سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
امیر خسرو کی شاعری ہندوستانی کی ادبی وراثت کا ایک اہم باب ہے۔ انہوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور مختلف اصناف سخن میں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کئی مثنویاں لکھیں، فارسی میں ٖغزلیں کہیں اور ہندوستان کی عوامی زبان میں کہہ مکرنیاں، دوہے، پہیلیاں، ڈھکوسلے لکھے۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ادب کو عوام سے جوڑدیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہندوستان کی مٹی، اس کی تاریخی اور جغرافیائی خصوصیات، اس کی تہذیب و ثقافت اور اس کے عوام سے محبت کا اظہار اپنی شاعری میں کیا۔ انہوں نے قوم پرستی اور حب وطن کا اظہار اپنی شاعری میں اس زمانے میں کیا جب نیشنل ازم سیاسی نعرہ نہیں بنی تھی۔
امیر خسرو کی ایک اور اہم دین ہندوستانی شاعری کو یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ذولسانی مخلوط غزل کی ایجاد کی۔ انہوں نے فارسی اور اردو میں مخلوط غزل پہلی بار کہی اور یہ چلن ہندوستان میں بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے فارسی اور اردو میں جو غزل کہی اس کے دو اشعار پیش ہیں:
زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روز ِوصلت چوں عمر کوتہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیر رتیاں
جس دور میں امیر خسرو شاعری کررہے تھے اس دور میں فارسی شرفا کی زبان تھی اور اردو کو نچلے طبقے کی زبان سمجھاجاتاتھا۔ مگر انہوں نے اسی عوامی زبان کو اپنی شاعری میں اپنا کر عوام میں مقبول ہی نہیں بنایا بلکہ اسے خواص میں بھی قابل قبول بنادیا۔ محلوط یا ذولسانی غزل کو ہندوستانی عوام نے بہت پسند کیا اور بعد کے کچھ شعراء نے اسی اسلوب میں غزلیں کہیں۔ ان ہی میں ایک شاعر تھے بہرام سقا۔ وہ ہمایوں کی فوج مٰیں ایک کمانڈر تھے مگر بعد میں ان کا دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا اور انہوں نے فن سپہ گری کو خیر باد کہہ کر تصوف کی راہ اپنا لی اور شاعری کرنے لگے۔ انہوں نے بھی کئی ذولسانی غزلیں کہیں۔ ایک غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں۔
رہ بسوئے دیر بردم بھول پڑے
درد درد بادہ خوردم بھول پڑے
در طریقِ زہد خون ِ دل مخور
مئے بکش با یار ہمدم بھول پڑے
اس غزل میں صرف ردیف (بھول پڑے) اردو ہے۔
بہرام سقا کے بعد پشتو کے عظیم شاعر خوش حال خان خٹک نے پشتو اور اردو میں مخلوط غزلیں کہیں۔ جن میں ردیف اردو میں ہے۔
بیسیوں صدی میں امیر خسرو کی ذولسانی غزل سے متاثر ہوکر بنگلہ کے عظیم شاعر قاضی نذرالاسلام نے بھی ایک ذولسانی غزل کہی۔ یہ غزل کافی مقبول ہوئی۔ اس میں بنگلہ اور اردو کے مصرعوں کا بڑی فنکاری سے استعمال کیا ہے۔ اس غزل کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
آلگا کورو گو کھوپار باندھن دل وہیں میرا پھنس گئی
(اپنے جوڑے کو بند کو کھول دو میرا دل اس میں پھنس گیاہے)
بینود بینیر جورن فیتائے اندھا عشق میرا کس گئی
(تمہارے پرکش جوڑے کے پرپیچ فیتے نے میرے اندھے دل کو کس دیاہے)
تومار کیشیر گندھے کوکھن لکائے آسی لو لوبھی آمار مون
(تمہاری زلف کی خوشبو میں مست ہوکر میرادل اس میں آکر چھپ گیا)
بے ہوش ہوکر گر پڑی ہاتھ میں بازو بند میں بس گئی
اس طرح امیر خسرو کا یہ تجربہ ہندوستانی زبانوں میں کافی کامیاب رہا اور مختلف دور میں ہندوستانی شعراء نے ذولسانی غزلیں کہیں۔ ان غزلوں نے بین لسانی آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار اداکیا۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/amir-khusrau-pioneer-bilingual-ghazals/d/122099
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism