روز نامہ راشٹریہ سہارا
24 اپریل،2022
دو دہائی پہلے تک یوروپی
لیڈروں کی فراخ دلی کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر گزشتہ ایک دہائی میں مسلمانوں کے
لئے یوروپی ممالک کے حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ بڑھتی ہوئی اقتصادی
بدحالی، مفلسی اور بے روزگاری نے یوروپیوں کی فراخ دلی کی حقیقت دنیا کے سامنے
لادی ہے۔ ایک کے ایک یوروپی لیڈران مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول کر سیاست میں
کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔ نکولس سرکوزی کی مدت صدارت میں فرانس میں لاکھوں بے روزگار
تھے مگر سرکوزی نے ان پر توجہ دینے کے بجائے ان چند فرانسیسی مسلم خواتین پر توجہ
مرکوز رکھی جو نقاب پہنتی تھی، سرکوزی نے باضابطہ نقاب مخالف مہم چھیڑی تھی اور
نقاب پہننے کو قانوناً جرم بنا یا تھا لیکن فرانس میں حالات پہلے سے زیادہ خراب
ہوئے ہیں۔ حالیہ فرانسیسی صدارتی انتخاب میں دائیں بازو کی لیڈرمارین لوپوں کیلئے
ایشوز حجاب ہی نہیں، حلال گوشت بھی ہے۔ فرانس کے مسلمانوں کو فطری طور پر یہ تشویش
ہوگی کہ صدارتی انتخاب کو ن جیتے گا، ان کے لئے او رکتنی آزمائش کے دن آنے والے
ہیں۔ اس صورت حال میں کیا وہ ایک دہائی پہلے کی طرح رمضان مناپارہے ہوں گے ، یہ سوال جواب طلب ہے، البتہ دیکھنے
میں یہ بات آئی ہے جن ملکوں میں مسلمان اور اسلام زیادہ ایشو بنے ہیں ، وہاں غیر
مسلموں کی اسلام سے دلچسپی زیادہ بڑھی ہے،مشرب بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد بھی
بڑھی ہے اور اس معاملے میں فرانس اچھوتا
نہیں ہے۔ وہاں دائرہ اسلام میں آنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میں زیادہ تر
وہ لوگ ہیں جن کی عمر 40 سال سے کم ہے ۔ گزشتہ دو ڈھائی دہائی میں فرانس میں
مسلمانوں میں شراب نوشی میں کمی آئی ہے، روزانہ پانچ وقت کی اور جمعہ کی نماز
پڑھنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔رمضان میں پہلے سے کہیں زیادہ لوگ عبادتوں میں وقت
گزارنے میں لگے ہیں ۔ یہ سب دائیں بازوں کے فرانسیسی لیڈروں کو بھاتا نہیں ۔ وہ
مسلمانوں کا ناطقہ بند کردیناچاہتے ہیں لیکن حالات ان کی چاہت کے برعکس بنتے جارہے
ہیں ، چنانچہ اس رمضان میں جاری صدارتی انتخاب میں مسلمانوں کے لیے تشویشناک حالات
پیدا کرناحیرت انگیز نہیں ہے، البتہ حیرت اس بات پر ضرور ہے کہ یہ سب اس وقت ہورہا
ہے جب یوکرین جنگ نے پورے پوروپ کے لیے تشویش پیدا کردی ہے ، یہ معلوم نہیں کہ جنگ
کادائرہ کہاں تک پھیلے گا۔
یہ بات صحیح ہے کہ انسانی
حقوق کو دبانے کی کوشش کہیں بھی کی جائے ، یوروپی لیڈران آواز بلند کرتے رہتے ہیں
مگر خود ان کے ملکوں میں حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ 15 اپریل،2022 کو سویڈن کے شہر
اور یبرو میں بے حد دائیں بازوں کے گروپوں نے قرآن شریف کے اوراق کو جلانے کی
کوشش کی۔ انہیں روکنے کی جدوجہد میں کئی پولیس والے زخمی ہوگئے ۔ جہاں حالات ایسے
ہوں ، ظاہر سی بات ہے ، وہاں کے بھی مسلمان عبادت تو کریں گے مگر ان کی عبادتیں
تکلیف دہ حالات میں ہی ہوں گی۔ ماہ رمضان میں عام طور پر مقامی پکوانیں بنانے،
رشتہ داروں، مسلم اور غیر مسلم دوستوں کو دعوت دینے کا جو اہتمام کیا جاتاہے، وہ
نہیں کرپائیں گے ،کیونکہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن شریف سب سے زیادہ پڑھا
جاتا ہے او راسی کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کون وہ مسلمان ہے جو
دلبرداشتہ نہیں ہوگا؟ یہ ذکر بے محل ہوگا کہ 2020 سویڈن کی آبادی 1.04 کروڑ تھی۔
اس میں مسلمانوں کی آبادی 1.9 فیصد تھی۔ دیگر ذرائع کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کی
آبادی سویڈن میں اس سے زیادہ ہے۔ 1960 کے بعد سے اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی
میں توسیع ہونا ہوئی تھی، کیونکہ دیگر ملکوں کے مسلمان یہاں زیادہ آنے لگے تھے۔
2004ّّسے 2012 کے دوران عراقی، صومالی او رافغان مسلمانوں کے آنے کے بعد سویڈن
میں مسلمانوں کی آبادی میں اور اضافہ ہوا۔ اس آبادی میں قلیل تعداد ہی سہی ان
غیر مسلموں کی بھی ہے جو دائرہ اسلام میں آئے ہیں لیکن تعداد اتنی زیادہ بھی نہیں
ہے کہ مسلمانوں کی دلآزاری والی سیاست کی جائے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلمانوں
کے لیے حالات خراب ہیں۔ ان کی دلآزاری کرکے انہیں دبانے کی کوشش کر کے سیاسی
حصولیابیوں کی کوشش کی جارہی ہے تو ایسی صورت میں سویڈن کے حالات پر زیادہ حیرت
نہیں ہونی چاہئے ، البتہ رمضان میں وہاں قرآن کے اوراق نذر آتش کرنا یہ اشادہ ہے
کہ سویڈن بدل رہا ہے ، مستقبل قریب میں وہ ویسا نہیں رہے گا جیسا اب تک رہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ فرانس
اور سویڈن ہی یوروپ کے دو ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمانوں سے ان کے کچھ اہل وطن کا
سلوک اچھا نہیں ہے، ان کے کھانے او رپہننے پر وہ اعتراضات کرتے ہیں، دیگر یوروپی
ممالک میں بھی وقتاً فوقتاً ایسے ایشوز اٹھتے رہے ہیں جو یہ سوچنے پر مجبور کرتے
ہیں کہ ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کا خیال کیے بغیر ، ان کے پرب تہوار
، ان کے مقدس مہینے کا احترام کیے بغیر کیا کوئی ملک دنیا کے لیے ایک آئیڈیل ملک بن
سکتاہے؟ یوروپی تو فراخ دلی کے لیے مشہور تھے، انہیں کس کی نظر لگ گئی؟ کیا وہ
ہمیشہ سے ایسے ہی تھے مگر حالات نے انہیں یہ رخ دکھانے کا موقع نہیں دیا تھا؟ سچ
تو یہ ہے کہ اس دور میں طاقت کے اظہار سے کئی لیڈروں کی دلچسپی ایک حد سے زیادہ
بڑھی ہے ، وہ اپنے عوام کے تئیں بھی مذہب ونسل کے نام پر طاقت کا اظہار کرنے لگے
ہیں ۔ ایسی صورت میں مسلمان اپنے تہوار کی خوشیاں دوسروں سے بانٹنے کی زیادہ
پوزیشن میں نہیں ہیں تو ان کی یہ پوزیشن ناقابل فہم نہیں ہے۔
24 اپریل،2022 ، بشکریہ: روز نامہ راشٹریہ سہارا، کولکاتہ
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism