نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
16 جون 2023
پاکستان اس وقت بدترین معاشی
اور سیاسی بحران سے گزررہاہے۔ ملک دیوالہ ہونے کے قریب ہے۔ صرف اعلان ہونا باقی ہے۔
اس کا غیر ملکی زر مبادلہ 3 ارب روپئے سے بھی کم ہے اور اس کی وجہ سے مہنگائی نے سارے
گزشتہ ریکارڈ توڑدئیے ہیں۔لوگ فاقہ کشی کے شکار ہیں۔ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔صنعتی
پسماندگی کی وجہ سے بیروزگاری عروج پر ہے اور بے روزگاری کی وجہ سے جرائم کی شرح میں
بے حساب اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈکیتی اور قتل کے واقعات زیادہ ہونے لگے ہیں۔
اس کے ساتھ ملک شدید سیادی
بحران کا بھی شکار ہے۔ ملک میں ایسی خکومت قائم ہے جو غیر جمہوری طریقے سے قائم۔ہوئی
ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلی تحلیل ہے لیکن حکومت انتخابات نہیں کرانا چاہتی
کیونکہ اسے شکست کا خوف ہے۔ اس طرح ایک طرح سے پاکستان اس وقت غیر یقینی صورت حال سے
گزررہا ہے۔
لیکن ان سبھی حالات کے درمیان
جو بات سب سے زیادہ افسوسناک ہے وہ یہ کہ اس بحران میں علماء کا طبقہ نہ صرف خاموش
ہے بلکہ بدعنوان اور ظالم حکومت کا ہمنوا اور حلیف بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں
روز اول سے ہی علماء کا سرگرم اور فعال کردار رہا ہے۔ پاکستان چونکہ مزہب کی بنیاد
پر وجود میں آیا تھا اس لئے اس کے قیام کے آغاز سے ہی علماء پاکستان کا پاکستان کی
سیاست اور قانون سازی میں اہم کردار رہا۔ جناح کے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے
کے منصوبے کو علماء ہی نے ناکام بنایا اور پاکستان ایک سیکولر ریاست بننے کی بجائے
ایک اسلامی جمہوری بن گیا۔
پاکستان کی سیاست میں علماء
اور اسلامی تنظیموں کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ہونے کے بجائے
نقصان ہوا۔ انہوں نے معاشی تعلیمی صنعتی اور سائنسی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے مذہبی
اور مسلکی معاملات پر حکومت کو الجھائے رکھا۔ پاکستان کی نئی حکومت کے پاس عمدہ پالیسی
ساز نہیں تھے جو زرعی اور صنعتی اصلاحات اور صنتعی ترقی کے لئے پالیسیاں بناتے۔ اس
کے برعکس پاکستان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے علماء کی ایک بڑی تعداد تھی جو
حکومت پر مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر پالیسیاں وضع کرنے کے لئے دباؤ ڈالتے تھے۔
علماء کی اسی مسلکی تنگ نظری کی وجہ سے 1953 کا احمدیہ مخالف فساد ہوا۔ 16 سے 18 جنوری
1953 ء کو لاہور میں آل پاکستان مسلم۔پارٹیز اور مجلس,احرارالاسلام۔کے زیراہتمام احمدیوں
کے خلاف ایک کانفرنس ہوئی جس میں ان کے خلاف قرار داد پاس گئی۔ 21 جنوری کو علماء کا,ایک
وفد حکومت کے نمائندے سے ملا اور مطالبہ کیا کہ ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹایا
جائے اور احمدیوں کو تمام بڑ ے عہدوں سے ہٹایا جائے۔ اس کے علاوہ احمدیوں کو غیر مسلم
قرار دیا جائے۔ ان مطالبات کو نہ ماننے کی صورت میں علماء نے ڈایریکٹ ایکشن کی دھمکی
دی۔ حکومت نے ان کے مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں علماء نے احمدیوں
کے خلاف فسادات بھڑکائے جو لاہور سے شروع ہوئے اور پورے ملک میں پھیل گئے۔ ذرائع کے
مطابق اس فساد میں 2000 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ احمدی مخالف فسادات ڈیڑھ ماہ تک جاری رہے
اور 6 مارچ کو ملک میں مارشل۔لاء لگادیا گیا۔
پاکستان کی تشکیل۔کے بعد پاکستان
میں احمدیوں نے تعلیمی اور سیاسی طور پر کافی ترقی کی تھی کیونکہ ان کے یہاں شرح خواندگی
دوسرے طبقوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ احمدیہ طبقے کے افراد پاکستان کی بیوروکریسی
اور سیاست میں اہم۔مقام۔پر فائز تھے۔ ظفراللہ خان جو,وزیر خارجہ تھے ایک احمدی تھے
اور تقسیم کے دوران جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدوں کا تعین ہورہا تھا تو
ظفراللہ خان نے کئی علاقوں کو پاکستان میں شامل کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن
علماء نے پاکستان کی تعلیمی اور سماجی ترقی پر توجہ مبذول۔کرنے کے بجائے احمدیوں کے
خلاف مہم چھیڑدی اور پاکستان کو مسلکی فساد کی آگ میں جھونک دیا۔اس کا ایک سب سے بڑا
نقصان یہ ہوا کہ پاکستان میں فوج کو سیاسی معاملات میں دخل دینے کا موقع مل گیا۔
پاکستان کی تشکیل۔1947ء میں
ہوئی تھی اور محض چھ سال کے بعد ہی پاکستان جونریزی اور تشدد کی راہ پر چل پڑا جب کہ
اس دوران ہندوستان نے صنعتی اور زرعی ترقی کے لئے اہم۔منصوبے بنائے۔ کارخانے اور,ڈیم۔تعمیر
کئے۔ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں اور سائنسی ترقی میں پیش رفت شروع کی۔
ہندوستان نے جو سب سے اہم۔قدم اٹھایا وہ زمینداری کے خاتمے کا تھا۔ زمینداری کے خاتمے
نے بندھوا مزدوری کا بھی خاتمہ کردیا اور معاشی مساوات کی بنیاد پڑ گئی۔ پاکستان نے
زمینداری کا خاتمہ نہیں کیا جبکہ ایک اسلامی ملک میں معاشی مساوات کے لئے سب سے اہم۔کام
یہی تھا۔ زمینداری ختم نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جاگیرداروں اور چودھریوں کی اجارہ
داری ویسے ہی قائم رہی جو,آزادی سے پہلے تھی۔ بڑی بڑی جاگیروں کے انتطام و انصرام کے
لئے بندھوا مزدوروں کی ضرورت تھی ۔ لہذا بندھوا مزدوری کو بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔زمینداروں
کے کھیتوں میں کام۔کرنے کے لئے بندھوا مزدور رکھے جانے لگے اور انہیں قید میں رکھنے
کے لئے زمینداروں نے نجی جیلیں بھی بنوائیں۔ پاکستانی علماء نے ان غیر اسلامی روایتوں
کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی کیونکہ وہ لوگ اپنے مذہبی اور مسلکی منصوبوں کی کامیابی
کے لئے انہی زمینداروں اور چودھریوں کی حمایت پر منحصر تھے۔ پاکستانی علماء کا ایک
بڑا طبقہ ہمیشہ حکومت، فوج اور جاگیرداروں کا,حاشیہ بردار رہا ہے۔
انہوں نے اپنے ذاتی مفادات
کے لئے تنظیمیں اور ادارے بنائے اور عوام کا جذباتی استحصال کیا۔ 80ء کی دہائی سے پاکستان
میں انتہا پسند اور عسکری تنظیموں کا وجود عمل۔میں آیا اور ان تنظیموں کو نظریاتی جواز
اور,حمایت دینے کا کام۔علماء نے کیا۔ اس کے نتیجے میں لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی ، سپاہ
صحابہ اور طالبان جیسی انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان تنظیموں نے مسلکی اور
مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کا بازار گرم کیا۔پاکستانی علماء نے تشدد کے ہر واقعے کے
بعد خاموشی اختیار کی کیونکہ ان تنظیموں کو نظریاتی بنیاد انہی علماء نے دی تھی۔ آج
بھی پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان ، داعش اور سپاہ صحابہ جیسی انتہا پسند تنظیمیں
فعال اور,سرگرم۔ہیں اور مسجدوں ، اسکولوں ، بازاروں اور ہسپتالوں میں دہشت گردانہ حملے
کرتی ہیں اور نہتھے اور معصوم مسلمانوں کو ہلاک کرتی ہیں لیکن علماء اس تشدد اور ان
تنظیموں کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے کیونکہ یہ تنظیمیں انہی علماء کے نظریاتی بغل بچے
ہیں۔
پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران
کے دوران بھی پاکستان کے علماء کی بے حسی اور مردہ ضمیری کھل کر سامنے آئی ہے۔ 9 مئی
کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران جو مبینہ تشدد اور تخریبی کارروائی
ہوئی اس پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور فوج نے عمران خان کی پارٹی کے لیڈروں اور
کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے۔بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔
اس دوران پولیس اور فوج کے عملے نے عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی ان کے کپڑے پھاڑے انہیں
زدوکوب کیا اور جیل۔میں کئی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی۔جبکہ تخریب کاری میں
خود پولیس اور فوج کا ہاتھ ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستانی علماء
فوج اور پولیس کی زیادتیوں پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ کچھ علماء تو فوج اور پولیس کی
بے شرمی سے حمایت بھی کررہے ہیں۔تخریب کاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے
کی بھی بات ہورہی ہے۔پاکستانی علماء کاؤنسل کے سربراہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ آرمی
ایکٹ کے تحت ہی کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ آرمی ایکٹ کے تحت زیادہ مؤثر کارروائی ہوگی۔جبکہ
پاکستان کی سول سوسائٹی اور وکلا کا طبقہ کہہ رہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات میں
شفافیت نہیں ہوگی اور بغیر ثبوت کے سزا,سنادی جائیگی۔پیر محمد افضل قادری جو ایک دوسرے
عالم محمد علی مرزا کے خلاف قتل کا فتوی صادر کر چکے ہیں اور انہیں مارنے والے کو پانچ
لاکھ روپئے کے انعام۔کا اعلان کرچکے ہیں وہ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور غیر قانونی
حراست پر خاموش ہیں۔ کیونکہ حکومت اور فوج کے خلاف بولنے پر ان کے مفادات خطرے میں
پڑ جائینگے۔
پاکستانی علماء کی اخلاقی
پستی بھی پاکستان کی تباہی کی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔پاکستان کی ایک ماڈل حریم شاہ نے
مولانا فضل الرحمن ، مفتی کفات اللہ اور مولانا عبدالقوی کے قابل اعتراض ویڈیو لیک
کئے ہیں۔ ان ویڈیوز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے علماء کا ایک طبقہ غیر اسلامی
اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ کچھ سال قبل ایک پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کی
ایک عالم دین کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصویر وائرل۔ہوئی تھی۔ وہ عالم دین رویت ہلال۔کمیٹی
کے چیرمین تھے۔ انہوں نے اس ماڈل کے ساتھ تصویر خود پوسٹ کی تھی اور نیچے لکھا تھا۔
۔"میں نے چاند دیکھ لیا۔۔"۔
اس واقعے کے کچھ دنوں کے بعد
قندیل بلوچ کو اس کے والد اور بھائیوں نے مبینہ طور پر قتل کردیا تھا۔پاکستان میں اکثر
کچھ علماء کی ماڈل عورتوں یا کال گرلس سے قربت کی خبریں آتی ہیں۔ اسی ماہ جمعیت علماء
اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نجی دورے پر تھائی لینڈ گئے۔ ان کے قریبی افراد
کا کہنا تھا کہ وہ تناؤ دور کرنے گئے ہیں۔ میڈیا کے تجزیہ کاروں نے یہ خیال بھی ظاہر
کیا وہ تھائی لینڈ کے پتایا ساحل۔پر مساج کا لطف لینے گئے ہیں ۔وہ تھائی لینڈ نجی دورے
پر گئے لیکن سرکاری طیارے کا,استعمال کیا۔ اس سے قبل حریم شاہ نے الزام لگایا تھا کہ
جب مولانا قطر میں تھے تو انہوں نے ایجنٹ سے شی میل کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
جس ملک کے علماء اخلاقی طور
پر اس سطح تک گرچکے ہوں اور جہاں کے علماء عوام۔کے ساتھ کھڑے نہ ہوکر ظالم حکومت کا
ساتھ دیں اس ملک کی تباہی میں کسی کو کیا شک رہ جاتا ہے۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism