۔ انہیں مالک کی وراثت میں سے بھی حصہ نہیں ملتا تھا اور وہ مالک کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کی ملکیت ہوجاتی تھیں۔ ایک شخص نے ایک یوٹیوب ویڈیو میں اس سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمد سے لونڈیوں کے متعلق تین سوالات کئے:
(۱) باندیوں یا لونڈیوں کے ساتھ نکاح کا معاہدہ کس طرح کا ہوتاتھا؟
(۲) بیوی کی حیثیت سے انکی سماجی حیثیت کیا ہوتی تھی؟
(۳) وراثت میں ان کا کیا حصہ تھا؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے جو بیان دیا وہ اس طرح ہے:
”پہلے تو اپنی بات میں تصحیح کر لیجئے۔ باندیوں یا لونڈیوں کے ساتھ نکاح نہیں ہوتاہے۔ یہ باندیا ں کہلاتی تھیں۔ وہ ملکیت ہوتی تھیں۔ بیویاں ملکیت نہیں ہوتی ہیں۔ بیوی تو ایک سوشل کنٹریکٹ کے ساتھ آپ کے ساتھ آتی ہے زندگی گزارنے کے لئے۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ اس کی اجازت سے اسکا نکاح ہواہے۔ بیوی کو یہ حق حاصل ہیکہ وہ جب چاہے آپ سے separation حاصل کرلے۔ لیکن یہ جو ملکیت کا تصور ہے اس میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ نہ اس میں نکاح ہے نہ اس میں کوئی وراثت کا حصہ ہے۔ بلکہ وہ تو خود وراثت میں منتقل ہوجائینگی۔ اگر کسی شخص کی کچھ باندیاں تھیں اس کے انتقال کے بعد اس کی ملکیت جیسے اور پراپرٹی منتقل ہوگی وہ بھی وراثت میں منتقل ہوجائینگی۔ تو پہلی بات تویہ ہے چاہے اچھی لگی یا بری لیکن آپ اس کو سمجھ لیجئے as such جو تھا معاملہ۔ ہمیں اس کو کچھ palatable بنانے کے لئے اس میں کچھ ترمیم نہیں کرنی چاہئے۔ status جو ہے باندیوں کا concubines کا وہ یہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا۔اب اصل مسئلہ یہ آتاہے کہ آیا آج بھی ایسا کوئی معاملہ ہے؟ آج ایسا کوئی معاملہ موجود نہیں ہے۔ اور یہ لونڈیاں ہوتی تھیں حضور ﷺ کے زمانے میں صرف وہ جو میدان جنگ میں مال غنیمت کے طور پر آتی تھیں۔ “
ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ لونڈیوں سے نکاح تھا ہی نہیٰں۔وہ اپنے مالک کی ملکیت ہوتی تھیں۔ اور جائیداد کی طرح باپ کی وفات کے بعد بیٹے کو وراثت میں منتقل ہوجاتی تھیں۔ لیکن اگر قرآن کا مطالعہ کریں تو لونڈیوں سے متعلق ڈاکٹر اسرار احمد کے موئقف کی تردید و نفی ہوجاتی ہے۔ سورہ النساء میں غیر شادی شدہ مسلمان مردوں سے کہاگیاہے:
”اور جو کوئی نہ رکھے تم میں مقدور اس کا کہ نکاح میں لائے بیبیاں مسلمان تو نکاح کرلے ان سے جو تمہارے ہاتھ کا مال ہیں جو تمہارے آپس کی لونڈیاں ہیں مسلمان۔“ (النساء:25)
عرب میں یہ رواج تھا کہ مرد نکاح میں لانے کے لئے لڑکی کو جہیز دیتے تھے۔ یہ جہیز رقم اور سامان دونوں شکلوں میں ہوتاتھا۔ اس لئے نادار مسلمانوں کو اچھا رشتہ جلدی نہیں ملتاتھا۔ ایسی صورت میں قرآن نے مشورہ دیا کہ تمہارے درمیان جو لونڈیاں ہیں ان سے نکاح کرسکتے ہو۔
اسی آیت میں آگے کہاگیا ہے کہ اگر ایسی کوئی لونڈی تمہیں پسند آجائے تو اس کے مالک سے اجازت لے کر اس سے نکاح کرلو۔
”سو ان کے لوگوں سے اجازت لیکر ان سے شادی کرلو، اور مناسب مہر ادا کردو۔“ (النساء: 25)
اس آیت میں قرآن نہ صرف مسلمان مرد کو لونڈی سے شادی کی صلاح دیتاہے بلکہ مرد کو یہ بھی ہدایت دیتاہے کہ وہ اسے قابل قبول مہر بھی ادا کرے۔
سورہ النسا ء کی آیت نمبر22 23- میں یہتفصیل دی گئی ہے کہ رشتے کی کن عورتوں سے شادی ممنوع اور کن سے شادی جائز ہے۔ اس میں شادی شدہ عورتوں سے نکاح ممنوع قراردیاگیاہے مگر لونڈیوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔
”اور تمہارے لئے (ممنوع ہیں) تمام شادی شدہ عورتیں سوائے ان کے جو تمہارے ہاتھ کے مال (لونڈیاں) ہیں۔“
اس آیت سے بھی یہ واضح ہے کہ لونڈیوں سے نکاح ہوسکتاہے اور ہوتاتھا۔ ورنہ یہاں قرآن لونڈیوں کا ذکرہی کیوں کرتا۔
سورہ النساء کی آیت نمبر 25میں لونڈیوں سے متعلق یہ بھی کہاگیاہے کہ اگروہ بدکاری و فحاشی کا ارتکاب کریں تو عام مسلم عورتوں کے لئے جو سزا ہے انہیں اس کی آدھی سزا دی جائے۔
اس آیت میں مسلم مردوں کو یہ بھی مشورہ دیاگیاہے کہ وہ صرف انہی لونڈیوں سے نکاح کریں جو پاک دامن ہوں، فحاشی اور بدکاری میں ملوث نہ ہوں۔عرب میں لونڈیوں کا ایک طبقہ ناچ گانے کی تعلیم لے کر امراء و روئسا کے لئے تفریح کا سامان کرتاتھا۔ ان لونڈیوں کو قین کہاجاتاتھا۔ لہذا، قرآن کا اشارہ انہی لونڈیوں کی طرف ہے جن سے نکاح سے مسلمان مردوں کو منع کیاگیاہے۔
قرآن مسلم لونڈیوں ااور غلاموں کی شادی کرانے کی بھی تلقین کرتاہے تاکہ وہ معاشرے کے مین اسٹریم میں شامل ہوکر باوقار زندگی کزاریں۔
”اور اپنے درمیان میں سے جولوگ غیر شادی شدہ ہیں اور جو غلام اور لونڈیاں نیک ہیں ان کی بھی شادی کرادو۔“ (سورہ النور:32)
قرآن یہ بھی کہتاہے کہ ان لونڈیوں میں سے جو نیک اورپاک باز ہیں اور پاکیزہ زندگی گزارتی ہیں انہیں فحاشی اور بدکاری پر مجبور نہ کرو۔
”اپنی لونڈیوں کو فحاشی او ر بدکاری پر مجبور نہ کرو اگروہ پاکیزگی کے ساتھ رہنا چاہیں۔“ (النور: 24)
ڈاکٹر اسرار احمد یہ بھی کہتے ہیں کہ لونڈیاں صرف جنگی قیدی ہوتی تھیں جو میدان جنگ میں مال غنیمت کے طور پر مسلمانون کے حصے میں آتی تھیں۔ یہ بھی درست نہیں ہے۔ قبل اسلام دور سے لیکر بیسویں صدی کے اوائل تک مشرقی اور مغربی دنیا میں slave trade بہت زوروں پر تھا۔ اس تجارت میں حکومتیں اور امرا ء و روسا ملوث تھے۔ افریقہ، عرب اور یوروپ تک یہ تجارت پھیلی ہوئی تھی۔ وہاں کے غریب اور کمزور مردوں اور عورتوں کو زبردستی قید کرکے دور دراز کے ملکوں میں فروخت کیاجاتاتھا۔ انہیں فوجوں میں، کھیتوں، اور کانوں میں بندھوا مزدور وں کی طرح کام پر لگایاجاتاتھا۔ عورتوں کو دوردراز کے علاقوں میں جسم فروشی کے لئے فروخت کردیاجاتاتھا۔ ہاں ان غلاموں اور لونڈیوں میں جنگی قیدی بھی ہوتے تھے مگر وہ اس پوری تجارت کا ایک چھوٹا سا حصہ تھے۔مشہور صحابی ء رسول حضرت بلال حبشی امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ ان کے والد رباح حباشی بھی غلام تھے اور ان کی والدہ بھی غلام تھیں۔ ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ بھی لونڈی تھٰں جنہیں اسکندریہ کے گورنر مقوقس نے حضور پاک ﷺ کو ان کی بہن سیرین کے ساتھ تحفے میں بھیجا تھا۔ حضرت ماریہ نے اسلام قبول کرلیاتھا اور حضور پاک ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا تھا اور ان کے بطن سے حضرت ابراہیم پیداہوئے تھے جو زمانہ طفولیت ہی میں فوت ہوگئے تھے۔سنن بیہقی کی ایک حدیث کے مطابق حضرت عمر کی خلافت میں ایک فوجی مہم کے دوران حضرت خالد بن ولید کی فوج کے ایک کمانڈر ضرارنے ایک عورت کو قید کرکے اسے لونڈی بنالیاتھا اور اسکے ساتھ جنسی تعلقات قائم لرلئے تھے۔ جب حضرت عمر کو اس بات کا علم ہواتو انہوں نے اس کمانڈر کو سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ بہرحال، اتفاق کی بات ہے کہ ان کا حکم پہنچنے سے پہلے اس کمانڈر کا انتقال ہوگیاتھا۔یہ حدیث بھی اس بات پر دال ہے کہ اسلام میں لونڈیوں کو جنسی تسکین اور ملکیت سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران فوجیوں کو بھی اس بات کی جازت نہیں کہ وہ کسی عورت کو قید کرکے اسے اپنی جنسی ہوس کا شکار بنائیں۔
تیسری بات یہ کہ آج لونڈیوں اور غلاموں کا معاملہ ہے یا نہیں۔ افریقہ کے ساحل اور لیبیا میں آج بھی غلامی کا رواج ہے۔ لہذا، ان معاشروں میں لونڈیوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ آج بھی اسلامی مفسرین سورہ النسا ء کی آیت نمبر ۳ کو لونڈیوں کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ محمد اسد او ر دیگر جدید مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں صرف شادی شدہ لونڈیوں سے جنسی تعلقات کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ قرآن سورہ النساء اور النور کی آیتوں میں لونڈیوں کے لئے نکاح، ان کے لئے دین مہر اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتاہے۔
لہذا، اس پوری بحث سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ قبل اسلام عرب میں لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ جو غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ سلوک روارکھا گیاتھا وہ اسلام کی آمد سے رفتہ رفتہ ختم ہوتاگیا اور قرآن میں غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں مین اسٹریم کا حصہ بنانے کی تلقین کی گئی۔ اوران کے حقوق بھی متعین کئے گئے۔ نیک اور پاک طینت غلاموں اور لونڈیوں سے مسلمانوں کے نکاح کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
مگر افسوس کا مقام ہے کہ قرآن کی واضح آیتوں کی موجودگی کے باوجود چند علماء نے من مانے طور پر لونڈیوں کے متعلق آیت کی تشریح کی اور مسلمانوں میں غلط فہمی پھیلائی۔ اور انہیں صرف ملکیت قراردیا۔ انہیں صرف جنسی تسکین کا سامان قراردیا۔ اگرچہ آج لونڈیوں کا اسلامی یا غیر اسلامی معاشرے میں وجود نہیں ہے مگر انتہا پسند اور دہشت گرد تنطیمیں لونڈیاں رکھنے میں یقین رکھتی ہیں اور وہ مسلم حکومتوں میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی کافر سمجھتی ہیں کیونکہ وہ خلافت میں نہیں جمہوری حکومت میں یقین رکھتے ہیں اس لئے ان کی نظر میں ان عورتوں کو قید کرکے لونڈی بنالینا اور ان کے ساتھ بغیر نکاح کے جنسی تعلقات قائم کرنا جائز ہے۔ داعش کی حکومت میں عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کیاگیا اور ان کی خرید و فروخت بھی کی گئی۔یہ سب قرآن کی آیتوں کی غلط تشریح کی وجہ سے ہوا۔
قرآن کسی بھی انسان کو ملکیت سمجھنے کا مخالف ہے۔ وہ تمام انسانوں کے لئے مساوات، حسن سلوک اور انسانی حقوق کی ضمانت دیتاہے۔ غلاموں اور لونڈیوں کو اسلام نے ان حقوق سے محروم نہیں کیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/dr-israr-ahmad-stand-slave/d/119808
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism