New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 03:12 PM

Urdu Section ( 2 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

RSS, BJP and Muslims آر ایس ایس، بی جے پی اور مسلمان

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

1 دسمبر 2023

ہفتے میں نے انقلاب کے قارئین کے سامنے”سیکولر سیاست اور مسلمانان ہند‘‘کے عنوان سے ایک تجزیہ رکھاتھا۔ آج باری ہے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھاجپا کی! کسی بھی معاشرے اور اس کی  معاشرت پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اثرات کا مرتب ہونا ایک فطری و منطقی عمل ہے۔ مذہب، ثقافت، فلسفہ حیات، سیاسی نظریات، ثقافتی کشمکش اور ایسی ہی کئی مثالیں اس زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں۔شاید اسی لئے میری حالیہ فکری جنگ مجھے کئی ایسے موضوعات کی طرف کھینچ لیتی ہے جو ہمارے معاشرے کے خد و خال کو منفی و مثبت دونوں ہی طرح متاثر کر رہے ہیں۔

وطن عزیز ہندوستان تقریباً ایک صدی سے نظریاتی کشمکش کا شکار ہے۔ یہ سفر اور منظر نامہ جس کے ہم سب گواہ ہیں، اس میں ایک طرف کانگریس اور دیگر سیکولر سیاسی جماعتیں ہیں تو دوسری طرف آر ایس ایس اور بھا جپا ہے۔ وہ جو آج حقیقت بن کر نریندر مودی جی کی قیادت میں مرکز میں دس سال سے اپنے بل بوطے پر اقتدار میں ہے۔آر ایس ایس ایک نہایت منظم نظریاتی سماجی تنظیم ہے جو ہندو تہذیب و ثقافت کو اپنے قائم کردہ ہزاروں تعلیمی و دیگر اداروں، شاکھائوں اور ملک گیر سطح پر پھیلے کیڈر کے ذریعے ایک زندہ قومی حقیقت بنانے پر ایک صدی سے کام کررہی ہے اور کامیاب ہے۔ بی جے پی عملاً اسکا سیاسی ونگ ہےاور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ جمہوریت میں متضاد نظریوں کا وجود اور انکا پروان چڑھنا ایک فطری عمل ہے۔ اس طبقے کا اسلام، مسلمانان ہند، انکی تہذیب و تمدن، اقدارو روایات، فکر و نظر کو لیکر کچھ توقعات اور تحفظات ہیں۔ مثلاً بھارتیہ مسلمان اپنی ساخت اور شناخت کو اس مٹی سے جوڑے، اپنے کو ہندو مانے، اس پر فخر محسوس کرے، باہر سے آئے حملہ آور حکمرانوں اور انکے دور اقتدار سے نہ جوڑے۔ سنگھ پریوار اور ہندوتو سے وابستہ لوگوں کو مزید یہ لگتا ہے کہ ان کے مذہبی جذبات و احساسات پر مسلمان کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، رام مندر کے لئے صدیوں جنگ لڑنی پڑی ۔اب کاشی اور متھرا کا بھی وہی حال ہے۔

ایسے ہی مسلمانان ہند اور ان کے اپنے اعتراضات و تحفظات ہیں۔ وہ تکثیریت، موجودہ آئین اور روح کے ساتھ برابری کا احساس رکھتے ہوئے جینا چاہتے ہیں۔ نظریہ ہندوتو اور اس کےہر شعبہ زندگی کے ساتھ وہ جینے میں مشکلات محسوس کرتے ہیں پھر جس زبان، لہجے اور اسلوب میں اسےآج  مخاطب کیا جارہا ہے،اس کے عقیدے، کھان پان، لباس، رہن سہن، مسجدوں، خانقاہوں، تعلیمی اداروں، بستیوں اور ثقافت پر جو حملے جارہی ہیں، نفسیات کو مجروح کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ سالا، غدار، پاکستان جانے کے بر ملا بیانات، توہین دین و مذہب کچھ ایسے ایشو ہیں جو ان کے  حلقوں میں گشت کررہے ہیں۔وہ یہ کہتا ہے کہ آخر ایسا اچانک اس نے کیا کردیا کہ اسے ہر وقت نشانہ بنایا جائے جس مستعدی سے انتظامیہ اسکے خلاف کارروائی کر تی ہے مجرموں کے خلاف کیوں نہیں کرتی؟ ایسا یکطرفہ کیوں ہو رہا ہے؟ یہ احساس مزید نفسیاتی کرب میں مبتلا کر رہاہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے دقتیں بڑھیں ہیں اور بڑھتی جارہی ہیں۔

 بابری مسجد تحریک اور رام مندر ابھیان نے ان رشتوں میں ایسے شگاف ڈالے ہیں جو آج تک بھر نہیں پائے۔ مصلحت اورمصالحت کی ہر کوشش ناکام ہوئی اور جو ہوا اس پر کئی مرتبہ میں لکھ چکا ہوں۔ یہ بہت خوبصورتی سے دوربھی ہو سکتی تھی جو بہر حال نہ ہو سکی۔ ادھر عام مسلم رویہ آر ایس ایس اور بی جے پی مخالف ہے۔ مسلمان اگر بڑھنا بھی چاہتا ہے تو کچھ حالات و واقعات، کچھ بد کلامی و بد زبانی، کچھ طعنے و الزام تراشی، کچھ ماحولیاتی آلودگی اور کچھ بد گمانیاں پل سازی میں معنی ہو جاتی ہیں۔ مکالمہ اب سب چاہتے ہیں، مفاہمت و مصالحت کو بھی سب وقت کی ضرورت سمجھ رہے ہیں۔ البتہ اس صورتحال کے جاری رہنے سے سب تشویش میں مبتلا ہیں۔ آئیے کچھ حقائق سے سامنا کرتے ہیں۔ہندوستان میں دو ہندوستان لگ بھگ سو برس سے چل رہے ہیں۔ ایک گاندھی اور ان کےرفقائے کار کا ہندوستان ،جسکی دین آزادی، موجودہ آئین اور موجودہ سرکاری و غیر سرکاری ڈھانچہ ہے۔ اس پر مغربی سیکولرزم حاوی ہے تو دوسری طرف آر ایس ایس اور بھاجپا ہے جو بھارت کو ہزاروں سال سے سیکولر مانتی ہے۔ اس کے نزدیک سیکولرزم کا مطلب نظریہ ہندوتو ہے جس کی کوکھ سے ثقافتی کلچرل نیشنلزم کا تصور نکلتا ہے۔ وہ بھارت کو ہندو پردھان دیش مانتے ہیں۔ ہندو دھرم، سنسکرتی اور ان کے احیاء میں ملک کا مستقبل دیکھتے ہیں ۔اقلیت و اکثریت کی اصطلاح عملا وہاں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی سب کے پرکھے ایک ہیں، سب ہندو ہیں، کیونکہ سب کا ڈی این اے ایک ہے۔ وہ کثرت میں وحدت یا تکثیریت کے قائل نہیں ،بس انکا ماننا ہے کہ بس عبادت کے طریقے الگ ہوگئے وہ بھی دھرم پریورتن کی وجہ سے! باقی تو سب ایک اور ساجھا ہے اور رہنا بھی چاہئے۔ گھر واپسی، ؛ شدھی، ہر معاملے میں ہندو ریت رواج کی یکطرفہ بالا دستی اور اسی میں سب اپنا مستقبل تلاش کریں انکا ایسا نظریہ بتایا جاتا ہے بس ایک وحدت پر چلا جائے ۔ 

بھارتیہ مسلمان اسی دھرتی کےبیٹے ہیں،الگ نہیں۔ وطن سے محبت مذہب سے اوپر ہے، مسلم  حکمرانوں نے ہندوئوں کے مذہبی شہروں کے بیچ میں جو مسجدیں بنائیں ہیں مسلمان ان سے دست بردار ہو جائیں۔ اس میں تین کی بات کھل کر ہوتی ہے باقی تو ہزاروں کی آوازیں بھی کان میں سنائی  پڑتی ہیں، گئو ماتا کو لیکر کچھ بھرم ہیں۔ اس کے ساتھ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ۱۹۴۷ ءمیں اپنا حصہ لے چکے اب بھی انکوبرابری اور حصے داری چاہئے۔مسلمانان ہند کا عام نظریہ یہ ہے کہ یہ ہمارے مذہب، تہذیب، تمدن، زبان واقدار کو دفن کرنے کے در پر ہیں۔ انہیں ہر وہ چیز جو ہمیں تکلیف پہنچاتی ہے یہ اس پر جشن مناتے ہیں، کبھی ہمارے کسی مسئلے پر ساتھ کھڑے نہیں ہوتے، ہم سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں، ہمار ے لئےدل میں کینہ اور کدورت پال رکھی ہے، ہم انکو ایک آنکھ نہیں بھاتے، انہیں تو ہمارا وجود ہی گوارہ نہیں، ہماری ہر مشکل اور آزمائش کے پیچھے ان ہی کی ذہنیت ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو بس سب ٹھیک ہو جائے  لنچنگ، جگ ہنسائی، جملے بازی، ہماری ہر شئے کو معتوب جاننا اور کرنا، توہین آمیز گفتگو اور ہر سطح پر ہم کو بونا بنا کر رکھنا، نہ ہمیں ٹکٹ دیں، نہ نمائندگی اور نہ ہی کہیں کوئی حصے داری۔ بس دوسرے درجے کے شہری کی طرح پڑے رہو۔ ادھر مسلم رویہ کہ ان کو الیکشن میں ہرانے کے لئے بس کوئی کور کسر مت چھوڑو، انکی جڑ کو کھودنے میں کوئی کسر نہ رکھی جائے، کسی معاملے میں انکی نہ مانی جائے اور یہ ہماری سب مانیں یہ مزاج مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔

چند حقائق اگر دونوں سمجھ لیں تو ماحول سے منافرت اور اس سے پیدا ہوئی تنگ دامنی پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔جذبات کے باہم احترام واکرام سے حل نہیں نکلا کرتے! واضح رہے جو کچھ ہورہا ہے وہ ووٹ کی طاقت، جمہوریت اور آئین کے دائرے میں رہ کر  ہو رہا ہے۔بی جے پی عوامی حمایت سے آج یہاں کھڑی ہے وہ اور اس کا آئیڈیا آف انڈیاآج کی حقیقت ہے۔ آدھے سے زیادہ ہندوستان اس کا اور اس کے نظریات کا ہمنوا ہو چکا ،یہ تبدلی اکثریت کی نفسیات میں آئی ہے۔ آپ اس کو روک نہیں سکے۔ اب تو پانی بہت بہ چکا ۔راستہ کیا ہے ؟ راستہ بالکل صاف ہے کون کتنا ذمہ دار ہے یہ بحث اب اپنا وزن کھو بیٹھی ہے۔دونوں وحدتوں میں آج عتراف ہے کہ یہ صورتحال مستقل نہیں چل سکتی سرکاری سطح پر حکومت کی تمام اسکیموں میں آبادی سے زیادہ حصہ داری، مذہبی امور معمول کے مطابق، اقلیتی ادارے فعال، مسلم نمائندگی کو لیکر کچھ شکایات وغیرہ ضرور ہیں۔ بنیادی مسئلہ ماحول میں بے اطمینانی اور غیر یقینی ہے۔ کوئی بڑا فساد پورے اس دور میں نہیں ،بیشتر مسائل زبان و بیان و کلام سے متعلق ہیں۔ آر ایس ایس مکالمے و مفاہمت کو لیکر سنجیدہ ہے ۔ہم ابھی ابہام اور وسوسوں کی دنیا میں گشت کر رہے ہیں ۔نوح اور دہلی کے فسادات کو لیکر بھی کئی جائز شکایات ہیں۔

 آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ مہذب قومیں دیوار پر کیا لکھا ہے اس کو پڑھ کر ایک حکمت عملی کے تحت اپنے پر وقار مستقبل کو یقینی بناتی ہیں ۔جب دائیں بازو کی سیاست اور ثقافت کو غلبہ حاصل ہوتا ہے تو کچھ لچک پیدا کرکے ہی مشکلات پر قابو پایا جاتا ہے یہ عمل دو طرفہ اور سہ رخی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی مسلم دشمن نہیں، جس طرح مسلمان ان کااور ان کے نظریہ ہندوتو کا مخالف ہے مگر دشمن نہیں!

 آئیے پل سازی کے خوبصورت عمل کی طرف بڑھیں! اسی سیڑھی پر چڑھ کر دونوں کہیں پہنچ سکتے ہیں صبر اور تحمل دونوں طرف درکار ہوگا۔ غلط فہمیاں بد گمانیاں پیدا کرتی ہیں انکو جگہ دیکر ہم نقصان زیادہ کرتے ہیں، فائدے سے واقف نہیں!

1 دسمبر 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/rss-bjp-muslims/d/131237

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..