New Age Islam
Fri May 23 2025, 04:49 PM

Urdu Section ( 15 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Role of Media in Our Freedom ہماری آزادی میں میڈیا کا کردار

مظہر حسنین

15 اگست،2024

حکومت برطانیہ نے ہندوستان پر اپنی حکمرانی مسلط کرنے کے بعد عوام پر مظالم ڈھانے شروع کردیے جس سے انسانیت تڑپنے او رسسکنے لگی۔یہاں تک کہ برطانوی سامراج کے مظالم سہتے سہتے ہندوستانی عوام میں اس کے خلاف بیزاری پیدا ہونے لگی۔ اس ’پر آشوب ماحول میں میڈیا کی کرن ثابت ہوا۔ یہاں میڈیا سے مراد اخبارات ہیں جو برطانوی حکومت کے خلاف صف آرا تھے او رہندوستان عوام کو انگریز ی حکومت سے آزادی کے لئے تازہ دم کررہے تھے۔ جیسے جیسے انگریز حکومت کے مظالم بڑھے یہ اخبارات آزادی کی تحریک میں شدت پیدا کرتے گئے۔ میڈیا جو اس زمانے میں اخبارات، روزنامچے یا رسائل کی شکل میں تھا، ایک بڑے ہدف کے ساتھ عملی میدان میں آگیا۔

ہندستان میں اخبارنویسی کا آغاز مغلیہ دور میں ہوا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں اردو کے 35/ اخبارات شائع ہوتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں پہلا اردو کا اخبار 1835 میں دہلی سے جاری ہوا جس کے مدیر او رمالک”محمد باقر“ تھے جو اردو کے مشہور او رمعروف ادیب محمد حسین آزادکے والد تھے۔ 1857 ء کی جنگ آزادی میں مولوی باقر نے اپنے روزنامہ ”اردو اخبار“ کے ذریعے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔انہوں نے اس اخبار میں مولانا فضل حق خیر آبادی کا فتویٰ شائع کیا جس پر بہت سے علماء کے د ستخط تھے۔ اس فتوے میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کو جہاد قرار دیا گیا تھا۔ اس اخبار میں مجاہدین آزادی کے کارنامے اور شہر شہر کی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ مسلمان اس کو ہاتھوں ہاتھ خرید کر پڑھتے تھے۔ اس کا آخری پرچہ 13 ستمبر،1857میں شائع ہوا۔ 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی پہلی جدوجہد جسے انگریزوں نے بغاوت کا نام دے کر مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا اور پھانسی پر لٹکایا۔ اس وقت یہ افواہ عام تھی کہ جس کے گھر سے ”اردو اخبار“ کا کوئی پرچہ برآمد ہوگا،اسے پھانسی کی سزا دی جائے گی۔چنانچہ لوگوں نے ”اردو اخبار“ کے تمام پرچے جلاڈالے۔ ”اردو اخبار“ کے بعد تاریخی طور پر جو اہمیت مولانا محمد علی جوہر کے نکالے گئے دورسالوں ”کامریڈ“ اور ”ہمدرد“کو حاصل ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ کامریڈ انگریزی اور ہمدرد اردو کا اخبار تھادونوں زبانوں میں مولانا محمد علی جوہر کی تحریر ایسی ہوتی تھی کہ دشمن بھی داد دینے پر مجبور تھے۔ اس تعلق سے یہ بات مشہور تھی کہ انگریز حاکم بھی اس اخبار کو ضرور پڑھتے ہیں بلکہ اس کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے صحافت کی دنیا کو ایک نیا لہجہ بخشا او رصحافت کو غلامی کے دور میں بھی بلند وقار عطا کیا۔ تحریک آزادی کے تعلق سے مولانا آزاد کے اخبار الہلال کو فراموش نہیں کرسکتے جس نے ہندو۔مسلم اتحاد میں اہم رول ادا کیا تھا اور ہندوستانی قومیت کے جامع نظریات کو اس اخبار نے فروغ دیا تھا۔ اس اخبار کی اشاعت کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں میں آزادی کے لئے قومی جدوجہد کو پروان چڑھا نا تھا او ریہ اخبار ہندو۔مسلم ہم آہنگی کا نقیب بھی رہا۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں اردو میڈیا کا کردار ہندوستان کی قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

اردو کا پہلا اخبار ”جام جہاں نما“ 1822 میں شائع ہوا اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ تک تقریباً 40/ اردو کے اخبارات جاری ہوچکے تھے، جنہوں نے عوام میں وطن پرستی او رملک آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی 1857 ء میں بہادر شاہ ظفر کے نواسے مرزا بیدار بخت کے تحریری حکم سے شائع ہونے والا اردو اور ہندی کا اخبار ”پیام آزادی“ ہے۔ جو حقیقی معنوں میں آزادی کا نقیب بن کر منظر عام پرآیا۔ اس اخبار نے جنگ کی آگ بھڑکانے میں ایندھن کا کام کیا، یہی وجہ ہے کہ انگریز حکمرانوں نے اس اخبار کو بند کرنے کے ساتھ اس کے پڑھنے والوں کو بھی سزا کا مستحق قرار دیا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں کے گھروں سے اس اخبار کا شمارہ یا ایک ورق دستیاب ہوا انہیں بھی انگریز حکومت کے عتاب کا شکار ہوناپڑا۔ اس اخبار کے پرنٹر پبلشر او رایڈیٹر بیدار بخت کو موت کی سزا دی گئی۔اس کے باوجود آگرہ سے مکندلال کی ادارات میں ہفت روزہ ”خیر خواہ خلق“  علی گڑھ سے سرسید احمد کی ادارت میں ”سائنٹفک سوسائٹی“ یا”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ“ او رلکھنؤ سے پہلے ”اودھ اخبار“ او راس کے بعد ”اودھ پنچ“ جاری ہوئے، ان اخبارات نے عوام میں آزادی کے لئے جدوجہد کاجذبہ اور سیاسی شعور پیدا کرنے کا اہم کام انجام دیا۔1860 ء میں دہلی سے مشہور ”اکمل الاخبار“ حکیم عبدالحمید نے شائع کیا۔ 1880 ء میں میرٹھ، آگرہ، لکھنؤ، علی گڑھ او رلاہور سے تقریباً 12/ اردو اخبارات شروع ہوئے، جنہوں نے جنگ آزادی کی مشعل کو مزید تیز کردیا۔ بیسویں صدی کاآغاز ہوتے ہی آزادی کے لیے قومی تحریک نے نئی کروٹ لی، حسرت موہانی او رظفر علی خاں نے اپنے اخبارات ”اردو ئے معلی“ اور ”زمیندار“ کے صفحات پر مضامین اوراشعار کے وسیلہ سے ملک کے عوام کو آزادی کی ضرورت و اہمیت سمجھانے کی بھرپور کوشش کی، بنگال سے مولانا ابوالکلام آزاد کا ”الہلال“ یا اس کی ضبطی کے بعد ”البلاغ“ دہلی سے محمد علی جوہر کے ”ہمددر“لکھنؤ سے”جواہر لال نہرو کے ”قومی آواز“،پنجاب سے لالہ لاجپت رائے کے ”وندے ماترم“،بجنور سے ”مدینہ“،لاہور سے ”ملاپ“، ”پرتاپ“،”انقلاب“ اور ”پیام“، دہلی سے ”ریاست“، ”الجمعیت“ اردو کے وہ اخبارات ہیں جو تحریک آزادی کی میں خبریں،پیغامات، تقاریر اور منصوبوں کو پھیلاکر نیز سلگتے عصری مسائل پر اداریے لکھ کر انگریز حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی۔ بھوپال سے ”صداقت“، ”صبح وطن“، ”آواز“ اور ”رہبر وطن“ کا جنگ آزادی میں نمایاں حصہ رہا، مذکورہ اخبارات کے مدیروں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں۔

بیسویں صدی کے آغاز سے 1947 تک تین ہزار سے زیادہ اردو کے اخبارات ورسائل شائع ہوئے۔ ان میں 90 فیصد اخبارات نے آزادی کی لڑائی میں مختلف طریقوں سے حصہ لیا اور قربانیاں پیش کیں۔ اس دور کے سیاسی قائدوں میں آپ کو دو خصوصیتیں ملیں گی اوّل صحافی ہونا، دوم وکالت کرنا، مہاتما گاندھی، مولانا آزاد، حکیم اجمل خاں، آصف علی، محمد علی جوہر، حسرت موہانی، بال گنگا دھر تلک، لالہ لاجپت رائے سبھی صحافی تھے۔ مہاتما گاندھی نے بھی اردو اخبار ”ہری جن“ نکالا۔ 1920 میں لاجپت رائے نے لاہور سے ”وندے ماترم“ نکالا۔ 1923 میں لالہ خوشحال چند خورشید نے ”ملاپ“، سوامی شردھا نند نے لالہ دیش بندھو گپتا کے ساتھ مل کر”تیج“ نکالا۔1927 میں لاہور سے انقلاب ”عبدالمجید سالک او رمولانا غلام رسول بحرنے جاری کیا۔ 1942 میں دہلی سے میر خلیل الرحمن نے ”جنگ“ جاری کیا، جو 1947 میں کراچی منتقل ہوگیا۔ 1944 میں جواہر لال نہرو نے ”قومی آواز“ کی بنیاد ڈالی۔

جنگ آزادی میں اردو صحافت کا رول بڑااہم رہا۔ اس دور کے جید صحافیوں میں محمد حسین آزاد، اودھ اخبار“ کے ایڈیٹر منشی نول کشور، تاریخ بغاوت ہند کے مدیر مکندلال، ہفت روزہ ”خیر خدا خلق“ کے منشی ایودھیا پرشاد، ”اردومعلی“ کے مدیر محمد حسرت موہانی،مولانا آزاد، محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان او رلالہ راجپت رائے، سوامی شردھا نند، لالہ دیش بندوگپتا، شورش کاشمیری، مولانا امداد صابری، منشی گوپی ناتھ امر، عبدالرزاق ملیح آبادی نے تحریک آزادی کے لئے ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی نے میڈیا کے فروغ میں اہم کردا ر ادا کیا ہے۔ موجودہ دور میں میڈیا کے کردار کا جائزہ لینے پر یہ امر واضح ہوتاہے کہ آج کا طاقتور میڈیا اپنے اہداف سے ہٹ کر نہایت بددیانتی کا شکار ہے۔ جو قابل غور اور اصلاح طلب ہے۔

15 اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/role-media-freedom/d/132942

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..