سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
حسن رضا بنگال کے باؤل شخصیتوں میں ایک ممتاز اور مشہور شخصیت گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنے صوفیانہ گیتوں سے باؤل شاعروں میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کا اصل نام دیوان حسن رضا چودھری تھا۔شاعری اور موسیقی پر انہیں دسترس حاصل تھی۔ انکی پیدائش 24 جنوری 1854ء میں موجودہ بنگلہ دیش کے سلہٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں لکھن شری میں ہوئی۔ انکے والد کا نام دیوان علی رضا چودھری تھا۔ وہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔لیکن ان کے بچپن میں ہی انکے والد کی موت ہوئی۔ ان کی موت کے بعد حسن رضا مختلف پریشانیوں میں گھر گئے اس لئے روایتی تعلیم حاصل نہیں کرپائے۔ انہوں نے اپنے گھر پر ہی خاندان کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم ایک مولوی سے حاصل کی اور ان سے قاعدہ بغدادی اور قرآن پڑھا۔ انہوں نے اپنی ذاتی کوششوں سے ہندی اور اردو زبان میں تھوڑی شد بد حاصل کی۔ موسیقی اور شاعری کا ذوق انہیں فطری طور پر ملا تھا۔
حسن رضا کے آباواجداد اجودھیا کے تھے اور ہندو کھتری تھے۔ان کے خاندان کی تاریخ بہت دلچسپ اور نشیب و فراز سے بھری ہے۔ گردش حالات کے تحت انہوں نے اجودھیا کو خیر باد کہااور مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے بردوان پہنچے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ مگر اس زمانے میں بردوان غیر ترقی یافتہ علاقہ تھا اسلئے انہیں یہاں کوئی مسقبل دکھائی نہیں دیا۔ لہذا، وہ یہاں سے بھی کوچ کرگئے اور یہاں سے سفرکرتے ہوئے موجودہ بنگلہ دیش کے جیسور پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کی۔ یہاں انہوں نے اپنی چھوٹی سی زمینداری قائم کی۔اس سلطنت کے بانی وجیے سنگھ دیو نے زمینداری قائم کرنے کے بعد شمشیر زنی ترک کرکے قلم کو روزگار کا ذریعہ بنایا۔ لیکن ان کے سب سے چھوٹے بھائی درجئے سنگھ دیو انکے دشمن ہوگئے اور پوری زمینداری پر قبضہ جمانے کا خواب دیکھنے لگے۔ اس کے لئے وہ اپنے بڑے بھائی وجئے سنگھ دیو کے قتل پر بھی آمادہ ہوگئے۔ یہ دیکھ کر وجئے سنگھ دیو اپنے کنبے کو لیکر جیسور سے کوچ کرگئے اور مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے پدما ندی کے کنارے سلٹ ضلع میں کنورا گاؤں میں پناہ لی۔ کنورا میں آج بھی راجہ وجئے سنگھ کے قلعے اور باقیات ہیں۔
وجئے سنگھ دیو کی ہی نسل کے ایک وارث بنارسی رام سنگھ دیو نے کنورا سے ترک وطن کیا اور پنا ندی کے دوسرے کنارے پر رام پاشا میں مکان تعمیر کرکے یہاں بنارسی پور نام کا ایک موضع کی بنیاد ڈالی۔ بنارسی رام سنگھ کے واحد بیٹے ویریندر سنگھ دیو عربی، فارسی زبانوں کے عالم تھے۔ لہذا، وہ اسلام کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اسلام سے متاثر تھے۔ وہ رفتہ رفتہ اسلام سے قریب ہوتے گئے اور آخر کار سلہٹ کے اس وقت کے فوجدار کے پاس جاکر اسلام قبول کرلیا اوراپنا اسلامی نام بابو خان رکھا۔ ان کے اسلام قبول کرنے سے ان کے والد بنارسی رام سنگھ کو بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے چاندی کا ایک ہاتھی بنواکر فوجدار کو پیش کیا اور ان سے فریاد کی کہ ان کے بیٹے کو ان کے سپرد کردیا جائے۔ انہوں نے دوسرا متبادل یہ پیش کیاکہ ان کے بیٹے کی شادی کسی خاندانی مسلمان لڑکی سے کرادی جائے۔ فوجدار کو ان کا دوسرا متبادل پسند آیا اور ویریندر سنگھ کی شادی ایک خاندانی مسلمان لڑکی سے کرادی۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد رام سنگھ کا انتقال ہوگیا۔
بابو خان کے دوبیٹے انور خان اور کشور خان ہوئے۔ انور خان کے بھی دوبیٹے ہوئے عالم رضا اور علی رضا۔ علی رضا سنام گنج کے لکھن شری گاؤں میں سکونت پذیر ہوئے۔ علی رضا کے دوسرے بیٹے حسن رضا تھے۔
حسن رضا کا خاندا ن مغل سلطنت سے چودھری کا خطاب یافتہ تھا اور انہیں خراج وصولنے کا پروانہ ملاتھا۔دوامی بندوبست کے 1793میں نفاذ کے بعد انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے دیوان کا خطاب ملا۔ اس نسبت سے ان کے خاندان کے لوگ دیوان کہلائے۔ لہذا، حسن رضا کا بھی خاندانی نام دیوان حسن رضاچوھریتھا۔
یہی وجہ ہے کہ حسن رضا کی شاعری میں ہندومسلم تہذیبی وراثت کے نقوش ملتے ہیں۔رادھا کرشن کا عشق یا اپنشد کا برہم تتو انکے گیتوں میں نمایاں ہے۔
حسن رضا زمیندار کی حیثیت سے سخت مزاج تھے اور باغی عوام سے سختی سے نپٹتے تھے لیکن اگر کوئی اپنی غلطی پر نادم ہوکر معافی کا خواستگار ہوتاتھا تو فراخ دلی سے اسے معاف کردیتے تھے۔ وہ عوام کے ساتھ کھل کر ملتے تھے اس لئے عوام بھی ان سے بے تکلف ہوکر ملتے تھے۔ وہ خود ااعلی تعلی حاصل نہیں کرسکے مگر اعلی تعلیم اور مغربی تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے اور انہوں نے اپنے علاقے میں ہندو مسلم دونوں طبقے کی تعلیم کے لئے حسن ایم ای اسکول قائم کیا جو بعد میں جوبلی انگلش ہائی اسکول بن گیا۔
زمیندار ی وراثت میں ملنے کی وجہ سے انہیں دولت کی کمی نہیں تھی مگر وہ لاابالی اور عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔انکی قوت متخیلہ بلند تھی۔ ان کا مزاج فلسفیانہ تھا اور انہوں نے اپنے فلسفیانہ افکار کے اظہار کا وسیلہ انہوں نے شاعری کو بنایا۔ انہوں نے بیشمار پرسوز اور پردرد صوفیانہ اور باؤل گیت تخلیق کئے۔
انکی ابتدائی زندگی بہت سے اتار چڑھاؤ سے بھری ہوئی تھی۔وہ جب پندرہ برس کے تھے تو ان کے والد کی موت ہوگئی۔اس کے کچھ عرصے بعد ان کے چچا کی بھی موت ہوگئی۔ ان کے تنہا ہوجانے کی وجہ سے زمینداری اور جائیداد کی دیکھ ریکھ اور حفاظت کی ذمہ داری حسن رضا پر آپڑی۔ انکی کئی جائیدادیں نیلام ہوگئیں مگر وہ کچھ جائیدادوں کا بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے لئے انہیں مقدموں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور ایک جھوٹے مقدمے میں بھی پھنسائے گئے اور دس سال کی قید کی سزا بھی ہوگئی مگر اوپری عدالت کی مداخلت پر بری ہوگئے۔
انہوں نے اپنی جائیداد کی دیکھ ریکھ اور انتظام وانصرام کے لئے ایک انگریز مسٹر نتول کو مقرر کیا مگر کچھ وجوہ سے اس نے استعفی دے دیا۔ اس کے بعد ان پر ایک مقدمہ دائر کیاگیا اور دس ہزار روپئے کا جرمانہ بھرنا پڑا۔
انہوں نے ہندو اور مسلم بچوں کی اعلی تعلیم کے لئے ایک اسکول حسن ایم ای اسکول قائم کیاجہاں ذہین اور ہونہار طلبہ کے لئے مفت قیام اور طعام کا بندوبست تھا۔
حسن رضا کو نوجوانی میں اداکاری کا بھی شوق تھا اور وہ شری کرشن لیلا میں مختلف کردار ادا کرتے تھے۔ جوانی میں وہ دیگر زمینداروں کی طرح رنگین مزاج تھے مگر زیادہ عمر ہونے پر عیش وعشرت کی زندگی سے بیزار ہوگئے اور ساٹھ برس کی عمر میں انہوں نے تمام جائیدادوں کو ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا اور فقیرانہ زندگی اختیار کی۔ انہوں نے کئی خانقاہیں اور اکھاڑے تعمیر کئے۔
حسن رضا زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت نرم دل اور رقیق القلب تھے۔ انکے گیت عوام میں کافی مقبول تھے یہاں تک کہ انکے گیتوں سے رابندرناتھ ٹیگور بھی متاثرتھے۔ اس لئے رابندرناتھ ٹیگور نے انڈین فیلو سوفیکل کانگریس کے پہلے اجلاس کے صدارتی خطبے میں حسن رضا کے دوگیتوں کا حوالہ دیاتھا۔ انہوں نے کہا تھا۔ ”مشرقی بنگال کے ایک دیہی شاعر کے گیتوں میں مجھے فلسفہ کا ایک نمایاں عنصر ملتاہے۔وہ فلسفہ یہ ہے کہ فرد کے اندر ہی اس آفاقی صداقت کا وجود ہے۔“ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے ایک ہزار گیت تخلیق کئے۔ 206گیتوں پر مشتمل ان کا شعری مجموعہ ”حسن اداس“ 1907میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انکی دو اور کتابیں ”شوقین بہار‘‘ اور ”حسن بہار“ بھی شائع ہوئیں۔ انہوں نے اپنے مختلف گیتوں میں خود کو پاگل حسن رضا، دیوانہ اور باؤل کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ وہ عشق حقیقی میں ڈوب کر گیتوں کی تخلیق میں مصروف ر ہتے تھے۔
باؤل اور صوفی شاعروں کی طرح حسن رضا بھی انسانوں سے محبت کرتے تھے۔ انکے گیتوں میں انسانیت پرستی نمایاں ہے۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں فرقوں کے اعتقادات اور نظریات ے مطابق بے شمار گیت تخلیق کئے۔ انکے گیتوں میں ان کی بے مثال شاعرانہ صلاحیتوں کا عکس ملتاہے چونکہ انکے گیت علاقائی زبان میں عوام کے لئے ہوتے تھے اس لئے انکی زبان بہت سہل تھی۔ انکے گیتوں میں علاقائی الفاظ، تراکیب اور اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں جن کی وجہ سے انکی شاعری عوامی شاعری بن گئی ہے۔انکے زیادہ تر گیت سلہٹ کی علاقائی زبان میں ہیں۔ان کے گیتوں میں عشق حقیقی اور ہجر کی مختلف کیفیتوں کا بیان ہے۔ انکی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت رواداری کا فلسفہ اور مادی آسائشوں سے بیزاری ہے۔ انکے گیتوں میں انسانوں سے محبت جھلکتی ہے۔ چند وجوہات کی بنا پر روایتی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا مگر وہ خداداد ذہانت کے مالک تھے۔ انہیں فطرت کی طرف سے علم اعلی فکر حا صل ہوئی تھی۔ ان کا انتقال نومبر 1922ء میں 68 برس کی عمر میں ہوا۔
شاعری اور موسیقی پر دسترس رکھنے کے علاوہ وہ ایک ماہر حکیم اور طبیب بھی تھے۔انہیں قیافہ شناسی میں بھی مہارت حاصل تھی۔
حسن رضا کا خاندان علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ ان کے بڑے بھائی عبیدالرضا فارسی کے ایک اچھے شاعر تھے۔انکی بڑی بہن صحیفہ بانو بھی ایک مستند شاعرہ تھیں اور اردو اور بنگلہ ہر دوزبان میں شاعری کرتی تھیں۔ انکی بنگلہ شاعری کا انتخاب صحیفہ سنگیت اور اردو نظموں کا مجموعہ یادگار صحیفہ کے نام سے شائع ہوا۔ وہ سلہٹ کی پہلی خاتوں شاعر تھیں۔
حسن رضا کو جانوروں سے بہت محبت تھی اور وہ جانور اور پرندے پالنے کے شوقین تھے۔ وہ گھوڑے اور ہاتھی پالتے تھے۔ ان کے دو محبوب گھوڑوں کے نام جنگ بہادر اور چاند مشکی تھے۔ کشتی رانی میں بھی انہیں بڑا لطف آتاتھا۔
عیش و عشرت کی زندگی کو ترک کردینے کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کو شاعری اور گیتوں کے لئے وقف کردیاتھا۔ وہ نہ صرف گیت لکھتے تھے بلکہ انکی دھن بھی بناتے تھے اور محفلوں میں پیش بھی کرتے تھے۔اپنے گیتوں میں انہوں نے زندگی کا مقصد، دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کے انجام پر اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔
حسن رضا اگرچہ تصوف کے مضامین کو اسلامی نقطہ نظر سے اپنی شاعری میں پیش کرتے تھے مگر ان کا ذہنی میلان باؤل فلسفے کی طرف تھاحسن رضا اگرچہ تصوف کے مضامین کو اسلامی نقطہ نظر سے اپنی شاعری میں پیش کرتے تھے مگر ان کا ذہنی میلان باؤل فلسفے کی طرف تھا۔ باؤل فلسفہ انکے علاقے کے اجتماعی ذہن پر اثر انداز ہواتھا اور بنگال کے بہت سے شاعروں حتی کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے باؤل فلسفے کا اثر قبول کیا۔ حسن رضا کی شاعری پر بھی باؤل طرز فکر کا گہرا اثر ہے۔ وہ اپنے گیتوں میں باؤل گیتوں کی علامتوں اور اصطلاحوں کا استعمال کرتے ہیں۔
باؤل فرقے کے سادھو اپنے گیتوں کے ذریعہ ہی اپنی نجات کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ وہ لالن فقیر، ددو شاہ، پنجو شاہ، بھولا شاہ، پاگلاکنائی اور شیتلانگ شاہ کی صف کے باؤل شاعر ہیں۔ باؤل فرقے میں ہندو اور اسلامی نظریات و اعتقادات کا بیان ہوتاہے ۔ یہاں کسی مذہب کے ساتھ کوئی فکری امتیاز نہیں برتاجاتا۔ باؤل اپنے زاویہ نظر کو سمجھانے کے لئے کبھی اسلامی روایات سے موادحاصل کرتاہے تو کبھی ہندو مذہب کی روایات اور اسطور سے۔ حسن رضا بھی اسلامی اور ہندو دونوں کی مذہبی روایات کا سہارا لیتے ہیں۔حسن رضا کی شاعری میں عشق کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ انکی پوری شاعری عشق سے عبادت ہے۔ کدا سے محبت، انسانوں سے اور تمام مخلوقات سے محبت ہی ان کی شاعری کا بنیادی پیام ہے۔وہ محبت کے شاعر ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں،
قسم دیکر کہتاہے یہ حسن رضا دیوانہ
وہ میرے گیت نہ سنے جس نے پریم نہ جانا
عشق کو حسن رضا نے ہندو اسطور کو استعمال کرکے تمثیلی انداز میں بھی پیش کیاہے۔ وہ معبود حقیقی کے عشق کو رادھا اور کرشن کی تمثیل کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ حسن رضا کی گیتوں میں عشق حقیقی، ہستی کی ناپائیداری اور مادیت پرست اور عیش پرست انسانوں کی خدا بیزاری ہی حسن رضا کے گیتوں کے موضوعات ہیں۔ وہ مختلف جذبات و کیفیات کے تحت شاعری کرتے ہیں۔ کبھی وہ خود کو لامذہب قراردیتے ہیں اور کبھی قادر مطلق کے ہاتھوں میں ایک پتنگ کی طر ح محسوس کرتے ہیں۔
حسن رضا کے گیتوں میں باؤل فلسفے، ہندو مذہب کے ادویت واد اور فلسفہ ء وحدت الوجود کا حسین امتزاج پایاجاتاہے۔ باؤل اپنے اندر ہی خدا کو دیکھتا ہے اور اسے من کا میت (من کا مانش) کہتاہے۔ باؤل فلسفے میں بھی اپنے آپ کو پہچاننے پر زور دیاجاتاہے۔ صوفی کو بھی اپنے اندر خدا ملتاہے اور اسی لئے حسین بن منصور کہہ اٹھتاہے ”انا الحق “ (میں ہی حق ہوں) اور بایزید بسطامی کہہ اٹھتے ہیں ”مری قبا کے اندر خدا ہے“۔
حسن رضا کے اس گیت سے باؤل گیتوں کاہی اسلوب اور فکر نمایاں ہے۔ باؤل خود کو پہچاننے کو ہی نجات کا وسیلہ سمجھتاہے اور حسن رضا بھی اسی عقیدے کے حامی ہیں۔ حسن رضا باؤل فرقے کے ہی ایک صوفی شاعر ہیں۔
مختصر طور پر یہ کہاجاسکتاہے کہ حسن رضا بنگال کے مذہبی اور ثقافتی فضا میں پرورش پانے والے ایک صوفی شاعر ہیں جن کی شاعری میں ہندومذہب کے ادویت واد اور مسلم مذہبی فلسفے وحدت الوجود کا حسین امتزاج ملتاہے۔ اس کے علاوہ انکے گیتوں میں ریاکاری، مذہبی شدت پسندی اور انسانوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف احتجاج ملتاہے۔ وہ عشق کے پیغام بر ہیں اور ان کا عقیدہ ہے سچا عشق ہی نجا ت کا ذریعہ ہے اور سچا عشق خدا کے نام کے مخمصے میں نہیں پڑتا۔ سچا عشق خدا کو ہر روپ میں دیکھتا ہے۔ان کے گیتوں میں عوام کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ وہ عوام کی زبان میں خدا شناسی کی راز بیا ن کرتے ہیں۔ اسی لئے بنگال کی صوفیانہ شاعری میں باؤل حسن رضا کا نام امر ہے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/bengal-baul-sufi-poet-hasan/d/118823
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism