تایو سلامی
28 مارچ 2014
اسلام کا مطلب اپنی مرضی اور
ایقان و یقین کی بنیاد پر نہ کہ طاقت اور جبر و اکراہ کے ذریعے مکمل طور پر خود کو
مرضی مولیٰ کے سپرد کرنا ہے۔ اسلام تمام لوگوں کو ان کے مخصوص نسبتوں اور پس منظر سے
قطع نظر بھائیوں اور بہنوں کی طرح اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے اور ان کا خیر مقدم کرتا
ہے۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے تئیں اسلام کا موقف یہ ہے کہ نہ صرف ان کے عقائد
کے تئیں رواداری کا مظاہرہ کیا جائے بلکہ روداری اور مذہبی ذمہ داری کے ایک ٹھوس اور
اٹل اسلامی
اصول کی تائید و توثیق بھی کی جائے۔
اسلامی تاریخ کے ہر دور میں
ہم یہ پاتے ہیں کہ اسلام نے دیگر مذاہب کے لوگوں کے تئیں ہمیشہ اعلیٰ درجے کی رواداری
کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے معمول اسلام سے متصادم
ہوں۔ یہ مسلمانوں کے تئیں غیر مسلم شہریوں کے لیے اختیار کی گئی اعلی سطح کی رواداری
تھی۔
یہ رواداری کی روح ہے کہ جو
شاندار رویوں، خیر اندیش معاملات، لوگوں کے پڑوسیوں کا احترام اور تقوی ، ہمدردی اور
خوش اخلاقی کے تمام مخلص جذبات کا حامل ہے۔ تمام مسلمانوں سے یہ توقع کی جاتی ہے وہ
اپنے ہمسایوں کے تئیں ایسا ہی رویہ اختیار کریں۔
قرآن میں بہت ساری تعلیمات
ایسی ہیں جن میں غیر مسلموں کے ساتھ انصاف اور احترام کے ساتھ معاملات کرنے پر زور
دیا گیا ہے اور خاص طور پر اس لوگوں کے تعلق سے جو مسلمانوں کے ساتھ پر امن طریقے سے
رہتے ہیں اور ان کے خلاف دشمنی کو ہوانہیں دیتے۔
قرآن کی سورۃ 60 اور آیت
8 میں اللہ کا فرمان ہے: "جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور
نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم
کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے"۔
اگرچہ ہو سکتا ہے کہ مسلمان
دیگر نظریاتی اصولوں اور مذہبی عقائد سے متفق نہ ہوں لیکن اس کی وجہ سے غیر مسلموں
کے ساتھ مباحثہ اور بات چیت میں ایک مناسب اور صحیح رویہ کا مظاہرہ کرنے سے مسلمانوں
کو پرہیز نہیں کرنا چاہیے۔
قرآن کی سورۃ 29 اور آیت
46 میں ہے: " اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے جو کہ نہایت اچھا ہو۔ ہاں جو اُن میں سے بےانصافی کریں
(اُن کے ساتھ اسی طرح مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اُتری اور جو (کتابیں)
تم پر اُتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم
اُسی کے فرمانبردار ہیں۔"
سکوٹو کے سلطان سعد ابوبکر
نے مذہبی رواداری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے
کے تئیں رواداری کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی تشدد کو روکا جا سکے۔ یہ کہتے
ہوئے کہ نائیجیریا ایک سیکولر مگر کثیر مذہبی ریاست ہے جہاں ہر کسی کو امن اور ہم آہنگی
کے ساتھ رہنا سیکھنا چاہئے انہوں نے لوگوں پر یہ زور دیا کہ وہ ایک پر امن ماحول بنائے
رکھیں اور ایک دوسرے کے تئیں رواداری کے رویہ پر قائم رہیں۔
یونیورسٹی آف ابادن کی مرکزی
مسجد کے امام اعلی پروفیسر عبد الرحمن اولویڈ نے اسی مسئلہ پر بات کرتے ہوئے مسلمانوں
اور غیر مسلموں کو امن کے ساتھ رہنے اور معاشرے میں امن اور اتحاد کو فروغ دینے اور
آپس میں اچھے تعلقات کو فرغ دینے کا مشورہ دیا۔
پروفیسر عبد الرحمن نے کہا
کہ ‘‘میرے دوست عیسائی بھی ہیں میں ان سے ملتا جلتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے ملتے جلتے
ہیں’’۔ ہمیں ایک دوسرے کی کی خوبیوں کو سراہنا سیکھنا چاہیئے تاکہ معاشرے میں امن و
امان قائم ہو سکے۔ اسلام مذہبی رواداری کی تعلیم دیتا ہے اور ہمیں اسلامی تعلیمات کو
ذہن نشین کر لینا چاہیے تاکہ مسلمان غیر مسلموں کے لئے اچھی مثالیں قائم کر سکیں’’۔
عبداللہ القہطانی نے کہا:
‘‘اسلام کے اندر رواداری کی قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں نظریاتی
بنیادیں ہیں، اس میں انسانوں کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے’’۔لہذا، یہ ایک ایسا
مسلسل اصول ہے جو وقت یا جگہ کے بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتا۔ قرآن کے مطابق ہر انسان
قابل قدر ہےاس لئے کہ اللہ نے اسے معظم بنایا ہے۔
"اسلام میں نا انصافی کو سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک سمجھا جاتا
ہے۔ لہذا لوگوں پر اس لئے ظلم کرنا کہ وہ مختلف اصول و معتقدات کے حامل ہیں نا قابل
قبول ہے۔"
ڈاکٹر مزمل صدیق نے کہا کہ:
‘‘اسلام کچھ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن یہ دوسرے انسانوں کے حقوق کی خلاف ورزی، ناانصافی،
جبر کو مکمل طور پر ناقابل برداشت قرار دیتا ہے’’۔
‘‘قرآن تمام انسانوں کے بنیادی وقار کی بات کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے رنگ و نسل اور زبان سے قطع نظر تمام انسانوں کے مساوات کی بات کی ہے۔ شریعت
تمام لوگوں کے زندگی، جائیداد، خاندان، عزت اور ضمیر کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے’’۔
‘‘عام طور پر مسلمان بہت روادار رہے ہیں۔ آج ہمیں ہمارے درمیان اور
پوری دنیا میں اس خوبی پر زور دینا ضروری ہے۔ ہماری برادریوں کے درمیان رواداری کی
ضرورت ہے۔ ہمیں شاندار پالیسیوں اور کوششوں کے ذریعے رواداری کو فروغ دینا ضروری ہے۔
ہمارے مراکز کثیر نسلی ہونے چاہئے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ایک دوسرے کا احترام سکھانا چاہئے۔
ہمیں دیگر نسلوں اور ثقافتوں کی ترجمانی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ ایک
دوسرے کے ساتھ ملاقات اور تبادلۂ خیالات کرنا چاہئے’’۔
‘‘غیر مسلموں کے ساتھ ہمیں بات چیت کرنی چاہیے اور ہمیں ان کے ساتھ
اچھے تعلقات بنانے چاہئے، لیکن ہم وہ چیزیں قبول نہیں کر سکتے جو ہمارے مذہب کے خلاف
ہیں۔ ہمیں ان کو مطلع کرنا چاہیے کہ ہمارے لیے کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں۔ مزید
معلومات کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ باہمی احترام اور باہمی تعاون کو فروغ ملے گا’’۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.mydailynewswatchng.com/rulings-islam-religious-tolerance
URL
for English article: https://newageislam.com/islam-tolerance/rulings-islam-religious-tolerance/d/66328
URL for this article: